"HAC" (space) message & send to 7575

سری لنکا سے سبق سیکھیں

کسی بھی ترقی پذیر ملک کے مستقبل میں کامیابی کے امکانات کا انحصار اس کی معیشت کے علاوہ اس کی بالادست اشرافیہ کے رویے اور مزاج پر ہوتا ہے۔کوئی ملک اسی وقت بہتر کارکردگی دکھاسکتا ہے جب اس کی معیشت فروغ پا رہی ہواور وہ خارجی وسائل کا محتاج نہ ہو۔اگر اس کی معیشت کی داخلی بنیادیں مضبوط اور وسعت پذیرہوں تو وہ اپنے ہر طرح کے مسائل پر قابو پا سکتا ہے؛ تاہم محض معیشت کی وسعت اور فروغ ہی کافی نہیں ہوتا۔ یہاں اس امر سے آگاہی بھی ضروری ہے کہ اس معیشت کی ترقی سے سب سے زیادہ فوائد کون سمیٹ رہا ہے۔سماجی اور معاشی انصاف کے ساتھ ساتھ معاشی تفاوت سے بچنا بھی اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر عوام اور ریاست کے مختلف علاقوں کے معاشی تفاوت کی خلیج گہری ہے تو سماجی تضاد اور تصادم میں بھی شدت پیدا ہو تی ہے؛ چنانچہ اس کے منفی مضمرات سیاست کے افق پر بھی نظر آتے ہیں‘ لہٰذا معاشی ترقی کو سماجی اور معاشی انصاف سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور ریاست کوچاہئے کہ وہ اپنے شہریوں کو بنیادی سروسز کی فراہمی یقینی بنائے۔ ان سروسز میں تعلیم ‘صحت عامہ اور ٹرانسپورٹ سمیت تمام شہری سہولتیں شامل ہیں۔دوسرا اہم فیکٹراشرافیہ کا مزاج ہے جو ریاستی اقتدار کوکنٹرول کرتا ہے۔ یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اشرافیہ اقتدار کے سنگھاسن تک کیسے پہنچتی ہے اور اس کا انفرادی طرزِ عمل کیسا ہے؟وہ ریاست کے طے شدہ اصولوں کی پاسداری کے لیے کس حد تک پر عزم ہے؟کیا وہ اپنے معاملات میں راست باز ہے اور ذاتی تجوریاں بھرنے کے لیے کرپشن اور ریاستی وسائل کے غلط استعمال میں توملوث نہیں ؟کیا وہ معاشی میدان میں اپنے فیملی ممبرز اور دوستوں کی اعانت سے اقربا پروری تو نہیں کرتی؟ان دو عوامل کی وجہ سے سنگین معاشی اور سیاسی مسائل کے گرداب میں پھنسنے والی ریاست کی تازہ ترین مثال سری لنکا ہے جو حقیقت میں دیوالیہ ہو چکا ہے اور بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی کے لیے ڈیفالٹ کر گیا ہے۔اس کی معیشت اب اپنے شہریوں کو کم ازکم معاشی سکیورٹی یقینی بنانے کے قابل بھی نہیں رہی۔عوام نے اپنے طورپر حکومت کے خلا ف عَلمِ بغاوت بلند کر دیا ہے۔یہ ایک عوامی بغاوت ہے جو ابھی تک پُرامن ہے؛ تاہم صورتحال اسی طرح ابتررہی تویہ داخلی بدامنی ایک پُر تشدد بغاوت کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہے۔
تین عوامل نے سری لنکا کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔اس کی بدقسمتی کہ 2020-21ء میں کووڈ کی وبا پھوٹ پڑی‘ معیشت کی بدانتظامی ‘راجہ پاکسے فیملی کی اقتدار پر اجارہ داری اور راجہ پاکسے فیملی اور ان کے حواریوں کی ذاتی دولت میں اضافے کے لیے ہونے والی کرپشن ۔سری لنکا میں زر مبادلہ کی آمدنی اور تجارتی سرگرمیوں میں وسعت کا اہم ذریعہ سیاحت ہے۔یہ ایک سیاح دوست ملک گردانا جاتا ہے ‘یہاں کا ہوٹل کا بزنس اور اس سے متعلق دیگر سرگرمیاںبراہ راست غیر ملکی سیاحوں سے منسلک ہیں۔جب مارچ اپریل 2020ء میں پہلی مرتبہ کووڈ یہاں پھیلا تو اس کی ہوٹل انڈسٹری کو شدید دھچکا لگا۔کووڈ کا سلسلہ برقرار رہا تو غیر ممالک سے سیاحوں کی آمدو رفت بھی رک گئی ۔نیز کورونا پر قابو پانے کیلئے سری لنکا نے مکمل بندش کی پالیسی پر عمل شروع کر دیا جس نے ان معاشی سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچایا جو سیاحتی بزنس بند ہونے سے پہلے ہی نقصان کا سامنا کر رہی تھی۔معیشت کی بدانتظامی سری لنکا کے موجودہ اقتصادی بحران کی ایک اہم وجہ ہے۔جب بیرونی قرضے بڑھتے گئے اور داخلی معیشت سکڑتی گئی توابتدائی مرحلے پر ان مسائل کی درستی پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔منفی معاشی پیشرفت پر قابوپانے کی ہنگامی ذمہ داری کو راجہ پاکسے حکومت نے نظر انداز کیا۔ملکی معیشت کو گرداب سے نکال کراستحکام کی راہ پر گامزن کرنے پر اتفاقِ رائے کے بجائے سیاست دان ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں ہی مصروف رہے۔ راجہ پاکسے فیملی عرصے تک سری لنکا کی سیاست پر چھائی رہی۔ابھی کچھ عرصہ پہلے تک ایک بھائی صد رتھا اور اس کا بڑا بھائی ملک کا وزیر اعظم تھاجو ماضی میں سری لنکا کے صدارت کے فرائض بھی سر انجام دے چکاہے۔اس خاندان کے کئی ارکان ماضی میں متعد د اہم حکومتی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔اس فیملی کے اقتدار سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے ان سب کو قریبی رشتہ داروں اور حواریوں نے گھیررکھا تھا۔ان لوگوں نے کرپشن ‘ریاستی اقتدار کے غلط استعمال اور جانبدارانہ معاشی فیصلوں کی بدولت بہت زیاد ہ دولت کمائی۔گوتا بایا راجہ پاکسے کی مجموعی دولت کا تخمینہ 10ارب ڈالرز لگایا جاتا تھا۔
پاکستانی معیشت کو بھی سنگین مسائل کا سامنا ہے مگراس کے حالات سری لنکا سے بہتر ہیں۔پاکستان کو بھی پہلی مرتبہ فروری مارچ 2020ء میں کوروناوائرس کے حملے کا سامنا کرنا پڑا تھا اور سری لنکا کی طرح یہاں بھی کووڈ کا سلسلہ 2020-21ء سے ہوتا ہوا 2022ء تک جاری رہا؛ تاہم پاکستان نے مارچ‘ اپریل 2020ء کے دوران مکمل لاک ڈائون پر عمل کیا تھا مگرہماری قیادت کو جلدمکمل لاک ڈائون کے منفی مضمرات کا ادراک ہو گیا ۔پھرپی ٹی آئی کی حکومت نے مخصوص علاقوں میں یا سمارٹ لاک ڈائون کی پالیسی پر عمل کیا جس کے نتیجے میں تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں کے محدود مواقع پیدا ہوگئے۔ اگرچہ پاکستان کی معیشت بھی متاثر ہوئی تھی مگر اس کی شدت سری لنکا جیسی نہیں تھی جس کا حجم پاکستان کے مقابلے میں کافی چھوٹا تھا۔سری لنکن معیشت مکمل لاک ڈائون کا جھٹکا برداشت نہ کر سکی۔پاکستان نے لاک ڈائون کے حوالے سے ایک اعتدال پسند پالیسی پر عمل کیا اور کورونا وائرس کی شدت میں بتدریج کمی کے ساتھ لاک ڈائون پالیسی پر نظر ثانی بھی کی جاتی رہی۔غریب طبقات کو احساس پروگرام کے تحت مدد فراہم کی گئی جبکہ عوام کی طرف بھی انسانی ہمدردی کے جذبے سے سرشار ہو کر مستحق افراد کی بھرپور مالی مد د کی گئی۔ پاکستانی معیشت میں بدانتظامی پر بات کی جاسکتی ہے؛ تاہم پاکستان کی معیشت مکمل تباہی سے اس لیے بچ گئی کیونکہ اسے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی سپورٹ حاصل رہی جن سے ملنے والے قرضے پرانے قرضوں کی واپسی میں استعمال ہو گئے۔
اوورسیز پاکستانی بھی زرمبادلہ کی شکل میں بھاری رقوم وطن بھیجتے رہے۔ گندم ‘چاول اور کپاس کی قلت بیرونِ ملک سے درآمد کرکے پوری کرلی گئی۔ ان اقدامات کی بدولت پاکستان کسی بڑے اور سنگین بحران سے محفوظ رہا مگر اس کی معیشت کو مسلسل مالی مسائل کا سامنا رہا۔پاکستان میں دو بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوںپر سنگین الزامات عائد کیے جاتے ہیں جن کی اعلیٰ قیادت نے ناقص فیصلہ سازی اور ریاستی وسائل کے غلط استعمال سے ذاتی تجوریاں بھریں۔ہمارا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہماری مختلف سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ ایک ایسی مہلک سیاسی جنگ میں ملوث ہے جس کا مقصد اپنے حریفوں کو سیاست کے میدان سے ہمیشہ کے لیے نکال باہر کرنا ہے۔ اگرچہ سب جمہوریت کے دعویدار ہیں مگر انہوں نے شاید ہی کبھی جمہوری اقدار ‘تہذیب و شائستگی کے اصولوں اور باہمی احترام کو ملحوظ خاطر رکھا ہو؛ چنانچہ ملک کے معاشی مسائل سے نمٹنے کیلئے اتفاقِ رائے قائم کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور معاشی صورتحال سری لنکاسے کافی بہتر ہے تاہم سری لنکا کو دیوالیہ کرنے والے معاشی زبوں حالی کے بنیادی جراثیم پاکستان میں بھی پائے جاتے ہیں۔اگر پاکستان کی سیاسی لیڈر شپ اپنی سیاست میں اعتدال اور برداشت کا عنصر پیدا نہیں کرتی اورمعاشی مسائل کے حل کیلئے وسیع تر اتفاق رائے تشکیل نہیں دیا جاتا توہماری زوال پذیر معیشت کو مسلسل خطرات کا سامنا رہے گا۔پاکستان کے سیاسی او رسماجی مسائل کی کلیدی وجہ اس کی کمزور اور غیر مستحکم معیشت ہے۔اگر ہم پاکستان میں امن ‘استحکام اور سیاسی تسلسل برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں تو ہماری لیڈرشپ کو چاہئے کہ وہ ان مسائل کے حل کو اپنی اولین ترجیح بنا لے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں