پاکستان کو اس وقت سنگین معاشی صورتحال کا سامنا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاشی مسائل میں بھی اضافہ ہوگیا ہے جو عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ او رشہرت کو نقصان پہنچا نے کے علاوہ ملک کے اندر بھی عوام کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔معاشی ترقی کے تمام اہم اشاریے آنے والے دنوں میں معیشت کی سمت کے حوالے سے تشویش پیدا کررہے ہیں۔معیشت نہ صرف حکومت بلکہ معاشرے کے لیے بھی ایک سنگین چیلنج بن چکی ہے۔اگر معیشت کی یہ گراوٹ جاری رہتی ہے تو حکومت او رعوام کو مستقبل میں بے یقینی کا سامنا کرنا ہوگا۔
اگر ہم حکومت او راپوزیشن میں شامل سیاسی رہنمائوں کے بیانات کا تجزیہ کریں تو وہ پاکستان کی معاشی مشکلات کا الزام ایک دوسرے پر عائد کر رہے ہیں۔مسلم لیگ (ن) /پی ڈی ایم حکومت پاکستان کے معاشی مسائل کی ذمہ دار پی ٹی آئی کی معزول حکومت کو ٹھہراتی ہے۔پی ٹی آئی اس الزام کو مسترد کرتی ہے اور استدلا ل پیش کرتی ہے کہ ان کے دورِ حکومت میں ملکی معیشت پچھلے چھ مہینوں کے مقابلے میں کہیں بہتر تھی۔سیاسی رہنما اپنی ساری توانائی ایک دوسرے پر الزام تراشی میں صرف کررہے ہیں مگر دونوں فریق پاکستان کی معیشت کی بحالی کا کوئی روڈ میپ دینے سے قاصر ہیں۔آپ حکومت یا اپوزیشن کے کسی رہنما کا بیان اٹھا کر دیکھ لیں ان میں پاکستان کی بیمار معیشت کے علاج کے لیے شاید ہی کسی کوشش کا اظہار ہوتا ہو۔پوری قیادت اس ویژن سے عاری نظر آتی ہے کہ پاکستا نی معیشت کو کہاں اور کیسے لے کر جانا ہے؟کچھ ایسے بیانات بھی دستیاب ہیں جن سے چند مہینوں میں معاشی بہتری کی امید دلائی گئی تھی مگر ان بیانات کے ساتھ معاشی بحالی کا کوئی باوثوق ثبوت منسلک نہیں ہوتا۔ افراطِ زر نے عام شہری کو اس قدر مشتعل او رپریشان کر رکھا ہے کہ اگر اگلے چند مہینوں میں حکومت نے عوام کو کوئی معاشی ریلیف فراہم نہ کیا تو یہ غصہ اور اشتعال کس بھی وقت سڑکوں پر احتجاج کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ ہوشربا مہنگائی نے پاکستان میں غربت اور پسماندگی میں اضافہ کردیا ہے اورخط ِغربت سے بھی نیچے چلے جانے والے اکثر خاندانوں کو شدید ذہنی کرب میں مبتلا کر دیا ہے۔حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ صورتحال عنقریب بہتر ہوجائے گی جبکہ اپوزیشن کا موقف ہے کہ حکومت کی تبدیلی میں ہی معاشی بہتری کا حل مضمر ہے۔حالیہ سیلابوں سے پاکستان کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کا کام ‘ سڑکوں ‘ پلوں اور ذرائع مواصلات و نقل و حمل کی تعمیرنو کے لیے اس قدر بھاری مالی وسائل کی ضرور ت ہے جنہیں پاکستان اپنے مقامی ذرائع سے پورا نہیں کرسکتا۔یہ حکومت یا اپوزیشن میں شامل سیاسی قیادت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اس وقت جاری معاشی زبوںحالی‘ خاص طورپر سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ہونے والی تباہی پر قابو پانے پرہر ممکن توجہ دیں۔ انہیں فوری طور پر ریاستی وسائل او رتوانائی کا رخ فلاحِ عامہ اور معاشی بحالی کی طرف موڑنے کی ضرورت ہے۔اگر وہ اس سال کے آخر تک عام پاکستانی شہری کو بہتر مستقبل کی امید دلانے سے قاصر رہے تو 2023ء کا سال ان کی سیاست اور موجودہ سیاسی بندوبست کے لیے منفی نتائج لے کر آئے گا۔
کوئی بھی شخص نومبر‘ دسمبر تک پاکستان میں کسی معاشی تبدیلی کی توقع نہیں رکھتا تاہم اس وقت تک ایسے واضح اشارے ملنے چاہئیں کہ پاکستا ن معاشی بحالی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے اور عام پاکستانی شہری کو یہ محسوس ہونا چاہئے کہ اُس کے او پر سے معاشی دبائو میں کمی واقع ہورہی ہے۔اگر پاکستان کی حکمران اشرافیہ عوام کو بہتری کی کوئی ٹھوس امید نہیں دلا سکتی تو موجودہ سیاسی نظام کو ماورائے پارلیمان چیلنجز کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔بعض سیاست دان وقتاًفوقتاًمعاشی مسائل کے حل کے لیے مشرکہ کوششوں کی بات بھی کرتے رہتے ہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف نے میثاقِ معیشت پر دستخط کرنے کی تجویز بھی دی تھی تاکہ حکومت اوراپوزیشن میں معاشی مسائل سے نبردآزما ہونے کے لیے کچھ متفقہ بنیادی اصول طے ہوجائیں۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے مگر کسی مشترکہ معاشی اپروچ کے حوالے سے باہمی افہام وتفہیم اس وقت تک نہیں پیدا ہو سکتی جب تک سیاسی قیادت اس مقصد کے لیے مل جل کرکا م کرنے پر آماد ہ نہ ہو۔اگر وہ معاشی بحالی کے لیے مل جل کر کوئی سنجیدہ کام کرنے پر آمادہ ہیں توانہیں سیاسی میدان میں کچھ ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
آج کی محاذآرائی پر مبنی سیاست پاکستان کی معاشی بحالی میں سب سے سنگین رکاوٹ ہے۔ہمارے سیاستدانوں کو چاہئے کہ وہ اگر معاشی بحالی کے حوالے سے کوئی مشترکہ اپروچ اپنانا چاہتے ہیں تو دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈائیلاگ کی راہ ہموار کریں۔کسی میثاق معیشت کی تشکیل کے لیے اولین تقاضا یہ ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین اپنی تقاریر اور بیانات میں ایک دوسر ے کو جس طرح مخاطب کرتے ہیں اس روش کو تبدیل کریں۔وہ ایک دوسرے کے لیے توہین آمیز زبان استعمال کرتے ہیں‘ ایک دوسرے کو گستاخانہ زبان اور لہجے میں مخاطب کرتے ہیں اور پاکستا ن کے تمام مسائل کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے میں مصروف رہتے ہیں۔وہ ایک دوسرے کو ملک دشمن ‘غیرملکی حکومتوں یاایک انٹیلی جنس ایجنسی کے ایجنٹس قرار دیتے ہیں۔ مذاکرات کے لیے ایک سازگار سیاسی ماحول پیدا کرنے کے لیے مناسب ہوگا کہ حکومت او راپوزیشن دونوں ایک دوسرے کے ساتھ شائستگی اور متانت سے مخاطب ہوں۔
مذاکرات کے لیے ایک مثبت اور ساز گار ماحول تخلیق کرنے کے لیے دوسری شرط یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے اب تک عمران خان اور ا ن کے سینئر ساتھیوں کے خلاف جتنے بھی مقدمات قائم کررکھے ہیں انہیں واپس لے لیا جائے یا معطل کر دیا جائے۔ آج تک کسی سابق وزیراعظم کو اتنی ایف آئی آرز یا تحقیقات کا سامنا نہیں کرنا پڑا جتنا عمرا ن خان کو کرنا پڑا ہے۔پی ٹی آئی کے 25مئی کے احتجاج کے تناظر میں ہی وفاقی حکومت نے عمران خان کے خلاف 15مقدمات درج کر رکھے ہیں۔اگر حکومت او راپوزیشن اپنے رجحا نات میں اعتدال پسندی کامظاہرہ نہیں کرتیں تو معاشی اور دیگر مسائل پر ڈائیلاگ کا کوئی امکان نہیں ہے۔سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ اپنے حواریوں کو مخالف سیاسی رہنمائوں کے بارے میں اشتعا ل انگیز اور ناشائستہ زبان استعمال کرنے سے گریز کی تلقین کریں۔ اگر سیاسی جماعتیں پاکستان کے معاشی مسائل کا واقعی کوئی حل نکالنا چاہتی ہیں تو انہیں اپنی یہ عادت ترک کرنا ہوگی۔
معاشی مسائل کے حوالے سے بین الجماعتی تعاون کے لیے تیسرا ابتدائی اقدام یہ ہے کہ حکومت معیشت سے متعلق حقیقی اعدادوشمار‘ بین الاقوامی قرضوں ‘مالیاتی ذمہ داریوں ‘عالمی اداروں اور غیرممالک خاص طورپر آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضوں کی شرائط سے قوم کو آگاہ رکھے۔ حکومت کو بجلی او رپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اس قدر ہوشربا اضافے کی بھی وضاحت کرنی چاہئے۔ اگر ہم معاشی بحالی کے لیے مختلف سیاسی گروپس سے تعاون کے خواستگار ہیں تو ہمیں ملک کی موجودہ معاشی صورتحال اور مستقبل میں اس کی سمت کے تعین کے بارے میں ایک دیانتدارانہ مؤقف کی ضرورت ہے۔ اگر ملکی معیشت پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کسی بات چیت کا انعقاد مطلوب ہے تو ان تینوں شرائط پر عمل درآمد کی اشد ضرور ت ہے۔فی الحال سیاسی جماعتیں اپنی محاذآرائی کی سیاست ترک کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آتیں۔جب تک پاکستانی سیاست میں کوئی بڑی تبدیلیاں نہیں لائی جاتیں نیزاگر حکومت او ر اپوزیشن اپنی محاذآرائی کی روش ترک نہیں کرتیں تو اس سال کے آخر تک ملکی معیشت میں بہتری آنے کے دور دور تک آثار نظر نہیں آتے۔