"HAC" (space) message & send to 7575

افغانستان میں امریکی نظام ناکام کیوں ہوا؟

15 اگست 2021 کو طالبان کی کابل میں واپسی یہ سمجھنے کے لیے ایک قابل ذکر مثال ہے کہ امریکہ جیسی سپر پاور اپنے عالمی ایجنڈے کو پورا کرنے میں ہمیشہ کامیاب کیوں نہیں ہوتی؟ طاقت کی حدود کیا ہیں؟ کس چیز نے افغان طالبان کو ایک عسکری تحریک کے طور پر بیس سال تک زندہ رکھا؟ جیسا کہ امریکہ کو طاقت کی محدودات کا سامنا کرنا پڑا، کیا طالبان کو کابل پر قبضہ کرنے کے بعد اسی طرح کا چیلنج درپیش ہے؟ کیا افغانستان میں حکمرانی کے حوالے سے طالبان کی طاقت کی بھی کچھ حدود ہیں؟
افغانستان کے تازہ واقعات سے ایک بار پھر بے لگام عسکری طاقت کی محدودات کا مظاہرہ ہوا ہے۔ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت اور سب سے بڑی معیشت ہے۔ یہ کسی بھی طاقتور ملک کو چیلنج کر سکتا ہے یا عسکری لحاظ سے کمزور اور داخلی طور پر منقسم ملک میں حکومت کا نظام ختم کر سکتا ہے یا حکومت کو غیرمستحکم کر سکتا ہے‘ لیکن یہ سب کچھ ایسا مستحکم سیاسی و حکومتی نظام وضع کرنے میں امریکی کامیابی کی ضمانت نہیں دیتا جو امریکی مفاد سے جڑا ہوا ہو۔ امریکہ نے افغانستان پر اکتوبر 2001 اور عراق پر مارچ 2003 میں حملے کئے اور افغان طالبان اور صدام حسین‘ کی حکومتوں کو بے دخل کر دیا‘ تاہم وہ دونوں ممالک میں سیاسی صورتحال کو مستحکم کرنے میں ناکام رہا۔ اسے دونوں ملکوں سے مشکل حالات میں اپنی فوج واپس بلانا پڑی۔
تاریخ سے کافی مثالیں مل سکتی ہیں کہ عسکری لحاظ سے طاقتور ریاستیں متنازع صورتحال کے کوئی تسلی بخش سیاسی اور عسکری حل یا نتائج حاصل کرنے میں ناکامی رہیں۔ سرد جنگ کے خاتمے اور پچھلی دو دہائیوں کے دوران طاقت کی عالمی سیاست میں تبدیلیوں کے بعد یہ مزید مشکل ہو چکا ہے۔ ایک روایتی عسکری طاقت دوسری روایتی عسکری طاقت کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ ایسی صورتحال سے مختصر مدت کے لئے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے‘ تاہم ہدف شدہ ریاست اور معاشرے میں مکمل تبدیلی کے حوالے سے عسکری سطح پر کامیابیوں کو قائم رکھنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔ روایتی عسکری طاقت پر بہت زیادہ انحصار کرنے کی یک رخی حکمت عملی عسکری اور سیاسی ایجنڈوں کے حصول کا قابلِ تجویز اصول نہیں ہے۔ اگر مقصد دشمن کی تباہی اور لوٹ مار سے آگے بڑھنا ہو تو عسکری حکمت عملی کو طاقت کے کئی غیر عسکری ذرائع کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
طاقت کے عسکری اور غیر عسکری ذرائع کا جوڑ اس وقت زیادہ اہم ہوجاتا ہے جب مسلح تصادم ایک ایسے مخالف کے ساتھ ہو جو غیر روایتی ہو، جزوی طور پر پوشیدہ ہو، اور ایک مخصوص جگہ پرموجود نہ ہو۔ ایسے مخالف میں بین الاقوامی عسکری تحریکیں شامل ہیں‘ جن کے اراکین انتہائی متحرک اور اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر غیر معینہ مدت تک لڑنے کیلئے پُرعزم ہوتے ہیں۔ افغان طالبان اسی زمرے میں آتے ہیں جو امریکی فوجی حملے سے بچنے میں کامیاب رہے۔ ایسے غیر روایتی ڈھانچے انتہائی مشکل ماحول میں زندہ رہنے کا انتظام کر سکتے ہیں اور طویل عرصہ بعد بھی متحرک ہو سکتے ہیں۔ یہ تحریکیں مضبوط معاشرتی جڑیں قائم کرلیتی ہیں‘ علاوہ ازیں ان کو نظریاتی ہم آہنگی بھی حاصل ہوتی ہے جو انہیں زندہ رہنے میں مدد دیتی ہے۔
امریکہ نے نومبر2001 میں کابل سے طالبان کی پہلی حکومت کا خاتمہ کرکے دسمبر میں حامد کرزئی کو عبوری صدر مقرر کیا تھا۔ اشرف غنی ستمبر 2014 میں صدرِ افغانستان بنے۔ دونوں حکومتوں نے امریکہ کی حفاظتی چھتری تلے کام کیا اور جمہوریت، انسانی حقوق، جدید تعلیم اور خواتین کے بہتر کردار کے نام پر وفاداروں کا ایک نیٹ ورک بنا لیا۔ اس نیٹ ورک میں بہت سے وہ افغان بھی شامل ہو گئے جو بیرون ملک سے افغانستان واپس آئے تھے تاکہ نئی کابل حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں یا امریکی فوجیوں کا ساتھ دیں۔ ایک پوری نوجوان نسل نے دونوں حکومتوں کے تحت جدید تعلیم حاصل کرنے کے مواقع سے فائدہ اٹھایا۔ ان میں بہت سے ایسے لوگ شامل ہوگئے جو ہمیشہ اقتدار میں رہنے والوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ سیاسی موقع پرستوں اور نئی اشرافیہ کے اس اتحاد کو نئے افغانستان کے طور پر پیش کیا گیا‘ جو مغرب کے ساتھ جدید جمہوری اقدار کا اشتراک کر رہا تھا۔ امریکہ نے افغان نیشنل آرمی اور پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسی بھی بنائی تاکہ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد نظام کو برقرار رکھا جا سکے۔
معاشرے کا یہ جدید اور جمہوری شعبہ صرف کابل اور دو تین شہروں تک محدود تھا اور افغان معاشرے میں اس کی جڑیں موجود نہیں تھیں‘ جس میں وہ قصبے اور دیہات بھی شامل تھے جو اس تبدیلی سے مستفید نہیں ہوئے۔ امریکہ نے افغانستان کی معاشی تعمیرِ نو اور انسانی ترقی پر بہت کم رقم خرچ کی اور 2003 میں صدام حسین کے عراق کو فتح کرنے پر اپنی توجہ مبذول کر لی۔ ہندوستان کو سماجی بہبود کے منصوبوں کے لیے آگے لایا گیا۔ افغانستان کے نئے نظام کی نہ تو لوگوں میں جڑیں تھیں اور نہ ہی اس نے عام لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنایا۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ جب افغان طالبان نے مختلف شہروں پر عسکری دباؤ ڈالا تو مقامی انتظامیہ اور معاشرے نے عمومی طور پر ان کے ساتھ تعاون کیا یا کچھ مزاحمت کے بعد ان کے ساتھ کام کرنے پر رضامند ہو گئے۔ امریکہ اور کابل حکومت کے بنائے ہوئے جدید سیکٹر منہدم ہو گئے۔ امریکہ کی بنائی ہوئی افغان نیشنل آرمی اور پولیس کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے۔ افغان نیشنل آرمی اور پولیس کی تشکیل کے لیے زیادہ تر کام امریکی ٹھیکیداروں نے کیا۔ وہ ایک پیشہ ور اور پرعزم فوج تیارکرنے کے بجائے پیسہ کمانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ افغان فوج میں خرابی اور بہت سے ''گھوسٹ سپاہیوں‘‘ کے وجود کی رپورٹیں آتی رہیں۔ سینئر کمانڈ اور نچلے درجے بالخصوص فوجیوں کے درمیان خراب تعلق تھا۔ ان میں پیشہ ورانہ مہارت اور طالبان سے لڑنے کے عزم کا فقدان تھا۔
افغانستان‘ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ جمہوریت اور دیگر مغربی لبرل اقدار کو اوپر سے مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ضروری ہے کہ پہلے معاشرے کی روایتی اقدار اور سماجی نظام کو سمجھا جائے اور پھر مقبول موبلائزیشن کے ذریعے معاشرے میں تبدیلیوں کے لیے کام کیا جائے۔ تبدیلی کے اس عمل سے عام لوگوں کو فائدہ ہونا چاہیے تاکہ وہ نئے نظامِ حکومت اور سماجی تبدیلی میں اپنی دلچسپی پیدا کر سکیں۔ اگر تبدیلی کا عمل جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر ایک نیا اشرافیہ طبقہ تخلیق کرتا ہے تو اس تبدیلی کی کوئی جڑیں نہیں ہوتیں اور یہ ناپائیدار رہتی ہے۔
افغانستان میں امریکی ناکامی افغانوں کے اس سیاسی و ریاستی نظام کو مستحکم کرنے کا اہل نہ ہو سکنے کی وجہ سے ہوئی جو انہوں نے پہلی طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد وضع کیا تھا۔ نیا نظام عوام میں جڑیں نہ پکڑسکا۔ امریکی حفاظتی ڈھال ہٹنے کے بعد اس کا منہدم ہونا طے تھا۔ نئی طالبان قیادت کو ایک چیلنج درپیش ہے جیساکہ امریکیوں کو درپیش تھا۔ چیلنج یہ ہے کہ عوام کا اعتماد اور سپورٹ حاصل کرکے نظام کو مستحکم کیا جائے۔ طالبان امریکہ اور اس کے مقامی اتحادیوں کو ہٹانے میں کامیاب ہو چکے ہیں‘ تاہم انہیں ایک پرامن داخلی سیاسی نظم ترتیب دینے کا ایک بڑا چیلنج درپیش ہے جو اندرونی تناظر میں نسلی اور مذہبی تنوع کو ایڈجسٹ کرتا ہو اور پہلی طالبان حکومت کے ساتھ ان کے مشکل تجربے کی بنا پرپیدا ہونے والی عالمی برادری کے خدشات کو دور کرتا ہو۔ طالبان کو ایک بنیاد پرست مذہبی تحریک‘ جو دیگر بین الاقوامی بنیاد پرست تحریکوں کے ساتھ فعال طور پر کام کررہی ہو‘ کے بجائے ایک ذمہ دار ریاست کی طرح برتاؤ کرنے کی ضرورت ہے۔ افغان طالبان کے ابتدائی پالیسی بیانات تسلی بخش ہیں، لیکن انہیں ان بیانات کو اپنے نئے گورننس انتظامات کے ذریعے ٹھوس اقدامات میں تبدیل کرنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں