"HAC" (space) message & send to 7575

جمہوریت اور پاکستانی سیاست

کوئی کامل نظامِ حکومت پیش کرنا ممکن نہیں۔ حکمرانی کا کوئی کامل نظام نہیں ہے۔ یہ نظام وقت کے ساتھ پھیلتا یا سکڑتا ہے اور ان کو بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ گورننس کے نئے مسائل کے مطابق ڈھالنے کیلئے وقتاً فوقتاً اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ برطانوی پارلیمانی نظام‘ جس کے بارے میں ہم اکثر بات کرتے ہیں‘ کئی صدیوں میں پروان چڑھا۔ یہ 1215 تھا جب انگلستان کے بادشاہ نے ''میگناکارٹا‘‘ نامی دستاویز کے تحت اشرافیہ اور بااثر افراد کے حق میں (عام لوگوں کے نہیں) اپنے اختیارات کچھ محدود کرنے پر اتفاق کیا۔ کئی سالوں میں کئی مسائل کے ساتھ، سیاسی نظام محدود بادشاہت اور عوامی منتخب حکومت میں تبدیل ہو گیا۔ آج کا پارلیمانی نظام وزیر اعظم کے کردار کی مرکزیت پر مبنی ہے اور 21 سال کی عمر کے تمام مردوں اور عورتوں کے یکساں حق رائے دہی کے اصول کے تحت پارلیمنٹ کا آغاز 1928 میں ہوا تھا۔
آج ہمیں سیاسی نظام کو اپنانے کیلئے صدیوں کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ ہم دوسروں کے تجربے سے سیکھ سکتے ہیں اور وہی مقصد کم وقت میں حاصل کر سکتے ہیں؛ تاہم یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ سیاسی نظام اپنانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس سے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ سیاسی نظام کام کرنے کے لیے صرف ایک فریم ورک اور راستہ متعین کرتا ہے‘ یہ بذات خود مسائل کا حل نہیں ہے۔ اس میں بہت کچھ دو چیزوں پر منحصر ہے۔ پہلی‘ کیا آپ سیاسی نظام کو صحیح معنوں میں پرکھ سکتے ہیں؟ ہر سیاسی نظام میں حکمرانی اور سیاسی انتظام کاری کو ایک خاص طریقے سے انجام دینے کی ضرورت ہوتی ہے‘ اور یہ کہ ان اصولوں اور ہدایات پر کہاں تک عمل ہوتا ہے۔ سیاسی اور سماجی رہنماؤں کا سیاسی نظام کو درست راستے پر رکھنے اور معاشرے کی فلاح و بہبود کے عزم کے ساتھ اسے پوری دیانتداری سے نافذ کرنے میں اہم کردار ہوتا ہے۔
جمہوری نظام اپنانے کیلئے عالمی سطح پر وسیع پیمانے پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ زیادہ تر آمرانہ حکومتیں بھی اپنے لیے جمہوریت کا لیبل استعمال کرنا پسند کرتی ہیں۔ جمہوریت کے دو بڑے ویری اینٹس ہیں: پارلیمانی یا صدارتی نظام۔ دونوں نظام ہر ملک میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ پارلیمانی نظام کیلئے رہنما ماڈل برطانیہ کا ہے؛ تاہم، جب ہم دوسرے ممالک میں اس نظام کا جائزہ لیں تو ہر جگہ کچھ تبدیلیاں نظر آتی ہیں جو اس ملک کے سیاسی تجربے اور اس کے مخصوص سیاسی حالات پر منحصر ہوتی ہیں۔
دوسرے نظامِ حکومت کی طرح جمہوریت بھی خود مسئلہ حل نہیں کرتی۔ انحصار اس بات پر ہے کہ جمہوری اصولوں اور طریقوں کو ان کی حقیقی روح میں کس حد تک لاگو کیا جاتا ہے۔ اس کیلئے رواداری کے جمہوری سیاسی کلچر، متنازع مسائل پر بات چیت، اور حکمران جماعت اور اپوزیشن کے مابین ورکنگ ریلیشن شپ اور باہمی احترام کی ضرورت ہوتی ہے۔ حریف سیاسی جماعتوں اور قائدین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے خطاب کرتے ہوئے شائستہ محاورہ اپنائیں اور پارلیمنٹ کو قانون سازی اور اپنے درمیان سیاسی اختلافات کو حل کرنے کا مرکز بنائیں‘ لہٰذا جمہوریت کی کارکردگی کا بہت حد تک انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ حکمران جماعتیں اور حزب اختلاف اپنے سیاسی طرز عمل میں کس طرح جمہوری کلچر کو اپناتی ہیں اور سیاست کو اقتدار کیلئے شدید جدوجہد میں تبدیل نہیں کرتیں۔
جمہوری نظام‘ چاہے پارلیمانی ہو یا صدارتی‘ کی کامیابی کا دارومدار عام لوگوں کے مسائل کے حل پر ہوتا ہے۔ حکومتی پالیسیوں کو معاشرے کی ضروریات اور خواہشات کا مثبت جواب دینا چاہیے۔ یہ مسئلہ زیادہ اہمیت حاصل کر جاتا ہے اگر معاشرہ متنوع ہو اور سماجی و اقتصادی تفاوت تیز ہو۔ جمہوری نظام جس قدر عوام کو بنیادی ضروریات فراہم کرتا ہے اوربہتر مستقبل کا یقین دلاتا ہے، اس کے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کا امکان اتنا بڑھ جاتا ہے۔ عوامی حمایت جمہوری نظام کی بقا کی ضامن ہے۔ اگر مندرجہ بالا معیارات کو پاکستان پر لاگو کریں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہاں پارلیمانی جمہوری نظام ہے‘ جہاں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات عالمی بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور پاکستان ایک آئین کے تحت کام کر رہا ہے جس میں شہری اور سیاسی حقوق اور آزاد عدلیہ موجود ہے؛ تاہم پاکستانی جمہوریت کا معیار کمزور ہے، اور اس میں بہتری کی ضرورت ہے۔
پاکستانی جمہوریت کا معیار بہتر ہو سکتا ہے اگر ہم تین اہم معاملات پر توجہ دیں۔ سب سے پہلے سیاسی رہنماؤں، کارکنوں اور سماجی رہنماؤں کو رواداری، برداشت اور باہمی احترام کے جمہوری کلچر کو سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی لیڈروں کی سیاست کا محاورہ اکثر گستاخانہ اور غیرمہذب ہوتا ہے جو جمہوریت اور پاکستانی اقدار کے بنیادی اصولوں سے انحراف پر مبنی ہے۔ سیاسی قائدین کو اپنے طریقے‘ جن میں کسی بھی جائز یا ناجائز طریقے سے سیاسی حریف کو نیچا دکھانے کی کوششیں غالب ہوتی ہیں‘ بدلنے کی ضرورت ہے۔ وہ اکثر جوڑتوڑ اور اپنی پسند کا نتیجہ حاصل کرنے کے عمل میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو سکے تو جمہوری عمل کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان لگا دیا جاتا ہے۔ کئی لیڈروں کے طرز عمل میں کرپشن اور اقربا پروری نظر آتی ہے؛ تاہم تعصب اس قدر ہے کہ کوئی بھی پارٹی ممبر اس بات کو قبول نہیں کرتا کہ ان کے کچھ رہنما کرپشن میں ملوث ہیں‘ بلکہ وہ حریف جماعت کے لیڈروں اور ارکان کو بدعنوان قرار دیتے ہیں۔ الزامات اور جوابی الزامات کے اس تبادلے نے سیاست میں کرپشن پر قابو پانا مشکل بنا دیا ہے۔
دوسرا، جمہوریت کو صرف امیر اشرافیہ کی ہی خدمت نہیں کرنی چاہیے۔ یہ عمل جمہوریت کو پلوٹوکریسی میں بدل دیتا ہے۔ جمہوری نظام کو عام آدمی کی خدمت کرنی چاہیے‘ ان تک بنیادی ضروریات کی فراہمی یقینی بنانی چاہیے اور غربت اور پسماندگی کو کم کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اگر جمہوریت عام لوگوں کو بہتر مستقبل کی امید دلانے میں ناکام رہتی ہے تو یہ معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط نہیں کر سکتی۔ آج پاکستان کی بحران زدہ معیشت اور خاص طور پر مہنگائی عوام کو نہ صرف حکومتی پالیسیوں سے بلکہ جمہوری عمل سے بھی دور کر رہی ہے۔ اس سے عوام شدت پسندوں کی پالیسیوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔ تیسرا، پاکستان کی جمہوریت سیاسی تسلسل کے فقدان، معطلی، آئین کی تنسیخ اور آمرانہ حکمرانی کا بھی شکار رہی ہے۔ اگر جمہوری عمل کو کوتاہیوں یا کمیوں کا سامنا ہے تو اس کا حل اسے یعنی جمہوریت کو ترک کرنا نہیں ہے‘ بلکہ اس کی بہتری کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے‘ جو اس کے کام کرنے کے عمل کو روک کر ممکن نہیں۔ جمہوریت کو کام کرنے دیں‘ جمہوری کلچر کو پھیلائیں اور لوگوں کے سماجی و اقتصادی مسائل کو حل کر کے جمہوریت کے معیار کو بہتر بنانے پر توجہ دیں۔ پاکستان ایک متنوع معاشرہ ہے جس میں سماجی اور معاشی عدم مساوات موجود ہے۔ ایسے معاشرے کو ایک جمہوری حکومت کی ضرورت ہے جہاں حکمران عوام کے سامنے جوابدہ ہوں؛ تاہم جمہوریت کو لوگوں کے مسائل، خاص طور پر ان کے معاشی مسائل‘ کو حل کرنے کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ اگر جمہوریت کو پنپتا دیکھنا ہے تو یہ بے حد ضروری ہے۔ رہنماؤں کو معاشرتی مسائل کے حل کیلئے جمہوری نظام کو بروئے کار لانا چاہیے اور عام لوگوں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ رہنما صحیح راستے پر رہیں، یعنی جمہوریت کی راہ پر‘ معاشرے کی بھلائی اور بہبودکے لیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں