اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی پندرہویں سربراہی کانفرنس رواں ماہ کے پہلے ہفتے افریقی ریاست گیمبیا کے دارالحکومت بنجول میں منعقد ہوئی۔ اس موقع پر او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس بھی منعقد ہوئی۔ مندوبین نے غزہ جنگ سمیت متعدد موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ ان میں سے زیادہ تر تقریروں کو معمول کے معاملات کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ مندوبین نے غزہ میں اسرائیل کے سفاکانہ اور نسل کش حملوں کی مذمت کی‘ جن کی وجہ سے موت‘ تباہی اور لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ کچھ مندوبین نے حماس کی ہمت اور عزم کو سراہا۔ کچھ ریاستوں نے غزہ کے بے گھر باشندوں کو انسانی اور طبی مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا ۔
یہ خالی الفاظ تھے۔ او آئی سی سربراہی کانفرنس نے نہ تو حماس کو کسی مالی اور فوجی مدد کی پیشکش کی اور نہ ہی امریکہ کے خلاف کوئی سفارتی اقدام تجویز کیا جس کی فوجی، مالی اور سفارتی حمایت نے اسرائیل کو ایسا سر کش بنا دیا ہے کہ وہ جنگ بندی کے کسی بھی مطالبے کا مثبت جواب نہ دے۔ مثال کے طور پر‘ او آئی سی اپنے اراکین سے کہہ سکتا ہے کہ وہ واشنگٹن سے اپنے سفیروں کو واپس بلائیں اور اعلان کریں کہ وہ غزہ جنگ میں مستقل جنگ بندی کے نفاذ تک واشنگٹن واپس نہیں جائیں گے۔ وہ مغربی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے ساتھ کاروبار کو کم کرنے کا فیصلہ بھی کر سکتے تھے۔
عرب ریاستوں خاص طور پر تیل سے مالا مال ریاستوں کی عملی طور پر حماس کی حمایت کرنے میں ہچکچاہٹ کی وضاحت کئی عوامل کے حوالے سے کی جا سکتی ہے۔ زیادہ تر عرب ریاستیں، خاص طور پر تیل سے مالا مال ریاستیں‘ امریکہ کے ساتھ خوشگوار اور فعال تعلقات رکھتی ہیں جسے وہ خراب نہیں کرنا چاہتیں۔ کچھ عرب ریاستیں اپنی سلامتی کے لیے امریکہ پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں‘ مثال کے طور پر سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ بحرین‘ کویت اور اردن کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو دیکھیں۔ تاہم قطر‘ مصر اور ترکیہ نے اسرائیل پر دباؤ بڑھانے کیلئے کچھ اقدامات کیے۔ مشرقِ وسطیٰ کی غیر عرب ریاست ایران نے حماس کو فوجی اور مالی مدد فراہم کی اور اسرائیل کے ساتھ براہِ راست فوجی محاذ آرائی بھی شروع کی۔ حماس کی کھلے عام حمایت کرنے میں عربوں کی ہچکچاہٹ کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر قدامت پسند عرب ریاستیں حماس کے ساتھ ہمدردی نہیں رکھتیں۔ زیادہ تر قدامت پسند عرب ریاستیں حماس اور حزب اللہ کے کردار پر قابو پانا چاہتی ہیں جنہیں وہ ایران کے زیر اثر بنیاد پرست قوتوں کے طور پر دیکھتی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حماس اور حزب اللہ ایک بنیاد پرست سیاسی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور اگر وہ طاقتور ہو جاتی ہیں تو عرب بادشاہتوں کو چیلنج کرنے کا امکان رکھتی ہیں۔ان ریاستوں کا خیال ہے کہ اگر یہ دونوں تنظیمیں مضبوط ہو گئیں تو مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن ایران کے حق میں جھک جائے گا۔ سعودی مشرقِ وسطیٰ میں حماس‘ حزب اللہ اور ایران کے عروج کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ایران کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ کی دو ریاستیں شام اور عراق حماس کی حمایت کرتی تاہم یہ دونوں ریاستیں اندرونی مسائل کا سامنا کر رہی ہیں۔
افریقہ اور جنوبی امریکہ کی کچھ غیر مسلم اکثریتی ریاستوں نے غزہ کی پٹی میں جنگ شروع ہونے کے بعد فلسطینیوں کی عوامی حمایت کرنے کی ہمت کا مظاہرہ کیا ہے۔جنوبی افریقہ نے غزہ میں اپنی فوجی کارروائیوں میں نسل کشی کے کنونشن کی خلاف ورزی کرنے پر اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالت ِانصاف (ICJ) میں مقدمہ دائر کیا‘ جس پر 26 جنوری کو آئی سی جے نے ایک عارضی حکم جاری کیا جس میں اسرائیل سے کہا گیا کہ وہ فوجی کارروائی کو روکنے کیلئے تمام ضروری اقدامات کرے جسے نسل کشی سمجھا جاسکتا ہے۔ بعد ازاں ترکیہ اور مصر نے بھی اس معاملے میں جنوبی افریقہ کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔
ادھر جنوبی امریکہ کی چار ریاستوں نے بھی فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اسرائیل سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا۔ یہ ریاستیں برازیل‘ بولیویا‘ چلی اور کولمبیا ہیں۔ یہ غیر مسلم اکثریتی ریاستیں ہیں جو انسانوں کے شہری اور سیاسی حقوق اور جنگی قوانین کے لیے کھڑی تھیں۔ ان میں سے دو ریاستوں‘ برازیل اور کولمبیا نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
پاکستان نے غزہ جنگ میں فلسطینیوں کی سفارتی حمایت کی اور اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر حماس اور فلسطین کے حق میں مؤقف اختیار کیا۔ پاکستان نے غزہ میں اسرائیل کے جنگی طرز عمل پر تنقید کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس نے رفح بارڈر کے راستے فلسطینیوں کو طبی اور انسانی امداد فراہم کرنے کیلئے اقوام متحدہ کی کوششوں کی حمایت کی اور جنگ سے متاثرہ غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کو انسانی امداد کی فراہمی میں خلل ڈالنے کی اسرائیل کی کوشش کی بار بار مذمت کی۔ پاکستان نے مصر کے راستے طبی سامان‘ خوراک اور دیگر امدادی سامان غزہ بھیجا۔ پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتیں‘ خاص طور پر جماعت اسلامی‘ دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں فلسطینیوں کے حق میں احتجاجی مارچ کرنے میں زیادہ سرگرم ہے۔ اگرچہ دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی حماس اور فلسطینیوں کی حمایت کی۔ غزہ میں فوری اور مکمل جنگ بندی کا مطالبہ کرنے اور غزہ میں جنگ سے متاثرہ لوگوں کو طبی امداد‘ خوراک اور روزمرہ استعمال کے دیگر سامان کی فراہمی کیلئے ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کو رسائی دینے کیلئے حکومت پاکستان نے بھی دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ مل کر آواز بلند کی۔ پاکستانی ڈاکٹروں کے ایک گروپ نے فلسطینیوں کو طبی امداد فراہم کرنے کیلئے غزہ میں رضاکارانہ طور پر کام کرنے کی پیشکش کی‘ لیکن جنگ کی صورتحال اور اسرائیل کی پالیسیوں نے اس کی اجازت نہیں دی۔جبکہ 10 مئی کو پاکستان نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی رکنیت دینے کی حمایت میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔
اگر ہم غزہ میں جنگ کا جائزہ لیں تو ایک واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ زیادہ تر مسلم ریاستوں خاص طور پر عرب ریاستوں کی حکومتوں کا ردعمل مایوس کن تھا۔ دنیا کو توقع تھی کہ عرب ریاستیںخاص طور پر تیل سے مالا مال ریاستیں فلسطینیوں کو سفارتی‘ مالی اور طبی مدد فراہم کرنے میں پیش قدمی کریں گی اور دیگر مسلم اکثریتی ریاستوں کو متحرک کریں گی تاکہ وہ امریکہ اور اسرائیل کو جامع جنگ بندی پر قائل کرنے کیلئے اپنی اجتماعی سفارتی اور معاشی طاقت کا استعمال کریں۔ تاہم مسلم ریاستوں کی حکومتیں فلسطینیوں کے خلاف مظالم سے نہیں بلکہ ان کے محدود مفادات کے لیے حساس واقع ہوئیں ۔
جب فلسطین کے عام لوگوں کے مفادات کے تحفظ کی بات آتی ہے تو او آئی سی ایک بیکار بین الاقوامی تنظیم ثابت ہوئی ہے۔ تاہم تمام مسلم ممالک کے عام لوگ غزہ کی جنگ میں فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے تھے، لیکن وہ اپنی حکومتوں کو غزہ کی جنگ پر جرأت مندانہ اقدام کرنے پر مجبور نہیں کر سکے۔ زیادہ تر مسلم ریاستوں میں آمرانہ یا ناقص معیار کا جمہوری نظام حکومت ہے‘ ان کی حکومتیں آسانی سے اپنے شہریوں کی خواہشات کو نظر انداز کر سکتی ہیں۔ مزید برآں ان ممالک میں سول سوسائٹی میں خودمختاری کا فقدان ہے جس کی وجہ سے لوگوں کیلئے سیاسی مسائل پر اپنی حکومتوں کا سامنا کرنا مشکل ہو جاتا ہے‘ خاص طور پر جب معاملہ کسی غیر ملکی سرزمین سے متعلق ہو۔ ہمیں جنوبی افریقہ اور جنوبی امریکی کی ان ریاستوں کی تعریف کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے فلسطینیوں کی حمایت میں عملی اقدامات کرنے کی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کیا۔