روس نے 24 فروری 2022 کو یوکرین پر باقاعدہ حملے کا آغاز کیا تھا۔ یہ جنگ دو ماہ سے جاری ہے اور اس کے جلد بند ہونے کے بہت کم آثار ہیں۔ دونوں فریق اپنے مسابقتی ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کیلئے پرعزم دکھائی دیتے ہیں‘ اگرچہ اس جنگ کو روکنے کیلئے کچھ کم اہم سفارتی کوششیں بھی جاری ہیں۔ روس یوکرین جنگ نے قابل ذکر سرپرائزز دیئے ہیں۔ روس کا اصل مقصد مشرقی اور جنوب مشرقی یوکرین میں ایک طاقتور فوجی آپریشن شروع کرنا تھا۔ توجہ ڈونباس (Donbass) کے علاقے پر تھی‘ جہاں پہلے ہی روس کو عوام کی خاصی حمایت حاصل تھی۔ روسی قیادت کو توقع تھی کہ جنگ کے آغاز کے بعد دو ہفتوں میں یوکرین کی وفاقی حکومت گر جائے گی، جس سے روس نواز حکومت کا راستہ کھل جائے گا‘ جو یوکرین کی خارجہ پالیسی کو روس کیلئے اطمینان بخش بنا دے گی؛ تاہم ایسا نہیں ہوا۔ یوکرین کی حکومت نے روسی حملے کے مقابلے کیلئے بھرپور عزم ظاہر کیا۔ ابتدا میں روس نے یوکرینی ایئربیسز اور ملک بھر کے ہوائی اڈوں پر فضائی حملے کئے تھے‘ اور پھر مشرق اور جنوب مشرق میں زمینی حملہ بھی جاری رکھا۔ بعدازاں اس نے یوکرینی دارالحکومت کے قریب زمینی کارروائیاں کیں۔
ایک بہت طاقتور ملک کی طرف یوکرین کے سخت ردعمل میں دو عوامل نے اہم کردار ادا کیا۔ پہلا‘ روس سے لڑنے کے حوالے سے یوکرین کی قوم پرستی کو بڑھانے کے تناظر میں قیادت اور عوام کا عزم۔ یوکرین کی حکومت نے خود کو مجتمع رکھا اور روسی کی فوجی کارروائیوں پر ردعمل کیلئے کامیاب رہنمائی کی۔ دوسرا، نیٹو کے کچھ ممالک، خاص طور پر امریکہ، برطانیہ اور جرمنی نے روس کی فوجی کارروائیوں کے خلاف مزاحمت کیلئے یوکرین کو مختلف قسم کے میزائلوں اور طویل فاصلے تک مار کرنے والی بندوقوں سمیت فوجی سازوسامان فراہم کیا۔ ہتھیاروں کی فراہمی نے روس کیلئے جنگ کی لاگت میں اضافہ کردیا۔
امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے روس کے ساتھ براہ راست تصادم سے بچنے کیلئے اپنی زمینی یا فضائی افواج کو جنگ میں جھونکنا مناسب نہیں سمجھا۔ یوکرین چاہتا تھا کہ اس کی فضائی حدود کو روسی طیاروں کیلئے ''نو فلائی زون‘‘ قرار دیا جائے۔ مغربی ممالک کی فضائی افواج کی براہ راست شمولیت کے بغیر ایسا ممکن نہیں تھا‘ لیکن مغربی ممالک‘ بالخصوص امریکہ‘ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے طیارے روسی فضائیہ کے ساتھ براہ راست تصادم میں ملوث ہوں۔ انہوں نے یوکرین کو زیادہ سے زیادہ سفارتی مدد اور فوجی سازوسامان فراہم کرنے کی حکمت عملی کا انتخاب کیا تاکہ روس سے لڑنے کی یوکرین کی صلاحیت کو بڑھایا جا سکے۔ اب، جنگ کے دوسرے مہینے کے اختتام پر، روس مشرقی اور جنوب مشرقی علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کیلئے پرعزم دکھائی دیتا ہے۔ یوکرین کا ایک جنوب مشرقی شہر ماریوپول روس کا اصل ہدف ہے جس نے اس شہر کے ایک بڑے حصے کو تباہ کر ڈالا ہے۔ روس پہلے ہی جنوب مشرق میں کریمیا کو کنٹرول کرتا ہے۔ ماریوپول پر قبضہ اس علاقے میں روسی گرفت کو مزید مضبوط کردے گا۔
یوکرین روس جنگ میں ترقی پذیر ممالک اور ایشیا و افریقہ کے چھوٹے ممالک کیلئے کیا سبق پنہاں ہیں؟ پہلا‘ جنگ سیاسی مسائل کے حل کیلئے کوئی آپشن نہیں ہے۔ اس جنگ نے کئی انسانی مسائل پیدا کیے ہیں جن کے منفی اثرات یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے بعد بھی طویل عرصے تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ جنگ نے یوکرین کو بہت زیادہ مادی نقصان پہنچایا ہے۔ کئی رہائشی اور صنعتی علاقے تباہ ہو چکے ہیں۔ لاکھوں لوگ عملی طور پر بے گھر ہیں۔ جنگ نے پناہ گزینوں کا ایک سنگین مسئلہ پیدا کر دیا ہے۔ ملک کے اندر بھی بے گھر لوگ موجود ہیں جو رہنے کیلئے محفوظ جگہوں اور کھانے کیلئے خوراک کی تلاش میں ہیں۔ دس لاکھ سے زیادہ یوکرینی اور غیرملکی ہمسایہ ریاستوں بالخصوص پولینڈ، ہنگری اور رومانیہ جا چکے ہیں۔ پولینڈ کے راستے سینکڑوں پاکستانی وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔ اس سے سبق یہ ملتا ہے کہ جنگ سے گریز کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے انسانی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور بہت سے ایسے لوگوں‘ جن کا ریاستی پالیسیوں کا فیصلہ کرنے میں کوئی کردار نہیں ہوتا‘ کو جنگ کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔
یوکرین کی جنگ کا دوسرا سبق یہ ہے کہ کسی بھی ریاست کو ازخود جنگ لڑنا پڑتی ہے۔ اتحادی مدد فراہم کرسکتے ہیں لیکن جنگ کا اصل زور متعلقہ ملک کوہی سہنا پڑتا ہے۔ یوکرین خوش قسمت ہے کہ مغربی ممالک اسے فوجی سازوسامان فراہم کر رہے ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ روس کامیاب ہو۔ ہر جنگ کے معاملے میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہرملک کو انفرادی طور پر مضبوط صنعتی اور تکنیکی بنیاد کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں کی مقامی صنعت اور اچھی معیشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک ایسا ملک جو غیرملکی اقتصادی اور فوجی امداد پر انحصار کرتا ہو‘ جنگ کو آگے بڑھانے سے معذور ہوگا۔
تیسرا، یوکرین روس جنگ پاکستان کیلئے اہم سبق رکھتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک کو‘ جسے بڑے حجم، وسائل اور فوجی طاقت کا سامنا ہے، خود مختارانہ سکیورٹی نظام کی ترقی کیلئے کام کرنا چاہیے۔ اس میں روایتی فوجی سکیورٹی کے ساتھ ساتھ غیرروایتی سکیورٹی نظام بھی شامل ہونا چاہئے۔ پاکستان کو زمین، سمندر اور فضا میں ملک کے دفاع کیلئے انتہائی پیشہ ور، اچھے تربیت یافتہ، اور انتہائی حوصلہ افزا فوجی اہلکاروں اور جدید روایتی آلات برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں اور ان کی ترسیل کے نظام خصوصاً میزائل سسٹم نے دشمن کے خلاف ایک مضبوط ڈیٹرنس پیدا کیا ہے۔ ایسا غیرروایتی ڈیٹرنس مضبوط روایتی حفاظتی نظام کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنگیں ایک روایتی تنازع کے طور پر شروع ہوتی ہیں‘ جن میں مضبوط فوج، بحریہ اور فضائیہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مقامی دفاع‘ دیگر صنعتوں اور معیشت کا اتنا مضبوط ہونا ضروری ہے کہ ملکی سلامتی کو مستحکم کیا جا سکے۔
یوکرین روس جنگ کا چوتھا سبق یہ ہے کہ کسی ترقی پذیر ملک کو کسی بڑی طاقت کے عالمی نظریے کے پوری طرح مطابق نہیں ہونا چاہیے۔ اسے کسی بڑی طاقت کا پٹھو نہیں نظر آنا چاہیے۔ دوسری طاقتوں کے ساتھ تعلقات کی قیمت پر کسی بڑی طاقت کے ساتھ اس طرح کی قریبی صف بندی مناسب نہیں ہے۔ ایک ترقی پذیر ملک کو تمام بڑی طاقتوں کے ساتھ باہمی فائدہ مند تعلقات برقرار رکھنے چاہئیں۔ ایسا ملک کسی بڑی طاقت کے عالمی ایجنڈے کا مکمل حامی ہونے کی شناخت بنانے کے بجائے کسی خاص مسئلے پر ایک یا دوسری طاقت کی طرف جھکائو رکھ سکتا ہے۔
یوکرین روس جنگ سے بچا جا سکتا تھا‘ اگر یوکرین روس کے سکیورٹی خدشات کو نظر انداز نہ کرتا۔ یوکرین امریکہ اور نیٹو کے ساتھ قریبی شراکت داری کو فروغ دینے کا اتنا خواہشمند تھا کہ اس کی شناخت نیٹو کے سکیورٹی سسٹم کو روس کی سرحد تک لے جانے کے عالمی امریکی ایجنڈے کے حامی کی ہو گئی۔ روسی قیادت نے کئی بار خبردار کیا تھا کہ وہ یوکرین کے نیٹو میں شامل کرنے کو برداشت نہیں کرے گی‘ کیونکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ نیٹو روس کی سرحد تک پہنچ گیا ہے۔ اگر یوکرین امریکہ اور روس کے درمیان طاقت کے مقابلے پر ایک آزاد پوزیشن برقرار رکھتا تو وہ جنگ ٹال سکتا تھا۔ حتیٰ کہ آج بھی جنگ ختم ہو سکتی ہے اگر امریکہ اور نیٹو یہ اعلان کر دیں کہ وہ یوکرین کو امریکہ کے تحت یورپی سکیورٹی سسٹم میں شامل نہیں کریں گے۔
ایک چھوٹے فوجی ملک کو کسی بڑی طاقت کی حوصلہ افزائی پر عالمی سیاست میں بڑا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے۔ چھوٹے ملک کو ایسی پالیسی کی قیمت زیادہ چکانا پڑتی ہے۔ اس کے برعکس، چھوٹے اور کمزور ملک کی توجہ خود مختارانہ سکیورٹی، دانشورانہ سفارت کاری اور عام لوگوں کی فلاح و بہبود پر ہونی چاہیے۔