قومی اسمبلی میں بجٹ مباحثے کے پہلے تین دن ایوان میں ہنگامہ آرائی ہوتی رہی۔ کچھ ارکان نے گالی گلوچ کیا اور بجٹ کی بھاری دستاویزات کو ایک دوسرے پر اچھالا۔ اپوزیشن نے وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر میں خلل ڈالنے کیلئے ڈیسک بجائے اور نعرے بازی میں مصروف رہی۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں تین دن رکاوٹ کے بعد‘ حکومت اور اپوزیشن کے رہنما ایک ساتھ بیٹھے اور انہوں نے منظم انداز میں بجٹ اجلاس منعقد کرنے پر اتفاق کیا۔ اس تفہیم کے بعد فریقین نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس منظم انداز میں آگے بڑھا۔
مذکورہ پیشرفت سے پتا چلتا ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں چاہیں تو پُرامن اور منظم انداز میں پارلیمانی اجلاس منعقد ہو سکتا ہے۔ رکاوٹیں ایک شعوری پالیسی کے تحت کھڑی کی جاتی ہیں اور اکثر‘ پارٹی کی اعلیٰ قیادت ان اراکین کی تعریف کرتی ہے جو سیاسی حریفوں کی تقاریر میں خلل ڈالتے ہیں۔
پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اور پارلیمانی کمیٹیوں میں سیاسی رہنماؤں کا طرزِ عمل سیاسی اداروں کی کلیدی کامیابیوں اور ناکامی کا سبب بنتا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو 1988 سے 1999ء اور پھر 2008ء سے لے کر آج تک جو سیاسی تجربہ ہوا‘ اس سے سبق سیکھنا چاہئے کہ ایک دوسرے کے ساتھ گستاخانہ رویہ‘ پارلیمنٹ کے اصولوں کا احترام کرنے سے انکار اور پارلیمنٹ کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی سے ان کے طویل مدتی مفادات کو نقصان پہنچا ہے۔ یہ سب اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے کیونکہ ایسی سرگرمیاں نہ صرف ان کی اپنی ساکھ کو مجروح کرتی ہیں بلکہ منتخب سیاسی اداروں کے کردار کو بھی کمزور کرتی ہیں۔
اگر سیاسی قائدین منتخب سیاسی اداروں کی اولیت کو برقرار رکھنا اور غیر منتخب اداروں کے کردار کو محدود کرنا چاہتے ہیں تو انہیں کم از کم دو بنیادی امور پر توجہ دینا ہو گی: اول‘ انہیں اقتدار کے حصول کی بے قابو جدوجہد ترک کرنا ہو گی اور سیاسی مخالف کو سیاست سے ناک آئوٹ کرنے کی خواہش پر قابو پانا ہو گا۔ انہیں مہذب برتاؤ کرنا چاہئے اور سیاسی امور طے کرتے اور اپنے سیاسی حریف کے بارے میں تبصرے کرتے ہوئے خود پر قابو رکھنا چاہئے۔ ایوان میں پوسٹر آویزاں کرنا یا ایوان میں بستر یا چارپائی لانا‘ جیسا کہ 28 جون 2021ء کو سندھ اسمبلی میں ہوا تھا‘ غیر ذمہ دارانہ حرکات ہیں۔ انہیں اہم قومی امور پر اور پارلیمنٹ میں معاملات چلانے پر کم سے کم اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں اپنے طرز ِعمل سے یہ ظاہر کرنا چاہئے کہ وہ پارلیمانی اصولوں کا احترام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی عزت کا خیال رکھتے ہیں۔
دوم‘ بڑی سیاسی جماعتوں کو پارلیمنٹ کو قانون سازی کے ایک مؤثر ادارے میں تبدیل کرنا چاہئے۔ وہاں پیش کردہ بلز کی ایوان اور کمیٹیوں میں اچھی طرح جانچ ہونی چاہئے۔ پارلیمنٹ کو تنازعات کے حل کیلئے ایک فورم کے طور پر بھی کام کرنا چاہئے۔ اسے مسابقتی سیاسی جماعتوں کے درمیان معاملات طے کرنے کیلئے سیاسی میکانزم تیار کرنے چاہئیں اور انہیں وفاقی اور صوبائی حکام کے مابین پیدا ہونے والے معاملات کو بھی آئین کے دائرۂ کار کے اندر رہ کر حل کرنا چاہئے۔ پارلیمنٹ کو محض لوگوں کی ضروریات اور خواہشات کی عکاسی نہیں کرنی چاہئے‘ بلکہ اسے قانون سازی اور حکومت کی رہنمائی کے ذریعے یہ مظاہرہ بھی کرنا چاہئے کہ وہ معاشرتی مسائل کو حل کرنے کی کوشش اور عام لوگوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے میں کردار ادا کرتی ہے۔
اگر سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما مذکورہ بالا معاملات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پارلیمانی امور میں نظم و نسق قائم کر سکیں تو اس سے پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں‘ دونوں کے کردار کو تقویت ملے گی۔ اس سے سیاسی رہنماؤں کا احترام بڑھے گا اور عوام سیاسی اداروں اور سیاسی عمل کے ساتھ مضبوط روابط بھی استوار کریں گے۔اگر عام لوگ سیاسی اداروں سے قریبی طور پر جڑے ہوئے ہوں اور اپنے رہنماؤں کا احترام کرتے ہوں تو سویلین ادارے مضبوط ہو جاتے ہیں۔ اس طرح سویلین اداروں اور سویلین عمل کیلئے یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی اولین حیثیت برقرار رکھیں۔
اگر سیاسی رہنما سیاسی معاملات کو طے اور باہمی اختلافات کو حل کرنے کیلئے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو سیاسی دائرۂ کار میں عدلیہ کا کردار بڑھ جاتا ہے۔ سیاسی مسائل بنیادی طور پر سیاسی اداروں‘ جیسے پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح‘ آرمی کو ان کاموں کو سرانجام دینے کیلئے بلانے‘ جو سویلین اداروں کو سنبھالنے چاہئیں‘ کا عمل سول اداروں کے کردار کو کمزور کرتا اور فوج کے سیاسی اثر و رسوخ کو بڑھاتا ہے۔ یہ بات قابلِ فہم ہے کہ سیلاب‘ طوفان‘ زلزلے جیسی بڑی قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے فوج کو طلب کیا جاتا ہے‘ لیکن عام سرکاری کام کیلئے فوجی حکام کو نہیں بلایا جانا چاہئے۔ اس طرح کی کچھ مثالیں بجلی کی میٹر ریڈنگ‘ قومی مردم شماری‘ سیاسی احتجاج کے نتیجے میں پیدا ہونے والی امن و امان کی صور تحال‘ گھوسٹ سکولوں کا پتا لگانا‘ کسی بڑی عمارت کے گرنے کے بعد ملبے کو ہٹانا‘ عام انتخابات اور محرم کے موقع پر سکیورٹی کے فرائض‘ شاہراہوں کی مرمت و تعمیر‘ اور شہری سہولتوں کی فراہمی وغیرہ ہیں۔ سویلین کاموں کیلئے فوج پر سویلین حکومت کا بار بار انحصار سویلین اداروں کی کمیوں اور خامیوں کو ظاہر کرتا ہے اور اداروں کو اپنا کردار بڑھانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں‘ سویلین رہنماؤں اور سویلین اداروں کو گڈ گورننس اور سیاسی مسئلے کے حل کیلئے ایک موثر سویلین فریم ورک تشکیل دینا چاہئے۔ ترکی اور انڈونیشیا کا تجربہ بتاتا ہے کہ شہری ادارے اور رہنما اپنی بہتر کارکردگی اور لوگوں کو بنیادی خدمات کی فراہمی کے ذریعے سیاسی نظام میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کر سکتے ہیں۔ کسی ملک کی معیشت سویلین اداروں کی کامیابی کی کلید ہوتی ہے۔ ترکی میں موجودہ حکمران پارٹی اے کے پی 2002ء میں برسرِ اقتدار آئی تھی۔ تب سے ترک حکومت معیشت میں بہتری لائی ہے۔ معیشت کو سنبھالنے سے حکومت کو لوگوں کی حمایت حاصل کرنے میں مدد ملی جس نے سویلین حکومت کی پوزیشن کو مستحکم کیا۔
ترقی پذیر ممالک میں گڈ گورننس اور مؤثر سیاسی نظم و نسق کو یقینی بنائے بغیر سویلین اولیت کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ سویلین اداروں کو اپنی کارکردگی اور لوگوں کو بنیادی خدمات کی فراہمی کے ذریعے عام لوگوں سے تعلق پیدا کرنا چاہئے۔ سیاسی اداروں اور سیاسی عمل سے لوگوں کی وفاداری جتنی زیادہ ہو گی سویلین اور سیاسی ادارے اتنے ہی مضبوط ہوں گے۔
اپوزیشن جماعتوں کا کردار بھی اہم ہے۔ اگر حکمران جماعت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ استوار کریں‘ سیاسی نظام کو چلانے کیلئے کم از کم ضروری اتفاقِ رائے پیدا کریں‘ ایک دوسرے کو برداشت کریں یا ایک دوسرے کا احترام کریں تو سویلین ادارے مضبوط ہو جائیں گے۔ اگر حکمران جماعت اور اپوزیشن جماعتیں ہمیشہ ایک دوسرے کے گلے کی پھانس بنی رہیں اور ایک دوسرے کو جائز کھلاڑی کے طور پر قبول نہ کریں تو سیاست غیر یقینی اور عدم استحکام کا شکار ہو جائے گی۔
بجٹ اجلاس کے بعد‘ پی ٹی آئی اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے انتخابی اصلاحات کی امید ہے۔ یہ ایک امتحان ہو گا۔ اگر وہ قومی اہمیت کے حامل اس مسئلے پر متفق ہو سکیں‘ اگر وہ ہم آہنگی سے کام کریں گے تو سیاسی نظام میں ان کے کردار کو تقویت ملے گی۔ مستحکم اور ہم آہنگی والی سیاست معاشی ترقی کے امکانات کو بھی بہتر بناتی ہے جس کے نتیجے میں منتخب سویلین اداروں کیلئے سیاسی نظام میں اہم کردار ادا کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔