"HAC" (space) message & send to 7575

افغانستان میں تبدیلیوں پر پاکستان کا سماجی ردِعمل

افغان طالبان کی کابل میں واپسی پر پاکستان میں ردعمل خوشی اور اطمینان سے لیکر خدشات تک پھیلا ہوا ہے۔ حکومت پاکستان کا ردعمل ان دو انتہاؤں کے درمیان سے شروع ہو کر حد اطمینان تک‘ کم زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ کابل اب اس حکومت کے کنٹرول میں نہیں‘ جو پاکستان سے دشمنی ظاہر کرتی اور عالمی سطح پر ہمارے خلاف پروپیگنڈے میں مصروف رہتی تھی؛ چنانچہ کابل میں اس تبدیلی سے پاکستان کو کچھ سفارتی راحت ملی ہے؛ تاہم ایسے مسائل اب بھی موجود ہیں جو پاکستان کیلئے تشویش کا باعث ہیں۔
پاکستان کی جانب سے غیرسرکاری ردعمل پاکستانی سیاست اور معاشرے کی خصوصیات کے تنوع کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ مذہبی حلقے، جو طالبان کے ساتھ مسلکی شناخت رکھتے ہیں، طالبان کی کامیابی سے بہت خوش ہیں۔ وہ اسے ان لوگوں کیلئے خدا کا دیا ہوا تحفہ سمجھتے ہیں جن کا خدا پر ایمان اور مذہبی سچائی کی فتح پر یقین گزشتہ بیس برسوں میں درپیش مسائل کے باوجود راسخ رہا۔ انہیں یقین ہے کہ طالبان افغانستان پر حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ کچھ نے اس لیے اطمینان کا اظہار کیا کہ طالبان کی اس کامیابی سے امریکہ کو ایک اور دھچکا لگا ہے۔
امریکہ نے نائن الیون کے بعد ان حملوں کا بدلہ لینے کیلئے اکتوبر 2001 میں افغانستان میں طالبان حکومت پر حملہ کیا تھا۔ اس مقصدکیلئے امریکہ نے ایک عالمی اتحاد بھی قائم کر لیا تھا‘ جو اسے فوجی لحاظ سے کامیابی سے ہمکنار کرتا‘ تاہم بھاری فوجی موجودگی اور طاقت کے بے لگام استعمال کے ساتھ بیس سال گزارنے کے باوجود امریکہ طالبان تحریک کو ختم کرنے اور اپنی ابتدائی فتح کو مستحکم کرنے میں ناکام رہا۔ وہ ایک متبادل سیاسی اور معاشرتی نظم بھی قائم نہ کر سکا کیونکہ وہ ان اقدار اور اصولوں پر عمل پیرا تھا جو اس معاشرے کیلئے اجنبی تھے اور دوسرا یہ کہ امریکہ افغان معاشرے کے ایک مصنوعی طور پر تیارکردہ طبقے پر انحصار کررہا تھا۔ اس میں مغربی ممالک سے واپس لائے جانے والے افغان شہری اور مقامی لوگوں کا وہ طبقہ شامل تھا جن کا خیال تھاکہ امریکہ افغانستان کو کبھی نہیں چھوڑے گا، اور اس طرح انہیں مقامی سطح پر اپنا تسلط قائم رکھنے کیلئے مستقل چھتری دستیاب رہے گی۔ بھارت بھی دو مفروضوں کی بنیاد پر اپنے علاقائی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے افغانستان میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی کوششوں میں مصروف رہا۔ اس کے مفروضے یہ تھے کہ امریکہ افغانستان سے مکمل طور پر نکل جائے گا‘ اور یہ کہ کابل انتظامیہ امریکہ اور نیٹو کی تیارکردہ اپنی افغان نیشنل آرمی اور پولیس کے ساتھ طالبان کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ دونوں مفروضے غلط ثابت ہوئے۔ عسکری اور معاشی طاقت کے ساتھ ایک نیا افغانستان بنانے میں امریکی ناکامی نے ظاہر کر دیا کہ وحشیانہ فوجی طاقت سیاسی کامیابی کی ضمانت نہیں دیتی۔ یہ امریکی طاقت اور عالمی سیاست میں اس کے کردارکے زوال کا تازہ ترین ثبوت ہے۔
پاکستان میں دوسرے لوگ بھی‘ جو عالمی اور ملکی سیاست میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں‘ خوش ہیں کہ کابل میں پاکستان کی مخالف حکومت کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ وہ حکومت اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کیلئے پاکستان کو بہانے کے طور پر استعمال کررہی تھی اور طالبان کے دباؤ سے نمٹنے میں ناکام بھی رہی۔ کابل حکومت کا یہ رویہ اور رجحان بھارتی حکومت کی حمایت سے مضبوط ہوا‘ جس کے پاس اپنے علاقائی ایجنڈے کو فروغ دینے اور تحریک طالبان پاکستان اور ان کے اتحادیوں کو فنڈز اور تکنیکی مشورے دے کر پاکستان کے خلاف پراکسی وار کو آگے بڑھانے کے مذموم مقاصد تھے۔ کابل حکومت پاکستان کے خلاف سرگرمیوں میں رضاکار شراکت دار تھی کیونکہ بھارت کی پاکستان دشمنی میں وہ اس کی ہم خیال تھی جبکہ بھارت نے افغانستان کی اقتصادی تعمیر نو کیلئے تکنیکی مدد اور وسائل بھی فراہم کررکھے تھے۔ ان منصوبوں نے بھارتی اہلکاروں اور تجارتی و تکنیکی اداروں‘ بشمول انڈر کوّر سکیورٹی اور انٹیلی جنس افسران‘ کی افغانستان میں موجودگی کو بڑھا دیا تھا۔
پاکستان میں کچھ سیاسی حلقوں نے طالبان کی واپسی پر مختلف النوع اضطراب کا اظہار کیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ طالبان بالآخر قدامت پسندی پر مبنی سیاسی اور سماجی نظام تشکیل دیں گے جس میں غیر ہم خیالوں کیلئے عدم برداشت پائی جائے گی۔ ان کا خیال ہے کہ طالبان اسی سیاسی نظام کی طرف لوٹ جائیں گے جو انہوں نے 1990 کی دہائی میں افغانستان پر مسلط کیا تھا۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ اس سے پاکستان پر منفی اثر پڑے گا جو نسل، زبانوں اور علاقوں کے لحاظ سے ایک کثیر جہتی معاشرہ ہے‘ طالبان کے حامی یہاں دوبارہ سرگرم ہو جائیں گے اور پاکستان میں داخلی امن و استحکام کیلئے خطرہ بن جائیں گے۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت افغانستان کی صورتحال پر کڑی نظر رکھے اور طالبان سے محفوظ فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے یہاں انتہا پسندی بڑھنے سے روکنے کے پیشگی اقدامات کرے۔
لوگوں کی ایک چھوٹی سی اقلیت نے افغانستان میں ہونے والی پیشرفت کے بارے میں ایک سنسنی خیز تصور پیش کیا ہے۔ 1996 تا 2001 طالبان حکومت کی پالیسیوں کا حوالہ دیتے ہوئے، وہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان دوبارہ سماجی اور ثقافتی ''تاریکی‘‘ اور ''عدم برداشت‘‘ میں ڈوب جائے گا۔ ان میں سے کچھ گروہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں انسانی حقوق‘ بالخصوص خواتین کے حقوق سے انکار کی پالیسی اپنائی جائے گی‘ جس کا جمہوریت اور انسانی حقوق کی ان ڈومینز میں پاکستان پر منفی اثر پڑے گا۔
افغانستان میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں پر پاکستان میں متنوع ردعمل قابل فہم ہے کیونکہ پاکستانیوں کو پاکستان میں اور اس کے ارد گرد سیاسی اور سکیورٹی پیشرفتوں پر اپنی رائے کے اظہارکی آزادی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتیں اور گروہ سیاسی معاملات پر مسابقتی پوزیشن اپناتے ہیں۔ پاکستانیوں کی افغانستان میں گہری دلچسپی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ پاکستانی ریاست اور معاشرہ افغانستان میں ہونے والی پیشرفتوں کی وجہ سے نقصان اٹھا چکے ہیں۔ اپریل 1978میں جب نور محمد تراکئی نے داؤد حکومت کے خلاف سوویت نواز بغاوت کی تھی‘ اس کے پاکستان پر اثرات مرتب ہوئے تھے۔1980 اور 1990 کی دہائی میں افغانستان میں ہونے والی پیشرفتوں کے اثرات آج بھی پاکستانی معاشرے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
یہاں سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر افغانستان کی صورتحال کو مانیٹر کرتے ہوئے وہاں موجودہ طالبان قیادت کے بیانات کے حوالے سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ ایک جامع حکومت کی تشکیل اور جدید طرز حکمرانی کے اصول پر قائم رہنے کی بات کر رہے ہیں‘ جو آئین کی پاسداری‘ قانون کی حکمرانی، سماجی انصاف اور اختلاف رائے کیلئے رواداری پر زور دیتا ہے‘ تاہم ان کا نظام مذہب پر مبنی ہونے والا ہے اور یہ ان کے گزشتہ 20 سالوں کے تجربات کی عکاسی بھی کرے گا جن میں دوحہ آفس کے ذریعے امریکہ، چین، روس، ترکی اور وسطی ایشیا کی ریاست کے ساتھ ان کی براہ راست بات چیت بھی شامل ہے۔ یہ تعامل پاکستان اور ایران کیساتھ انکی بات چیت کے علاوہ ہے۔ وہ اپنے بارے میں عالمی تشویش سے بھی آگاہ ہیں‘ لہٰذا طالبان کو اپنے رویے میں بہتری دکھانے کیلئے وقت دینے کی ضرورت ہے۔ طالبان کامیاب ہو سکتے ہیں اگر وہ ایک ریاست کے طور پر کام کریں جو ایک تحریک کے بجائے عالمی نظام سے منسلک رہے۔ اصل امتحان یہ ہوگا کہ طالبان دوسری ریاستوں خصوصاً پڑوسیوں کیساتھ کس طرح تعلقات استوار کرتے ہیں اور افغانستان میں ان بین الاقوامی گروپوں کی سرگرمیوں کے بارے میں عالمی تحفظات پر کتنی توجہ دیتے ہیں جو مختلف ممالک میں تشدد اور دہشتگردی میں ملوث ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں