"HAC" (space) message & send to 7575

پاک امریکہ تعلقات اور مستقبل کے امکانات

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پیچیدہ اور ناہموار رہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کے اہداف میں پوری طرح شریک نہیں ہیں۔ امریکہ ایک عالمی طاقت ہے اور اس کی پاکستان کے بارے میں پالیسی اس کی گلوبل پالیسی کا حصہ ہے۔ ایشیا میں بالعموم اور جنوبی ایشیا میں بالخصوص امریکی پالیسی میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کے پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، تو اس کی بنیادی توجہ علاقائی سطح پر ہے، خاص طور پر اپنے قریبی پڑوس میں۔ پاکستان اکثر دوسرے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کا فیصلہ بھارت کے تناظر میں کرتا ہے۔ خارجہ پالیسی کے فوکس اور ایجنڈوں میں فرق کے باوجود، نہ تو پاکستان اور نہ ہی امریکہ نے اپنے دوطرفہ تعلقات کو منقطع کرنے پر کبھی سنجیدگی سے غور کیا ہے۔ امریکہ پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور اس نے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان کو زیادہ اقتصادی اور تکنیکی امداد فراہم کی ہے۔ امریکہ پاکستان کے جغرافیائی محل وقوع کی اہمیت کو جنوبی و وسطی ایشیا، افغانستان، چین اور مشرق وسطیٰ کے درمیان ایک لنک کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ امریکہ سکیورٹی امور اور دہشتگردی سے نمٹنے میں پاکستان کے پیشہ ورانہ تجربے کو بھی تسلیم کرتا ہے۔ پاک بھارت تعلقات کو برقرار رکھنے والے دیگر عوامل میں‘ دونوں ملکوں کے مابین سماجی تعلق اور امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کا بڑھتا ہوا کردار‘ شامل ہیں جبکہ پاکستان کے جوہری و میزائل پروگرام بھی مضبوط امریکی توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہیں۔
پاک امریکہ فعال تعاون کے تین بڑے مراحل یہ ہیں: 1950 سے 1960 کے وسط تک، 1980 تا 1990 اور 2001 سے 2020 تک۔ ان تین مراحل کی بھی تین نمایاں خصوصیات ہیں جو پاک امریکہ تعلقات کی حرکیات کو بیان کرتی ہیں۔ ان کا سمجھنا ہمارے ملک کے پالیسی سازوں کو مستقبل میں امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو حقیقت پسندانہ بنیادوں پر استوار کرنے میں مدد دے گا۔ پہلی خاصیت: یہ تعلق کسی بھی طرح کے پائیدار عوامل پر مبنی نہیں۔ باہمی لین دین کا تعلق جسے دونوں ملکوں کی فوری ضرورتوں کے مطابق قائم کیا گیا۔ وقت کے ساتھ سیاسی ضرورتیں بدل گئیں تو تعلقات میں کمی آئی۔ دوسری، ہر مرحلے میں امریکہ کی سکیورٹی ضروریات نے پاکستان کی طرف امریکی رویے کی تشکیل کی‘ جیسے 1950 کی دہائی کے وسط میں سوویت یونین اور کمیونزم کا سدِباب‘ 1980 کی دہائی میں افغانستان میں سوویت فوجی مداخلت کی روک تھام اور ستمبر 2001 کے بعد افغانستان پر توجہ کے ارتکاز کے ساتھ انسداد دہشتگردی کے اقدامات۔ پاکستان ان مراحل میں سکیورٹی، ہتھیاروں کی خریداری اور مالی مدد کی بنا پر امریکی ایجنڈے کا ساتھ دینے پرراضی ہوا۔ تیسری، تینوں مرحلوں میں دونوں ملک ایک دوسرے کے رویے کے بارے میں شاکی رہے۔ ان کی باہمی شکایات میں مماثلت کا عنصر موجود تھا۔ پاکستان نے مذکورہ تینوں مرحلوں میں شکایت کی کہ امریکہ بھارت کے ساتھ پاکستان کے مسائل بالخصوص مسئلہ کشمیر پر کوئی بامعنی مدد کرنے کیلئے تیار نہیں ہوا۔ امریکہ نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ وہ امریکہ کو مطلوبہ تعاون فراہم نہیں کررہا اور اس نے امریکہ کو بھارت کے ساتھ اپنے مسائل میں گھسیٹنے کی کوشش کی جو پاک امریکہ سکیورٹی فریم ورک کا لازمی حصہ نہیں تھے۔امریکہ کی بڑی شکایت یہ تھی کہ پاکستان نے امریکی حکومت کی طرف سے طے کی گئی انسداد دہشتگردی کی ترجیحات پر پوری طرح عمل نہیں کیا اور یہ کہ اس نے اپنے انسداد دہشتگردی کے ایجنڈے پر عمل کیا اور خاموشی سے افغان طالبان کی مدد بھی کی۔ امریکہ کے سرکاری اور غیرسرکاری حلقے افغانستان میں امریکی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتے ہیں۔ پاکستان کو یہ بھی شکایت رہی کہ اس نے دہشتگردی کیخلاف امریکی جنگ میں امریکہ سے زیادہ جانی و مالی نقصان اٹھایا‘ اور یہ کہ امریکی امداد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہونے والے نقصانات سے بہت کم تھی۔ یہ قابل ذکر ہے کہ سکیورٹی پارٹنر ہونے کے باوجود پاکستان کو اس وقت امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا جب امریکہ نے محسوس کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو کم کر سکتا ہے۔ پاکستان پر طویل ترین پابندیاں اکتوبر 1990 سے نومبر‘ دسمبر 2001 تک عائد رہیں۔ ستمبر 2001 میں جب پاکستان نے امریکی قیادت میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں شریک ہونے پر رضامندی ظاہر کی تو اس وقت وہ چار امریکی پابندیوں کی زد میں تھا۔ تین پابندیاں نومبر‘ دسمبر 2001 میں اٹھا لی گئیں۔
پاک امریکہ ناہموار تعلقات کے ٹریک ریکارڈ میں اہم اسباق کیا ہیں؟ دونوں ممالک اپنے دوطرفہ تعلقات کو برقرار رکھیں گے کیونکہ تعلقات میں مسائل کے باوجود دونوں اس ریلیشن شپ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پاکستان کیلئے فوائد وقتاً فوقتاً کم زیادہ ہو سکتے ہیں لیکن کچھ فوائد مستقل بھی ہیں۔ اسے سماجی و اقتصادی ترقی، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں امریکی تعاون کے حوالے سے کچھ مالی امداد ملنے کی توقع ہے۔ تعلیمی میدان میں امریکی مالی اور تکنیکی مدد، خاص طور پر امریکی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کیلئے مختلف فنڈنگ پروگرام بھی مفید ہیں۔ امریکہ صحت کے شعبے، زرعی فروغ اور خواتین کی ترقی میں بھی معاونت کرتا ہے۔ پاک امریکہ تعلقات سلامتی کے مسائل پر زیادہ ارتکاز کے ساتھ باہمی لین دین کی بنیاد پر جاری رہیں گے اور یہ وقتاً فوقتاً اتار چڑھاؤ کا شکار بھی ہوتے رہیں گے۔ توقع ہے کہ یہ تعلق ایک ہی وقت میں مثبت اور منفی‘ دونوں طرح کے رجحانات کو ظاہر کرتا رہے گا۔ کچھ شعبوں میں تعاون ہوگا، لیکن کچھ میں برعکس بھی۔ افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان کو امریکہ کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ مختلف شعبوں میں محیط جامع تعلقات کے بجائے ایشوز پر مبنی تعلق بننے جا رہا ہے۔ تعاون کے شعبوں کی شناخت اور ان پر کام کرنے کیلئے سرگرم سفارتکاری کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان اب دیگر ممالک بالخصوص چین اور روس کے ساتھ ایک فعال سفارتی تعامل اور اقتصادی و تکنیکی تعاون کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے سفارتی آپشنز کو بڑھا رہا ہے۔ افغان صورتحال سے نمٹنے اور افغانستان میں امن و استحکام یقینی بنانے کیلئے پڑوسی ممالک اور ترکی و امریکا کے ساتھ مل کر کام کرنا مناسب ہے۔
امریکہ خاموشی سے پاکستان سے اپنے طیاروں بشمول ڈرونز کیلئے فضائی راہداری کا خواہاں ہے تاکہ بحر ہند/ بحیرہ عرب میں اپنے بحری بیڑوں اور خلیجی خطے سے داعش اور القاعدہ کو نشانہ بنا سکے۔ پاکستان کو اس معاملے کا فیصلہ کابل میں طالبان حکومت اور قریبی پڑوسیوں خصوصاً چین، روس اور ایران کی مشاورت سے کرنا چاہیے تاہم، اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ اگر اجازت دی جائے تو ایجنڈا تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ اور یہ کہ پاکستان میں زمینی لینڈنگ اور سٹیشننگ کی سہولیات نہیں دی جائیں گی۔ مزید یہ کہ پاکستان کو امریکہ سے امریکی حکومت کی طرف سے منجمد کیے گئے افغان مالیاتی اثاثوں کے اجرا اور افغانستان کیلئے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کا مطالبہ بھی کرنا چاہئے۔
پاکستان کی عالمی سفارتکاری کیلئے امریکی تعلقات اہم ہیں، لیکن ان کے پیرامیٹرز کا تعین عملیت پسندانہ غوروخوض سے ہونا چاہیے۔ کوئی بھی فیصلہ ماضی کے غیرمساوی اور غیرہموار تعلقات کے بے لاگ جائزے سے حاصل ہونے والے اسباق کی روشنی میں کیا جانا چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں