اگست 2021 میں یہ خبر سامنے آئی کہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے بیٹوں میں سے ایک شدید بیمار ہے اور اس کے خاندان نے اس کے علاج کیلئے حکومت سے مالی مدد مانگی ہے۔ سندھ حکومت نے اس کی مدد کا وعدہ کیا تھا۔ لیاقت علی خان برطانوی ہندوستان میں ایک ''نواب‘‘ خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ مظفرنگر، دہلی اور کرنال کے علاقے میں ان کی کئی غیرمنقولہ جائیدادیں تھیں۔ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے کے باوجود انہوں نے وہاں چھوڑی گئی جائیداد کیلئے دعویٰ دائر نہیں کیا اور ایک سادہ اور ایماندارانہ زندگی گزاری۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ 1988 کے بعد سے کسی وزیراعظم کے بیٹے کو اس قسم کے مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہوگا؟ 1988 کے بعد سے پاکستان کے وزرائے اعظم دولت مند ہیں اور ان میں سے کچھ پاکستان میں منقولہ و غیر منقولہ جائیداد رکھنے کے علاوہ بیرونِ ملک بھی جائیدادوں کے مالک ہیں۔ کچھ کے مضبوط کاروباری مفادات بھی ہیں۔
پاکستان میں اعلیٰ ترین سرکاری عہدوں پر فائز رہنے والے رہنماؤں کے پس منظر، رجحانات اور طرزِ زندگی میں گزرے برسوں کے دوران زبردست تبدیلیاں آئی ہیں۔ ان تبدیلیوں میں ذاتی مفادات یا کاروباری مفادات کو فروغ دینے کیلئے ریاستی وسائل کا استعمال بھی شامل ہے۔ ان تبدیلیوں کو سمجھنے کیلئے تقسیم کی لکیر 1985 کا سال ہے جب ضیاالحق نے غیرجماعتی انتخابات کرائے اور اپنی آمرانہ حکومت کو سویلینائز کیا۔
1985 سے پہلے اور اس کے بعد کے دور میں حکومت میں اہم عہدوں پر دو مختلف اقسام کے رہنما فائز رہے۔ 1985 سے پہلے کے دور کو دو مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، یعنی 1947-58، اور 1958-1985۔ گورنر جنرل/ صدر اور وزیر اعظم کی جانب سے 1947 تا 1958 سرکاری عہدوں اور ریاستی وسائل کا کبھی ناجائز استعمال نہیں ہوا۔ پہلے گورنرجنرل قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے سرکاری عہدے اور ذاتی حیثیت کے مابین واضح فرق رکھا اور ان کی ذاتی زندگی اور مفادات سے متعلق اخراجات انہوں نے خود اٹھائے۔ اسی طرح گورنر جنرل اور وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین ایک سادہ زندگی گزارنے والے شخص تھے۔ انہوں نے بھی اپنے سرکاری اور ذاتی معاملات میں فرق کیا حتیٰ کہ وہ اپنے ذاتی خطوط کیلئے ڈاک ٹکٹ کی قیمت خود ادا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ کابینہ کے ارکان بھی ریاستی وسائل کے استعمال میں بہت محتاط تھے۔
کچھ ترمیم کے ساتھ وہی روایت براہ راست اور بالواسطہ آمرانہ حکمرانی (1958-1971) کے سالوں میں بھی جاری رہی، اگرچہ اعلیٰ ترین دفاتر میں کچھ شان و شوکت درآئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو پر ذاتی معاشی اور کاروباری سلطنت بنانے کا کوئی الزام نہیں ہے۔ اپنے اقتدارکے دوران انہوں نے پاکستان سے باہر کوئی جائیداد نہیں بنائی۔ اس عرصے میں گورننس اور غیرجمہوری طرز حکمرانی، اقتدار قائم رکھنے یا اپوزیشن پر دبائو ڈالنے کیلئے سیاسی عمل میں ہیرا پھیری اور اپنے پسندیدہ لوگوں کو کچھ سرکاری نوکریاں دینے جیسے معاملات پر کچھ اعلیٰ رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ ان میں سے کچھ نے اپنے عہدے کو اپنی بکھری ہوئی زمین کو اکٹھا کرنے، ان زمینوں تک پانی کی رسائی ممکن بنانے اور اپنے دوستوں اور کنبے کے ارکان کو سہولیات فراہم کرنے کیلئے استعمال کیا ہو گا‘ لیکن ان پر پیسہ بنانے اوربھاری رقوم بیرون ملک بھجوانے کا کوئی الزام نہیں لگایا گیا۔
1985 کے بعد صورتحال بدل گئی جب مالی بدعنوانی زور پکڑ گئی، اور کچھ سیاسی رہنماؤں نے ذاتی اور خاندانی مالیاتی سلطنتیں کھڑی کرنے کیلئے ریاستی وسائل کا استعمال شروع کردیا۔ ریاستی وسائل کا اپنی حمایت برقرار رکھنے کیلئے بھی آزادانہ استعمال کیا گیا۔ پارلیمنٹیرینز اور وفاداروں کی ایک اچھی خاصی تعداد کو زمینوں پر قبضے کرنے یا سامان اور خدمات کی فراہمی کے حوالے سے سرکاری معاہدوں سے پیسے کمانے کے مواقع فراہم کیے گئے۔ پاکستان میں تو یہ بھی ہواکہ سیاسی طاقت کو لیڈر اور اس کے خاندان کی معاشی سلطنت کی تعمیر کے ساتھ ہم آہنگ کیا گیا۔
کئی وجوہات ہیں جن کی بنا پر1985 سے پہلے اور اس کے بعد کے دور میں اہم سرکاری عہدوں پر فائز رہنماؤں کے سیاسی رجحانات اور طرزِعمل کے درمیان فرق کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ دونوں قسم کے رہنماؤں کو آگے لانے کا طریقہ کار مختلف تھا۔ پاکستانی رہنماؤں کی پہلی نسل آزادی سے پہلے طویل سیاسی جدوجہد کے بعد یا سویلین یا ملٹری سروس ریکارڈ کے بعد اعلیٰ عہدوں پر پہنچی۔ اس سے انہیں قیمتی تجربہ اور تنازعات کو طے کرنے اور متنازعہ معاملات سے نمٹنے کا تجربہ اور صلاحیت ملی۔ اس پہلی پاکستانی نسل نے نوجوان رہنماؤں کی تربیت کی جنہوں نے برسوں ان کے ماتحت کام کیا اور اعلیٰ سرکاری عہدوں پر پہنچنے سے پہلے سیاسی اخلاقیات سیکھیں۔ وہ بتدریج سیاست کے نچلے درجے سے اوپر گئے۔
1985 میں غیرجماعتی انتخابات نے مقامی کونسل کی سطح کے لیڈروں کو صوبائی اور وفاقی سطح پر بااثر عہدوں پر پہنچا دیا۔ ان میں سیاسی پختگی اور تجربے کی کمی تھی جو اعلیٰ سطحوں پر پالیسی سازی اور قانون سازی کیلئے درکار ہوتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر بتدریج نچلے سے اعلیٰ عہدوں تک نہیں پہنچے تھے۔ انہیں آمرانہ حکومت کی طرف سے اعلیٰ عہدوں پر دھکیل دیا گیا تھا‘ جس کو ناتجربہ کار شہریوں کو ضرورت تھی تاکہ اپنے اقتدار کو تبدیل کیے بغیر آمرانہ حکومت کو سویلین حکومت میں بدل دے۔ 1958 سے پہلے کے دور کے برعکس، قومی یا صوبائی سطح پر نا تجربہ کار یا کم تجربہ رکھنے والے افراد کابینہ کے عہدوں پر فائز تھے۔ 1985 کے بعد کی سیاسی نسل کی آمد کے ساتھ اہم عہدوں پر فائز لوگوں کے ذاتی اور عوامی ڈومینز کے درمیان فرق ختم ہوگیا۔ نئی نسل نے اپنی سرکاری سہولیات کو ایسی سرگرمیوں کیلئے توسیع دی جن کا شمار سرکاری کاموں میں نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ خاندان کے ارکان اور قریبی ساتھیوں کو بھی نوازا گیا۔ آمرانہ حکومت نے ایسے رجحانات کی پردہ پوشی کی تاکہ اس کی حمایت برقرار رہے۔ 1988 تا 1999 والی کمزور سیاسی حکومتیں اس عمل کو ریورس نہ کر سکیں۔
1985 کے بعد کے دور میں سیاسی طاقت کے ساتھ کاروباری اور تجارتی مفادات کا قریبی ملاپ بھی دیکھنے میں آیا۔ منافع کمانے اور مطلوبہ کام کرنے کی قیمت ادا کرنے یا وصول کرنے پر آمادگی کا کاروباری کلچر سیاست میں درآیا۔ کاروباری اور تجارتی اشرافیہ کے پاس موجود دولت کو سیاسی حمایت خریدنے اور اقتدار کی راہداریوں میں داخلے کیلئے استعمال کیا گیا۔ پیسے سے خریدی گئی سیاسی پوزیشن یا اثرورسوخ کو یہ پوزیشن حاصل کرنے کیلئے خرچ کی گئی دولت کی وصولی اور سیاست میں مستقبل کے استعمال کیلئے مزید دولت بنانے کیلئے استعمال کیا گیا۔ 'معاشی طاقت سے سیاسی طاقت حاصل کرنا اور پھر اس حاصل شدہ سیاسی طاقت کو زیادہ پیسہ بنانے کیلئے استعمال کرنا‘ اس شیطانی چکر نے سیاست میں اخلاقیات کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ افغانستان میں سوویت مداخلت کے تناظر میں جب غیرملکی فنڈز کی ریل پیل ہوئی تو سیاسی اور سماجی قوتوں نے عروج حاصل کیا جس نے سیاسی عمل پر منفی اثر ڈالا۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اپنے رویوں اور مقاصد میں تبدیلیوں کی وجہ سے آج کے سیاسی رہنما اور سیاست ماضی کے سیاسی رہنمائوں اور سیاست سے مختلف ہیں۔