"HAC" (space) message & send to 7575

نو منتخب امریکی صدر کو درپیش بڑے چیلنجز

امریکہ کا صدارتی الیکشن ایک سخت مقابلہ تھا اور اگر اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے کہ سبکدوش ہونے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن کے نتائج کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، تو جوزف بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کے مابین تناؤ میں شدت پیدا ہو سکتی ہے۔ نئے صدر کے لئے پہلا چیلنج اس تقسیم کو ختم کرنا ہو گا جو انتخابی عرصے کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے جنگجویانہ بیانات کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ بائیڈن کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر کے بجائے تمام امریکیوں کے صدر ہیں۔
سب سے سنگین داخلی چیلنج یہ ہے کہ وبائی مرض کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ نئی انتظامیہ کی پالیسیاں کس حد تک ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں سے مختلف ہوں گی؟ نئی انتظامیہ کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے اور یومیہ اموات کی تعداد کو کم کرنے کیلئے میڈیکل سپورٹ سسٹم کو مستحکم کرنے پر زیادہ توجہ دینا ہوگی۔ دیکھنا ہوگا کہ نئی انتظامیہ وائرسپر قابو پانے کیلئے ویکسین کی جلد دستیابی کے سلسلے میں کیسی سہولت فراہم کرتی ہے۔ امریکی معیشت پر وبا کے منفی اثرات ایک اور چیلنج ہے۔ وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی دباؤ کے باعث بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔ پچھلے ایک سال کے دوران کچھ کاروباروں اور تجارت نے بہت نقصان اٹھایا ہے۔
پولیس کے ہاتھوں مختلف مواقع پر کچھ ایفروامریکی نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد پُرتشدد واقعات رونما ہونے کے باعث نسلی تعلقات پر توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے۔ اسی طرح لاطینی اور ہسپانوی بولنے والی آبادی اور امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کو یقین دہانی کرانے کی ضرورت ہے کہ انکے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا‘ اور ان پر غیر ضروری قانونی پابندیاں عائد نہیں کی جائیں گی۔
شہری مراکز میں تشدد ہمیشہ امریکہ میں ہوتے رہے ہیں۔ ماضی میں دائیں بازو کے ہارڈ لائن گروپ بھی موجود تھے۔ اب ان کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے اور ان میں سے کچھ میں تشدد کو خطرے بنا کر پیش کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ ان میں سے بیشتر نے صدر ٹرمپ کی حمایت کی تھی۔ اب امریکہ میں بھی بائیں بازو کے گروپس موجود ہیں جو دائیں بازو کے گروپوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ نئی امریکی انتظامیہ کیلئے یہ ضروری ہوگا کہ وہ ان کے جارحانہ اور پرتشدد رجحانات پر قابو پانے کی کوشش کرے اور انہیں قائل کرے کہ وہ اپنے نقطہ نظر کی وکالت کریں۔
نئے صدر کو عالمی سطح پر بھی بے پناہ مسائل کا سامنا ہے۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ''امریکہ فرسٹ‘‘ کی بات کی تھی لیکن ان کا خارجہ پالیسی کو چلانے کا طرزِ عمل عالمی سطح پر امریکی اثرورسوخ کو کم کرنے کا باعث بنا۔ اس کی ایک وجہ بین الاقوامی نظام کا بدلا ہوا کردار تھا اور جزوی طور پر اس کا سبب ڈونلڈ ٹرمپ کی غلط پالیسی اور یکطرفہ پن تھا۔ ان کی خارجہ پالیسی کی انتظام کاری کی وجہ سے امریکہ کے یورپی اتحادیوں میں تشویش پیدا ہوگئی اور ٹرمپ نے کچھ ممالک کے ساتھ غیرضروری تنازعات بھی اٹھا لئے تھے۔
ٹرمپ کے ماتحت امریکہ نے عالمی ماحولیاتی انتظامات سے دستبرداری اختیار کی اور عالمی ادارہ صحت سے امریکی انخلا کا بھی آغاز کیا گیا۔ ان اقدامات نے عالمی سطح پر امریکی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ ڈونلڈ ٹرمپ کے عالمی ادارہ صحت سے دستبرداری کے فیصلے کو ختم کر دے گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ نئی انتظامیہ ماحولیاتی امور پر دیگر ممالک کے ساتھ امریکی پالیسی میں عدم تعاون کو بھی بدل دے۔
یورپی ممالک کے ساتھ امریکی تعلقات کو بھی کچھ تناؤ کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ٹرمپ نے اصرار کیا کہ یورپی ریاستوں، خاص طور پر جرمنی کو، نیٹو کے تحت یورپ میں سکیورٹی کے اخراجات پورے کرنے کیلئے زیادہ مالی تعاون فراہم کرنا چاہئے۔ استدلال یہ پیش کیاکہ امریکی عوام جرمنی اور دیگر ممالک کے سکیورٹی کے زیادہ اخراجات نہیں اٹھا سکتے ہیں۔
عالمی طاقت کا محور کچھ سالوں سے چین کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ تجزیہ کار 21ویں صدی کو چین یا ایشیائی ممالک کی صدی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے چین کے ایک سرگرم عالمی کردار کے سفر کو مسدود کرنے کیلئے چین کی طرف جارحانہ پالیسی اپنائی۔ امریکہ میں چین کی سرمایہ کاری اور چین کی طرف سے امریکی ٹریژری بانڈز کی خریداری کو نظر انداز کرتے ہوئے ٹرمپ نے نہ صرف چین کے خلاف مہم شروع کی بلکہ چین پر دباؤ ڈالنے کیلئے ایشیا پیسیفک کے خطے کے کچھ ممالک کو متحرک بھی کیا۔ افریقہ اور ایشیا کے بہت سارے ممالک کے ساتھ چین کے معاشی اور سیاسی رابطوں کی لطیف توسیع کو روکنے کے اس طرح کے ایک انتظام میں امریکہ کے ساتھ آسٹریلیا، بھارت اور جاپان بھی شامل ہیں۔ ٹرمپ نے عالمی سطح پر کووڈ19 کے پھیلاؤ کیلئے چین کو مورد الزام ٹھہرایا کہ وبائی بیماری وہاں سے شروع ہوئی۔ ٹرمپ نے چین کے درآمدی سامان پر محصولات پر پابندیاں بھی عائد کردی تھیں۔ چینی حکومت نے جواب امریکہ سے آنے والے سامان پر اضافی ڈیوٹی عائد کرتے ہوئے دیا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے چین کے ''بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘‘ خاص طور پر پاک چین اقتصادی راہداری کی بھی مخالفت کی۔
بائیڈن انتظامیہ سے توقع نہیں کہ وہ چین کے خلاف ایسی جارحانہ پالیسی اپنائے گی؛ اگرچہ یہ چینی اثرورسوخ کو کم کرنے کیلئے کام کرتی رہے گی‘ لیکن چین کے بارے میں نرمی اختیار کرے گی اور اقتصادی روابط اور تجارتی فروغ کا سوچے گی؛ تاہم وہ بھارت کو چین کے مقابل لانے کا سلسلہ بھی جاری رکھے گی۔
توقع ہے کہ مشرق وسطیٰ کے بارے میں ٹرمپ کی پالیسیوں پر بھی نظرثانی کی جائے گی۔ ممکن ہے یہودیوں اور فلسطینیوں کیلئے دو آزاد ریاستوں کے فارمولے کی حمایت کی جائے؛ تاہم امریکی سفارت خانہ کو یروشلم منتقل کرنے کے ٹرمپ کے فیصلے کے ختم ہونے کی امید نہیں۔ ایران کے ساتھ امریکی تعلقات میں بہتری کے امکانات ہیں۔ جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے آپشن پر بھی غور ہو سکتا ہے جسے ٹرمپ نے منسوخ کردیا تھا؛ تاہم نئی انتظامیہ اس بات کی مخالفت کرتی رہے گی کہ وہ جوہری ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی کے حصول کے ایران کے عزائم کو سمجھتی ہے۔
پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات میں تھوڑی بہت تبدیلی آئے گی۔ امریکی توجہ فی الحال دوحہ میں کابل حکومت اور طالبان کے مابین ہونے والے مکالمے پر ہے۔ امریکہ توقع کرتا ہے کہ پاکستان طالبان پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے اس مذاکراتی عمل میں مدد فراہم کرے گا۔ اگر افغانستان میں امن بحال نہ ہوا تو امریکہ اس ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرائے گا جس کا اثر پاک امریکہ تعلقات پر پڑے گا۔
بھارت کے ساتھ امریکی تعلقات بڑھیں گے کیونکہ امریکہ ایشیا پیسیفک کے خطے میں بھارت کو اپنے سکیورٹی مفادات کیلئے ناگزیر سمجھتا ہے۔ نئی امریکی انتظامیہ پاک بھارت کشیدگی ختم کرانے میں موثر مدد فراہم نہیں کرے گی؛ اگرچہ یہ ان دونوں ممالک کے جنگ کی طرف جانے کے بھی حق میں نہیں ہو گی۔ سابق انتظامیہ کی طرح بائیڈن انتظامیہ بھی چاہے گی کہ پاکستان اور بھارت مل کر مسئلہ کشمیر کا قابل قبول حل نکالیں؛ تاہم وہ بھارت کے اتفاق رائے کے بغیر کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قرارداد پر عمل درآمد کی حمایت نہیں کرے گی۔ سی پیک کے بارے میں نئی انتظامیہ کی پالیسی ابھی واضح نہیں۔ امریکہ براہ راست اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے توسط سے مالی مدد فراہم کرتا رہے گا؛ تاہم پاکستان کے امریکی طرز عمل میں کسی اہم تبدیلی کے بارے میں پرامید ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ دونو ں کے مابین گہری شراکت کا دور ختم ہو چکا۔ ہم عملی اور باہمی مفید امور پر مبنی تعلقات کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ مثبت اور منفی‘ دونوں طرح کے رجحانات پاک امریکہ تعلقات میں باہمی تعاون کے حامل ہوں گے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں