ریاستہائے متحدہ امریکہ سب سے مضبوط فوجی طاقت اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے؛ تاہم عالمی سیاست کی سمت کے تعین کے حوالے سے اس کی صلاحیتوں کا گراف گزشتہ کچھ برسوں میں نیچے آیا ہے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد‘ ایک وقت تھا، جب یہ کہا گیا کہ امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔ اب اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے اختتام پر‘ عالمی امور میں امریکہ کی بالا دستی کے بارے میں بات کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ بین الاقوامی نظام میں امریکی کردار میں کمی واقع ہوئی ہے، حالانکہ اب بھی امریکہ اہمیت کی حامل طاقت ہے۔ عالمی نظام میں متعدد عوامل نے امریکہ کی اولیت کیلئے موجودہ چیلنجوں میں اضافہ کیا ہے۔ ان چیلنجوں میں بین الاقوامی نظام کی ساخت میں بدلاؤ‘ خالص فوجی طاقت سے طاقت کے دوسرے ذرائع میں تبدیل ہونا‘ ایٹمی اور جنگ کی جدید ٹیکنالوجیز میں مغربی غلبے میں کمی واقع ہونا‘ خطوں کی سطح پر طاقتور ریاستوں کا عروج اور علاقائی تنازعات اور مسائل پر زیادہ توجہ مرکوز ہونا شامل ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد بین الاقوامی نظام کی ساخت میں بہت زیادہ تبدیلی آئی ہے۔ آغاز امریکہ اور سوویت یونین کے مابین مخاصمت سے ہوا۔ دونوں طاقتیں بین الاقوامی نظام کے دو مخالف قطبوں کی نمائندگی کرتی تھیں۔ عالمی نظام ان دو قطبوں کی بنیاد پر ترتیب دیا گیا۔ صرف ایک استثنا کچھ ممالک تھے جنہوں نے غیر جانبداری اختیار کی اور کسی گروپ میں شامل نہیں ہوئے۔ سپر پاورز کے مابین تناؤ میں ساٹھ کی دہائی کے آخر اور ستر کی دہائی کے اوائل میں کچھ کمی آنا شروع ہوئی، جس سے کچھ دوسری ریاستیں اقتدار کی سیاست کے مراکز کے طور پر ابھرنے کے قابل ہو سکیں۔ اس عمل کو ایک کثیر قطبی دنیا کا آغاز قرار دیا گیا، حالانکہ امریکہ اور سوویت یونین کو تب بھی دوسروں پر برتری حاصل تھی۔ دسمبر 1991 میں، سوویت یونین کے ٹوٹنے کے ساتھ امریکی غلبے کے دور کا آغاز ہوا؛ تاہم ، اکیسویں صدی کے آغاز تک، سپر پاور کے طور پر امریکہ کے سامنے نئے چیلنجز پیدا ہونا شروع ہو چکے تھے۔ ٹرانس نیشنل دہشتگردی ورلڈ آرڈر‘ جس میں مغربی طاقتوں کو غلبہ حاصل تھا‘ کیلئے چیلنج کے طور ابھری۔ اس کے بعد عالمی سطح پر روس کی آہستہ آہستہ بحالی ہوئی۔ چین ایک اور ابھرتا ہوا سپر سٹار تھا جس کی ترقی کی رفتار روس سے تیز تھی۔ یورپی یونین و جاپان اور مشرقی ایشیا کی ابھرتی ہوئی معیشتیں بھی عالمی سیاست اور عالمی اقتصادیات کے اہم مراکز کے طور پر ابھریں‘ لہٰذا، اب امریکہ اپنے عالمی ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے کیلئے ان عالمی مراکز کے ساتھ بات چیت کرتا ہے۔
اکیسویں صدی نے چین کے عروج اور جنوب مشرقی ایشیا اور ایشیا پیسیفک کے خطے میں بڑھتی ہوئی معاشی سرگرمی کا مشاہدہ کیا۔ چینی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو عالمی معاشی رابطے بڑھانے کا منصوبہ ہے جو چین کو موقع فراہم کر رہا ہے کہ وہ پوری دنیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکے۔ سرد جنگ کے دور کے ہتھکنڈوں کے ذریعے چین کا سدِ باب کرنے کی امریکی کوششیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتیں کیونکہ عالمی سطح پر حالات اس قدر بدل چکے ہیں کہ ماضی میں سوویت یونین کا راستہ روکنے کیلئے امریکہ جو ہتھکنڈے استعمال کرتا رہا ہے‘ وہ آج کارگر ثابت نہیں ہو سکتے۔
آج کی عالمی سیاست کا ایک اہم سبق یہ ہے کہ ابھرتی ہوئی معاشی اور عسکری طاقت کو الگ تھلگ کرنے کی حکمت عملی کامیاب نہیں ہو سکتی‘ لہٰذا، کسی ایشو پر مبنی تعلقات کو آگے بڑھانے کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ مثبت اور منفی‘ دونوں باہمی تعامل ایک ساتھ چل سکتے ہیں۔ یہ طریق کار سفارتکاری اور دوسرے ممالک کے ساتھ باہمی روابط کو سب سے زیادہ ترجیح دینے کا مطالبہ کرتا ہے۔
آج عالمی سیاست میں ایک اور تبدیلی بھی رونما ہو رہی ہے۔ عالمی کردار میں عسکری طاقت کے علاوہ دوسرے کئی عوامل بھی اہمیت کے حامل ہو چکے ہیں۔ طاقت کے نئے اوزاروں میں معاشی وسائل‘ گرانٹس، قرض اور سرمایہ کاری کی صلاحیت بھی شامل ہو چکی ہے۔ تجارت اثرورسوخ بڑھانے کا ایک اور ذریعہ ہے۔ ٹیکنالوجی خصوصاً انفارمیشن ٹیکنالوجی ریاستوں کے کردار کو مستحکم کرنے کیلئے اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ سافٹ پاور کا استعمال بھی اثرورسوخ کو مضبوط کرتا ہے۔ سافٹ پاور میں معاشرتی تعلقات، سیاحت و ثقافت‘ ورثہ، عالمی میڈیا کے ساتھ تعامل، معیاری تعلیم‘ پیشہ ورانہ تربیت کی سہولیات اور انفراسٹرکچر کے انتظامات شامل ہیں۔ اب کافی ریاستیں طاقت کے ان نئے انسٹرومنٹس کی حامل ہیں‘ مثال کے طور پر جدید ٹیکنالوجی اور ہائی ٹیک ہتھیاروں کی ترقی و بہتری صرف مغرب تک محدود نہیں رہی اب کافی ریاستوں کے پاس جوہری اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے دوسرے ہتھیار موجود ہیں۔ اس تبدیلی نے مغرب کی خصوصی حیثیت کو کم کر دیا ہے۔ متعدد ریاستوں نے علاقائی اثرورسوخ قائم کر لیا ہے جسے وہ باقی دنیا کے ساتھ بات چیت کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ ان ریاستوں کو شراکت کیلئے بڑی طاقتوں نے آمادہ کیا ہے۔ ترکی، بھارت، ملائیشیا، جنوبی کوریا، جاپان، مصر، سعودی عرب، کویت، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور برازیل جیسی ریاستیں اس زمرے میں آتی ہیں۔ بیرونی بڑی طاقتوں کو ان (ریاستوں) کے قریبی ممالک میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کیلئے ان ریاستوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ علاقائی ریاستیں بین الاقوامی نظام میں اپنی سودے بازی کی طاقت کو بہتر بنانے کیلئے اپنے علاقائی چنگل کو استعمال کرنا چاہتی ہیں۔
ہم عالمی سیاست پر علاقائی امور کے بڑھتے ہوئے اثرات کا بھی مشاہدہ کر چکے ہیں۔ افغانستان، عراق، یمن اور شام میں جنگوں‘ لیبیا میں کرنل قذافی کا اقتدار ختم کرنے اور قطر اور دیگر قدامت پسند ریاستوں کے مابین تین سال کے پریشان کن تعلقات اور سعودی ایران جاری تنازع نے علاقائی معاملات کو عالمی سطح پر اجاگر کر دیا ہے۔ ان مسائل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اکیلے ایک یا دو ریاستیں ان معاملات پر دوچار ریاستوں میں اپنی ترجیحات نافذ نہیں کر سکتیں۔ کورونا وائرس کے پھیلائو نے عالمی سیاست میں ایک نئی جہت شامل کر دی ہے کیونکہ اس نے تمام ریاستوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے چین کو اس وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا جس نے چین امریکہ تعلقات میں مسائل کو مزید بڑھا دیا تھا۔ ترقی پذیر اور غریب قوموں کو ویکسین کی فراہمی میں تاخیر کا معاملہ بھی ممالک میں تلخی کا باعث بنا ہے ۔
موجودہ دور کی دنیا میں کسی ملک کی اہمیت کے لئے دو امور کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ پہلا ، مضبوط مقامی معاشی بنیاد اور باقی دنیا کے ساتھ مثبت معاشی روابط۔ علاقائی حدود میں معاشی تعلقات‘ آزادانہ تجارت ، خدمات اورسرمایہ کاری کا آزاد بہاؤ کسی ملک کو بین الاقوامی نظام سے وابستہ بنا دیتا ہے ۔ دوسرا یہ کہ کوئی ریاست کس طرح سفارت کاری اور نرم طاقت کو استعمال اور متنوع ممالک کے ساتھ شراکت قائم کرسکتی ہے ، یہ چیز عالمی سطح پر اس کے اثر و رسوخ میں اضافے میں مددگار ثابت ہوتی ہے ۔
ہم آج جس چیز کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ عالمی نظام میں محض امریکی ریاست کا تیزی سے کم ہوتا ہوا کردار نہیں بلکہ کئی دوسری ریاستوں کا بتدریج عروج پہ آنا بھی ہے۔ اس سے بہت ساری ریاستوں کو عالمی سطح پر متحرک ہونے کا موقع مل رہا ہے‘ اگر وہ جدید ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرلیں ، ایک مضبوط مقامی معاشی بنیاد قائم کریں‘ باقی دنیا کے ساتھ مثبت معاشی اور تجارتی روابط استوار کریں اور نرم طاقت کے استعمال کا فن سیکھ لیں۔ اور ہاں‘ ڈپلومیسی بھی۔