2020 سالِ گزشتہ ہو چکا‘ لیکن اس کے دوران رونما ہونے والے واقعات کے اثرات اس نئے سال میں بھی محسوس کئے جاتے رہیں گے۔ اس گزرے سال میں پیش آنے والے معاملات نے واضح کر دیا کہ عالمی سیاست میں اب ایک یا دو بڑی طاقتوں کا غلبہ نہیں ہو سکتا ہے۔ بین الاقوامی نظام زیادہ پیچیدہ اور کثیر جہتی ہو چکا ہے‘ جس میں متعدد فوکل سینٹرز ہیں‘ جو عالمی امور کی نوعیت اور سمت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ طاقت کے ان محوروں میں بڑی طاقتیں شامل ہیں جن کی عالمی سطح پر رسائی اور پہنچ ہے اور کچھ علاقائی طاقتیں ہیں‘ جن کا اثر صرف ایک خاص خطے تک محدود ہے۔ 2020 میں عالمی سیاست کی تین چیزیں یا معاملات واضح ہو کر سامنے آئے‘ آئندہ چند سالوں میں جن کو زیادہ اہمیت حاصل ہو جائے گی۔ یہ نمایاں معاملات درج ذیل ہیں:
پہلا: بڑی طاقتوں اور علاقائی ریاستوں نے ایک دوسرے کے ساتھ شراکت داری کی اور ساتھ ہی ان دوسری ریاستوں کا تعاون بھی حاصل کیا جو بڑی طاقت ہونے کے زمرے میں نہیں آتی ہیں۔ یہ ایک مشترکہ ایجنڈے پر دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنے یا اپنے ایجنڈے کیلئے عالمی سطح پر تعاون حاصل کرنے کی صلاحیت ہے جو کامیابی کی ضمانت دیتی ہے۔ اس سے بین الاقوامی امور پر سفارتکاری کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔
دوسرا: کسی ملک کی معیشت ہی یہ ثابت کرتی ہے کہ عالمی سطح پر اس کا کردار کیا ہو سکتا ہے۔ اسی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ اپنے عالمی ایجنڈوں کے لئے دوسروں کی حمایت کو متحرک کرنے کی کتنی صلاحیت کی حامل ہے۔ کوئی بھی ملک مضبوط اور مستحکم معیشت کے بغیر عالمی سطح پر اپنے اثر و رسوخ کو استعمال نہیں کر سکتا‘ کیونکہ یہ ایک مستحکم معیشت ہی ہے جو عالمی برادری کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتی ہے۔
تیسرا: سال 2020 نے یہ بھی واضح کیا کہ ریاستوں کو بین الاقوامی سطح پر حمایت کو متحرک کرنے کے لئے یعنی بین الاقوامی سطح پر حمایت حاصل کرنے کے لئے سرکاری چینلز کے ذریعے تعامل کے علاوہ غیر سرکاری چینلز اور معاشرتی سطح پر روابط کو بھی بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں اس مقصد کے لئے آرٹ، فن تعمیر، ادب، انسانی تخلیقی صلاحیتوں، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی اور تاریخی و ثقافتی حوالوں سے ریاست کے نرم امیج کو اجاگر کرنا بھی بے حد اہم ہے۔ ہر ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا امیج بہتر بنانے کے لئے اور اپنے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے‘ اگر کوئی ہے‘ کے انسداد کے لئے جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مواصلاتی نظام کا استعمال کرنا چاہئے تو کرے۔
حال ہی میں ختم ہونے والے سال میں اگر کسی بھی واقعے کا عالمی سطح پر اثر پڑا تو وہ کورونا وائرس کی وبا ہے‘ جو تیزی سے پھیلی اور جس نے دنیا کی بیشتر ریاستوں کو بری طرح متاثر کیا۔ ہمیں سب سے پہلے نومبر دسمبر 2019 میں چین کے علاقے ووہان میں اس وائرس کی موجودگی کا پتا چلا تھا۔ یہ اتنی تیزی سے پھیلا کہ فروری‘ مارچ 2020 تک پوری دنیا اس کی زد میں آ چکی تھی۔ سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ اس کے سب سے زیادہ مضر اثرات ان ممالک میں مرتب ہوئے‘ جہاں صحت اور نگہداشت کی بہترین سہولیات موجود تھیں۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپی ریاستیں (خاص طور پر اٹلی) زیادہ شرح اموات کے ساتھ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک تھے۔ دوسرے ممالک جن کو اس وائرس کی وجہ سے بڑی تعداد میں اموات کا سامنا کرنا پڑا‘ وہ بھارت اور برازیل تھے۔ کووڈ19 سے متاثرہ ممالک کی معیشتوں کو بڑا دھچکا لگا۔ متعدد قسم کی کاروباری اور تجارتی سرگرمیاں تقریباً بند ہو گئیں۔ غریب‘ پس ماندہ اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں صورت حال زیادہ خراب تھی۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور کچھ امیر اور صنعتی ممالک نے ترقی پذیر ممالک کو قرضوں میں کچھ ریلیف فراہم کیا اور کچھ حوالوں سے مالی مدد بھی دی گئی۔ کورونا وائرس کی پہلی لہر کی شدت سالِ گزشتہ میں جولائی اگست تک کچھ کم ہو گئی‘ جس سے یہ امید بندھی کہ جن ممالک کو اس وبا کی وجہ سے نقصان پہنچا ان کا جلد ازالہ ہو جائے گا اور ان ریاستوں کی معیشت اور افراد کی آمدنی میں اضافہ ہو گا‘ تاہم اسی سال ستمبر اکتوبر سے کووڈ 19 کی دوسری لہر نے معاشی بحالی کی امیدوں کو مایوسی میں تبدیل کر دیا۔
کووڈ 19 کے پھیلاؤ کے حوالے سے دو معاملات ایسے سامنے آئے کہ جن سے بین الاقوامی نظام میں عدم مساوات زیادہ واضح ہو کر سامنے آ گئی۔ سب سے پہلے، غریب ممالک اور بیشتر دوسرے ممالک میں آبادی کے محروم طبقے کو معاشی معاملات میں متمول ممالک اور دولت مند لوگوں کی نسبت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا‘ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ اس وبا سے پس ماندہ طبقات اور ممالک زیادہ متاثر ہوئے۔ دوسرا، جب معاملہ اس وائرس سے لاحق ہونے والی بیماری کے خلاف تحفظ کے لئے بنائی گئی ویکسین کی دستیابی تک پہنچا تو امیر اور صنعتی ممالک کے لوگ اس موقع سے فائدہ اٹھانے والے پہلے افراد تھے۔ غریب اور ترقی پذیر ممالک کو اس سہولت کے حصول کیلئے کچھ ہفتے یا مہینے انتظار کرنا پڑے گا۔ علاوہ ازیں انہیں اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کیلئے مالی وسائل کے حوالے سے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان ممالک کے پاس اتنے وافر پیسے موجود نہیں کہ جلد ویکسین خرید سکیں۔
گزشتہ برس ریاست ہائے متحدہ امریکہ مضبوط فوجی طاقت اور سب سے بڑی معیشت کی پوزیشن پر برقرار رہا، لیکن وہ عالمی نظم و ضبط پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے خاطر خواہ سفارتی کامیابیاں حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ''امریکہ فرسٹ‘‘ یعنی سب سے پہلے امریکہ کے نعرے کے باوجود، امریکہ کو عالمی سطح پر متعدد شعبوں میں اور متعدد معاملات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ دفاعی اتحاد نیٹو کے یورپی شراکت داروں کے ساتھ اس کے تعلقات کو اس وقت زک پہنچی جب صدر ٹرمپ نے مطالبہ کیا کہ بڑے یورپی ممالک نیٹو کے لئے زیادہ مالی حصہ ڈالیں‘ یعنی اس ادارے کو زیادہ فنڈز فراہم کریں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نومبر میں پیرس کے ماحولیاتی معاہدے سے امریکہ کو باہر نکالا لیا۔ علاوہ ازیں انہوں نے عالمی سطح پر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کیلئے چین کو باضابطہ طور پر ذمہ دار ٹھہرانے سے انکار پر عالمی ادارہ صحت پر کڑی تنقید کی اور اس کو فنڈز فراہم کرنے کے عمل سے دستبرداری اختیار کر لی۔ تاہم اب ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی الیکشن ہارنے کے بعد امریکہ کی پالیسیوں میں تبدیلی آنے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ یہ توقع بڑھی ہے کہ جب 20 جنوری 2021 کو نیا امریکی صدر اقتدار سنبھالے گا، تو وہ امریکہ کو پیرس کلائمیٹ معاہدے میں واپس لے آئے گا اور عالمی ادارہ صحت کی اعانت سے دستبرداری کا عمل بھی روک دے گا۔
ختم ہونے والے سال کا آغاز امریکہ اور چین کے مابین ایک بڑے تجارتی معاہدے سے ہوا تھا، لیکن یہ تعلقات اس سال کے وسط سے ہی اس وقت مشکل میں پڑ گئے جب امریکہ نے چینیوں کی منتخب درآمدات پر نئے محصولات عائد کر دیئے۔ چین نے اس کے جواب میں امریکی درآمدات پر اسی طرح کے محصولات عائد کر دیئے۔ اگرچہ چین اور امریکہ کے مابین تجارتی اور معاشی تعلقات اب بھی وسیع ہیں، لیکن صدر ٹرمپ نے ان تعلقات میں سے کچھ پر کٹ بیک کی کوشش کی۔ جب چین نے ہانگ کانگ میں نیا سکیورٹی قانون نافذ کیا تھا تو صدر ٹرمپ نے چین پر تنقید کی تھی۔ (جاری)