حکومت کی بڑی ترجیحات اور خدشات کی نشاندہی کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اہم سرکاری عمال کے بیانات کا تجزیہ کر لیا جائے۔ اعلیٰ قیادت وقتاً فوقتاً جن موضوعات پر گفتگو کرتی ہے اور جن ایشوز کو اٹھاتی ہے انہیں حکومتی نقطۂ نظر سے فوری اہمیت کے حامل مسائل گردانا جاتا ہے۔ ہم قائدین کے ایک مہینے کے دوران دیے گئے بیانات اور انٹرویوز کا جائزہ لے کر یہ نشاندہی کر سکتے ہیں کہ حکومتِ وقت کے نزدیک اہم ترین ایشوز کیا کیا ہیں۔
اگر ہم پاکستان کے وزیراعظم‘ خزانہ‘ داخلہ و خارجہ امور اور اطلاعات کے وزرا کے ایک مہینے کے دوران دیے گئے سرکاری بیانات جمع کر لیں اور ان بیانات کے مواد کا تجزیہ کریں تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ان بیانات میں ایسے مسائل پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے جو آزاد تجزیہ کاروں اور بین الاقوامی مبصرین کے نزدیک پاکستانی ریاست اور سماج کو پرامن اور ہم آہنگ انداز میں چلانے کے لیے کڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان کے ریاستی اور سماجی امور پر دسترس رکھنے والے پاکستانی اور غیر ملکی تجزیہ کاروںمیں یہ عمومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ آج کل پاکستان کو تین سنگین ترین چیلنجز کا سامنا ہے۔ وہ ہیں معیشت‘ عوام کی سطح پر پائی جانے والی روز افزوں بددلی یا اشتعال‘ نیز معاشی وجوہات اور بھارت کے ساتھ پاکستان کے دوطرفہ مسائل کے تناظر میں عالمی برادری کی حمایت کے حصول کے لیے باہمی تال میل میں مثبت استحکام کی ضرورت۔ پاکستان کے معاشی مسئلے کی دو جہات ہیں۔ اول: اسے بجٹ کا سوال درپیش رہتا ہے‘ خصوصاً جاری اکائونٹس کا خسارہ‘ بین الاقوامی تجارت میں ناموافق توازن‘ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی‘ پاکستانی روپے کی شرح مبادلہ میں اتار چڑھائو اور خارجی معاشی سپورٹ پر بھاری انحصار وغیرہ۔ ہماری معیشت کے دوسرے پہلو کا تعلق حکومت کے معاشی فیصلوں کے عام آدمی پر پڑنے والے اثرات سے ہے۔ افراطِ زر اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے عام آدمی اس قدر متاثر ہوتا ہے کہ ہر کسی پر‘ خاص طور پر آبادی کے افلاس زدہ طبقے پر ایک قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ اگرچہ مہنگائی کا سلسلہ شہباز شریف کی زیر قیادت بننے والی پی ڈی ایم اور مسلم لیگ نون کی حکومت بننے سے پہلے شروع ہو چکا تھا تاہم افرطِ زر اور قیمتوں کی رفتار میں حکومت کی تبدیلی کے بعد بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ بجلی‘ گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ عام آدمی کی زندگی اذیت ناک ہو چکی ہے۔ ایک عام پاکستانی کے لیے معاشی بحران کی وجہ محض روپے کی گرتی ہوئی قدر ہی نہیں ہے‘ وفاقی حکومت مارکیٹ کو کنٹرول کرنے والے افراد اور گروپس کو قابو کرنے کے لیے بھی تیار ہے نہ ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ عناصرقیمتوں میں من پسند اضافہ کرنے میں کلی طور پر آزاد ہیں حتیٰ کہ دکان دار اپنی مرضی کی قیمتوں پر اشیائے ضروریہ فروخت کرتے ہیں کیونکہ ان پر کوئی چیک نہیں ہے۔ کاروباری اور تاجر اشرافیہ عام شہری کی جیب سے جبراً مالی لوٹ کھسوٹ کر رہی ہے۔ بلاجواز معاشی دبائو عام آدمی کے لیے شدید اشتعال کا باعث بن گیا ہے کیونکہ وہ اپنی معاشی تکالیف پر اظہار خیال تو کرتا ہے مگر اسے ان کا کوئی حل نظر نہیں آتا؛ چنانچہ اس کا حکومت اور سرکاری مشینری پر اعتماد کمزور پڑ گیا ہے جو اس کے مسائل سے بے خبراور بیگانہ نظر آتی ہیں۔ اگر ہم خارجہ پالیسی کے محاذ پر دیکھیں تو اس وقت پاکستان کو اپنے معاشی دبائو سے نکلنے اور جاری سال میں سود سمیت غیر ملکی قرضوں کی واپسی کے لیے بھرپور مالیاتی سپورٹ کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کو بڑا شکوہ یہ تھا کہ وہ کشمیری عوام کی مشکلات کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں ناکام رہی ہے نیز اس کی کوتاہ اندیشی کی وجہ سے بھارت کو مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کی جرأت ہوئی۔ نئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے عہدہ سنبھالنے کے بعد سات غیر ملکی دورے کیے ہیں مگر سیاسی اور سفارتی ایشوز خاص طور پر مسئلہ کشمیر سے متعلق کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ اگر ہم اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے بیانات میں سے یہ ایشوز تلاش کرنے کی کوشش کریں تو ان چیلنجز کا کوئی خاطر خواہ ذکر نہیں ملے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ وقتاً فوقتاً معاشی امور سے متعلق بیانات دیتے رہتے ہیں اور آنے والے دنوں میں معاشی صورت حال میں بہتری اور قیمتوں میں کمی کے حوالے سے بھی امید دلاتے رہتے ہیں مگر ایک عام شہری معاشی اعتبار سے اس قدر مشکلات کا شکار ہے کہ اپنے مستقبل سے ناامید نظر آتا ہے۔
وزیراعظم اور وفاقی وزرا کے زیادہ تر بیانات میں ان کی ساری توجہ پی ٹی آئی کے ساتھ جاری موجودہ سیاسی محاذ آرائی پر مرکوز ہے۔ اگر ہم وزیر داخلہ و اطلاعات یا دیگر وفاقی وزرا کے بیانات کا جائزہ لیں تو ان سب پر ایک ہی بھوت سوار ہے کہ عمران خان کی بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت پر کیسے قابو پایا جائے‘ جنہیں وہ موجودہ سیاسی اور معاشی مسائل کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ وزرا کا زیادہ تر وقت انہی باتوں پر صرف ہوتا ہے اور اس امر کے لیے ان کے پاس شاید ہی وقت میسر ہوکہ عام آدمی کے معاشی مسائل حل کرنے میں ان کی مدد کیسے کی جا سکتی ہے۔پی ٹی آئی بھی عوامی مسائل کے حل میں مدددینے کے بجائے افراطِ زر اور اشیائے خوردنی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے کے سوا کچھ نہیں کرتی۔ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے درمیان محاذآرائی میں اتنی شدت آچکی ہے اور باہمی مخاصمت اس نہج تک پہنچ گئی ہے کہ فریقین اپنے پارٹی مفادات سے آگے کچھ دیکھنے سے قاصر نظر آتے ہیں اور بہر صورت اپنے سیاسی حریف کو نقصان پہنچانے کی فکر میں مبتلا ہیں۔ ان کے سیاسی بیانات میں بدتہذیبی‘ اشتعال انگیزی‘ غیر پارلیمانی الفاظ اور القابات کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ ایسے میں معقول بات چیت کا امکان کہاں رہ جاتا ہے۔
پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال‘ معاشی بحالی اور ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ موجودہ حکومت شاید معیشت کا پہیہ چلانے میںکامیاب رہے مگر وہ پاکستانی عوام کو درپیش معاشی چیلنجز کا تنہا مقابلہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ حکومت اور اپوزیشن خاص طور پر پی ایم ایل این‘ پی پی پی اور پی ٹی آئی کو چاہیے کہ اگر وہ معاشی اور سیاسی مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہیں تو وہ باہمی کشیدگی اور مخاصمت کے درجہ حرارت میں کمی لائیں اور ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی میں گھٹیا اور بازاری زبان کا استعمال ترک کریں۔ معاشی مسائل کے حل کے لیے اگر وہ کم از کم اتفاق رائے پیدا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ باہمی کشیدگی اور محاذآرائی میں اعتدال پیدا کریں تاکہ مذاکرات کا عمل شروع کیا جا سکے‘ خاص طور پر یہ کہ عام آدمی کو ریلیف کیسے مہیا کرنا ہے۔ پاکستان کے موجودہ معاشی اور سیاسی مسائل حل کیے جا سکتے ہیں بشرطیکہ سیاسی رہنما ہوسِ اقتدار کے لیے اپنی جائز ناجائز کوششیں ترک کردیں اور اپنے حریف کو سیاسی سٹیج سے اٹھا کر باہر پھینکنے کی روش چھوڑ دیں۔
اپریل 2022ء سے بعدکی سیاست سے اس امر کی عکاسی ہوتی ہے کہ حکومت کی تبدیلی سے بھی ہماری معیشت کوکوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ اس نے پاکستان میں سیاسی بے یقینی میں اضافہ کیا ہے۔ اگر موجودہ منفی سیاسی رجحانات کا سلسلہ اسی طرح جاری رہتا ہے تو حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے کو زچ کرنے اور جمہوری عمل کو ڈِس کریڈٹ کرنے کے سوا کچھ اور سوچ بھی نہیں سکتے۔