"HAC" (space) message & send to 7575

ملکی معاملات میں غیرملکی مداخلت

تحریک عدم اعتماد مارچ سے پاکستانی سیاست پر حاوی تھی۔ حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں نے ابتدائی طور پر ملکی سیاست اور معیشت کے معاملات پر توجہ مرکوز کی تھی؛ تاہم 27 مارچ کو اسلام آباد میں ایک جلسۂ عام میں وزیر اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا کہ ایک بیرونی ملک انہیں اقتدار سے ہٹانا چاہتا ہے اور یہ کہ اپوزیشن رہنما ان کی برطرفی کی منصوبہ بندی کرکے اُس ملک کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے الزام کے ثبوت کے طور پر جلسۂ عام میں پاکستان کے سفارتی مشن سے موصول شدہ ایک دستاویز دکھائی۔ اس دستاویز کو قومی سلامتی کمیٹی 31 مارچ کو زیرِ غور لائی تھی اور اس نے اس کے مندرجات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے طور پر دیکھا تھا۔
پاکستان کی قومی سیاست میں بیرونی مداخلت کا معاملہ کوئی نئی شکایت نہیں۔ ماضی میں بھی بعض حکمرانوں نے حکومت کی بعض پالیسیوں کے حوالے سے غیرملکی دھمکیوں یا دباؤ کی شکایت کی تھی۔ پاکستانی سیاسی رہنما اور جماعتیں‘ دونوں ایسی شکایت پر تائید والا موقف اختیار کرتے ہیں یا اسے جعلی قرار دے کر مسترد کر دیتے ہیں، لیکن حمایت یا مسترد کرنے کا انحصار سیاسی جماعت کے سیاسی مفاد پر ہوتا ہے۔ اگر ہم اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کے قضیے کا عالمی سطح پر جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ ایشیا، افریقہ، جنوبی امریکہ کے کئی ترقی پذیر ممالک وقتاً فوقتاً اپنے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کی شکایت کرتے رہے ہیں۔ غیرملکی مداخلت میں بعض پالیسی اقدامات کو اپنانے کے بارے میں لطیف تنبیہات بھی شامل ہیں۔ بعض اوقات، وہ اس طرح کی سرگرمی کا ذمہ دار پڑوسی ریاست کو ٹھہراتے ہیں۔ یہ واضح کرنے کیلئے کافی تاریخی شواہد موجود ہیں کہ ایک بڑی مغربی ریاست جنوبی امریکہ اور مشرق وسطیٰ میں حکومتوں کو ختم کرنے یا برقرار رکھنے میں کردار ادا کرتی رہی ہے۔ فوجی بغاوتوں کی حوصلہ افزائی یا حوصلہ شکنی بھی کی جاتی رہی ہے۔ ایسا اس وقت کیا جاتا ہے جب بڑی طاقت یہ نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ اس طرح کی کارروائی اس کے مفادات کو فروغ دے گی۔ کسی دوسری ریاست کے داخلی معاملات میں مداخلت کے مختلف طریقے ہیں، جس میں حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے مقامی گروپ کی حمایت بھی شامل ہے۔ ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ کے ترقی پذیر ممالک جو بالواسطہ یا بلاواسطہ غیرملکی مداخلت کا تجربہ رکھتے ہیں‘ کچھ مشترکہ خاصیتوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ وہ بیرونی اثرات، دباؤ، اور براہ راست اور بالواسطہ مداخلت کے سامنے کمزور پڑ جاتے ہیں۔
بیرونی مداخلت کا شکار ریاست کی پہلی خاصیت اس کی مشکلات کا شکار معیشت ہوتی ہے۔ وہ ریاست جس کی معیشت کا زیادہ تر انحصار غیرملکی ذرائع پر ہو اسے مکمل خود مختار قومی اقتصادی اور سیاسی پالیسیاں اپنانے میں ہمیشہ مشکل پیش آتی ہے۔ ایسی ریاست کی خارجہ پالیسی کے آپشنز غیرملکی اقتصادی مدد پر انحصار کے باعث محدود ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ریاست بین الاقوامی مالیاتی اداروں یا انفرادی ممالک کی غیرملکی اقتصادی امداد پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے تو وہ عطیہ دینے والے ممالک کی حساسیت کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ کچھ بین الاقوامی مالیاتی ادارے، جیسے آئی ایم ایف، قرضوں کی پیشکش کی شرط کے طور پر معیشت کی تنظیم نو کیلئے تجاویز پیش کرتے ہیں۔ وہ ممالک جو خوراک کی درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں یا جن کا خوراک کے عطیات پر انحصار ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے لوگوں کو مقامی زراعت سے خوراک نہیں دے سکتے‘ انہیں پالیسی کی تشکیل میں ہمیشہ بھاری بیرونی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دوسری، جن ممالک کو کسی شدید داخلی تنازع کا سامنا ہے، وہ اکثر اپنے داخلی معاملات میں دوسری ریاستوں اور بین الاقوامی تنظیموں کے کردار کو محسوس کرتے ہیں۔ جن ریاستوں کو داخلی سطح پرعلیحدگی کی تحریکوں اور ملک کے کچھ حصوں میں جنگ کی سی کیفیت کا سامنا ہوتا ہے، بیرونی ریاستیں اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ریاست میں حکومت اور اس کے مخالفین کے حوالے سے پالیسیاں اپناتی ہیں۔
تیسری، اگر ملک کی سیاست بہت زیادہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہے اور حکمران جماعت اور اپوزیشن مستقل طور پر سیاسی مخاصمت کی راہ پر گامزن ہو جائیں تو اس ملک کی معاشی اور سماجی ترقی کو نقصان پہنچتا ہے۔ اگر حکومت اور اپوزیشن کسی بھی معاملے پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتیں اور کسی بھی قیمت پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانا چاہتی ہوں تو ایسا ملک بیرونی دبائو برداشت نہیں کر سکتا۔ اپوزیشن حکومت اور اس کی خارجہ اور ملکی پالیسیوں پر کسی بھی غیرملکی تنقید کا خیر مقدم کرے گی۔ مارچ 2022 میں جب عمران خان نے غیرملکی مداخلت کی بات کی تو اپوزیشن جماعتوں نے عمران خان پر اس ملک کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کا الزام لگایا تھا۔ تب بہت سے اپوزیشن لیڈروں نے مغرب نواز بیانات جاری کیے کیونکہ وہ حکومت کی مخالفت کرنا چاہتے تھے۔ پی ٹی آئی اور اپوزیشن جماعتوں کے مابین تعلقات اس قدر خراب ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے سیاسی بیانات کی صداقت پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ ایسا ملک غیرملکی مداخلت کے خلاف متفقہ مؤقف اختیار کرنے سے قاصر رہتا ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں اس رجحان کو خالصتاً اپنی سیاسی جماعت کے مفادات کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ اس طرح کی سیاسی تقسیم ریاست کو بیرونی دباؤ اور مداخلت کے سامنے مزید کمزور بنا دیتی ہے۔
چوتھی، بڑی طاقتیں عالمی سطح پر اپنی خارجہ پالیسی اور سلامتی کے ایجنڈے کو فروغ دینے کیلئے اپنے مالی وسائل، عسکری طاقت اور تکنیکی ترقی کا استعمال کرتی ہیں۔ وہ دوسرے ممالک کو اپنا گرویدہ بنانے کیلئے اقتصادی مدد، اسلحے کی فروخت‘ فوجی امداد اور سفارتی حمایت کا استعمال کرتی ہیں۔ اگر کوئی ملک فوجی اور اقتصادی امداد ملنے کے باوجود پالیسی سازی میں خود مختاری کا مظاہرہ کرتا ہے تو عطیہ دینے والا ملک اپنی پسند کے وقت پر تعزیری پالیسیاں اپنائے گا۔ پانچویں، جدید مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجیز نے دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت کو آسان بنا دیا ہے۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر مبنی مواصلاتی نظام کا استعمال معلومات کو ایک ٹویسٹ کے ساتھ تقسیم کرنے کیلئے کیا جاتا ہے‘ جو معلومات فراہم کرنے والوں کی دلچسپی کا باعث بنتا ہے۔ اندرونی تنازعات یا سیاسی انتشار کا سامنا کرنے والے ملک کو جعلی خبروں اور انجینئرڈ معلومات کے ذریعے باہر سے بڑی آسانی کے ساتھ نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور ہدف بننے والے ملک کیلئے اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ریاستیں بیرونی مداخلت سے بچ سکتی ہیں اگر ان کے رہنما داخلی سیاسی مسائل کو قابل انتظام حدود میں رکھیں اور اقتدار کیلئے بے قابو جدوجہد سے گریز کریں۔ حکومتی پالیسیوں کو سماجی و اقتصادی ترقی اور انسانی بہبود پر مرکوز ہونا چاہیے تاکہ افراد اور گروہ ریاست سے بیگانہ نہ ہوں۔ حکومتوںکو معیشت کی بہتری پر سب سے زیادہ توجہ دینی چاہئے۔ معیشت کے قومی ذرائع کو مضبوط کیا جانا چاہئے اور اس کا انحصار بیرونی قرضوں، ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی انفرادی گرانٹس پر کم کیا جانا چاہئے۔ انتہائی منقسم سیاست اور بحران زدہ معیشت والی ریاست غیرملکی مداخلت اور غیرملکی دباؤ اور دھمکیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ کوئی ریاست اندرونی سیاسی ہم آہنگی، ریاستی اداروں کے معمول کے کام کے ساتھ سیاسی استحکام اور عام لوگوں کی فلاح و بہبود کو فروغ دینے والی اندرونی طور پر نمو پذیر معیشت کو فروغ دے کر ہی بیرونی دباؤ اور مداخلت کے خلاف مزاحمت کرنے کی صلاحیت پیدا کر سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں