اس بات کے ٹھوس اشارے ملے ہیں کہ پاکستا ن اور امریکہ باہمی تعلقات میں پائے جانے والے تعطل کو دور کرکے باہمی مفادات کے لیے متحرک ہونا چاہتے ہیں۔ یہ سگنلز اس وقت ملے جب پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ستمبر کے آخر میں یواین جنرل اسمبلی کے اجلاس کے بعد واشنگٹن ڈی سی کادورہ کیا۔ ان کی امریکی وزیر خارجہ سمیت امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے سینئر حکام سے بات چیت ہوئی۔ گزشتہ ہفتے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور بعض سینئر کمانڈرز کے واشنگٹن ڈی سی کے دورے سے بھی مثبت اورخوش آئند اشاروںکی تصدیق ہوتی ہے اور سکیورٹی سے متعلق امور میں تعاون میں اضافے کا عندیہ ملتا ہے۔امریکی حکومت نے F-16جنگی جہازوں کے لیے 450 ملین ڈالرز مالیت کے سپیئر پارٹس اور دیگر ضروری آلات کی فراہمی کا یقین دلایا ہے۔پاکستان نے امریکہ سے یہ جنگی جہاز1980ء کے عشرے میں خرید ے تھے۔یہ امید بھی کی جارہی ہے کہ امریکہ پاکستان میں سیلاب متاثرین کے لیے ریلیف فنڈز کی فراہمی بھی جاری رکھے گا۔
توقع ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کی بحالی سکوپ کے اعتبار سے محدود نوعیت کی ہوگی اور زیر بحث ایشوز کے تناظر میں بیک وقت مثبت او رمنفی تال میل کی عکاسی ہو گی۔ روایتی لحاظ سے دیکھا جائے تو امریکہ کے مفادات پاکستان کے بجائے پاکستان کے گردو نواح سے وابستہ ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین پرجوش تعلقات کے تین ادوار گزرے ہیںجوکچھ اس طرح سے ہیں:1954-55ئسے 1962ء تک 1980ء سے89 ء تک اور پھر 2001ء سے 2016ء تک۔ اس دوران پاکستان کو امریکہ سے سویلین میدان میں مالیاتی او ر ٹیکنالوجیکل امداد‘سماجی ترقی‘تعلیمی گرانٹس‘ دفاعی اسلحہ او رگرانٹس کے علاوہ ملٹری ٹریننگ کی سہولیات بھی ملتی رہیں۔ تاہم ان ادوار میں باہمی تعلقات میں وقتاًفوقتاًمسائل بھی کھڑے ہوتے رہے۔پرجوش تعلقات کے ان تینوں ادوار میں امریکہ اور پاکستان کے مابین دوطرفہ شکایا ت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ان دوطرفہ تعلقات کو 2011ء کے سال میں سنگین ترین مسائل کا سامناکرناپڑا جن میں سے کچھ بعد والے برسوں میں بھی جاری رہے۔ان تعلقات سے عالمی مفادات کی حامل سپر پاور اور ایک ایسے ترقی پذیر ملک کو درپیش کثیر جہتی مشکلات کی بھی عکاسی ہوتی ہے جس کے مفادات مقامی اور علاقائی نوعیت کے حامل ہیں۔
آج کی عالمی سیاست میں پاکستا ن تین وجوہات کی بنا پر امریکہ کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے:پاکستان کی ایٹمی ہتھیاروںکی صلاحیت‘پاکستان کا تزویراتی محل وقوع اور افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد امریکہ کے علاقائی مفادات۔ پاکستان کے بھی امریکہ میں کثیر جہتی مفادات موجود ہیں جن میں ان عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے مالیاتی سپورٹ شامل ہے جن پر امریکااوردیگر مغربی ممالک کابھاری اثرو رسوخ پایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ دو طرفہ معاشی امداد‘ہائی ٹیکنالوجی کے حامل دفاعی آلات اور ہتھیار‘سویلین ٹیکنالوجیز‘عسکری تربیت کی سہولت‘تجارت بالخصوص ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمد اور پاکستانی اشرافیہ کے امریکہ کے ساتھ جڑے مضبوط روابط شامل ہیں۔بھارت کے ساتھ جاری تنازعات میں پاکستان اکثر امریکہ سے ناکام سفارتی سپورٹ حاصل کرنے کی کوشش بھی کرتا رہتا ہے۔امریکہ اور پاکستان دونوں کو اس انڈر سٹینڈنگ کے ساتھ باقاعدہ روابط برقرار رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے تمام مقاصد کاتسلی بخش حد تک حصول ممکن نہیں۔حکمت عملی یہ ہونی چاہئے کہ دوطرفہ شعبوں میں تعاون کی نشاندہی کر لی جائے مگر اختلافی امور پر رابطے برقرار رکھے جائیں۔امریکہ کی یہ اولین ترجیح ہوگی کہ پاکستان سی پیک منصوبہ ختم کردے یا اسے ڈائون گریڈ کردے کیونکہ یہ کوریڈورچین کو تجارت اور انسانی نقل وحرکت کیلئے متبادل روٹ فراہم کرتا ہے۔ امریکی حکومت نے اس بات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان مغربی چین کو گوادر کے ذریعے سمندر سے لنک کرنے کے منصوبے میں تعاون کر رہا ہے اور چین کی طرف سے پاکستان کو ملنے والے قرضوں کے مضمرات سے بھی خبر دار کیا ہے۔اس کا اصراراس پر ہے کہ چین اس کوریڈور او رصنعتی قرضوں کی آڑ میں پاکستانی معیشت کے گرد شکنجہ کس سکتا ہے۔ پاکستان ان دلائل کو مسترد کرتا ہے۔
چین کے عالمی کردار کو محدود کرنے میں امریکہ کو ایشیا پیسفک ریجن کے بعض ممالک کی سپورٹ بھی حاصل ہے اور وہ اس کی بحیرہ جنوبی چین کے آزادانہ استعمال کی صلاحیت کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔امریکہ نے اس ریجن کی بعض ریاستوں کے ساتھ دو طرفہ انڈر سٹینڈنگ پیدا کررکھی ہے اور اس مقصد کیلئے بھارت‘ جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر کئی اقدامات اور انتظامات کا بندوبست بھی کیا ہے۔امریکہ کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ چین کی تجارت‘ سرمایہ کاری اور افریقہ‘جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں قرضوں کے ذریعے سڑکوں کی تعمیرکے نام پر عالمی اشتراک کی پالیسی کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتا ہے۔ چین کا بیلٹ اینڈروڈ انیشی ایٹو بھی اسی پالیسی کا اہم حصہ ہے۔ امریکہ چین کی اس پالیسی کا توڑ کرنے کیلئے کئی ممالک کے ساتھ مل کر چین مخالف نیٹ ورکنگ پر کام کر رہا ہے۔ امریکی پالیسی کا ایک اور پہلو بھارت کا کردار ہے۔چین کا گھیرائو کرنے میں بھارت اب امریکہ کا اہم اور قابلِ بھروسا اتحادی اورتزویراتی شراکت دار بن چکا ہے۔نیز ان دونوں ممالک کے مابین ایشیا پیسفک ریجن میں سکیورٹی امور‘افغانستان اور اس کے گردو نواح میں کثیر القومی دہشت گردی کے معاملات میں گہرا اتفاق پایاجاتا ہے۔ امریکہ اور بھارت کے دفاعی اور معاشی تعلقات میں گزشتہ دس برسوں کے دوران خاطر خواہ بہتری آئی ہے جس کی وجہ سے تجارت‘امریکی کثیر قومی کارپوریشنز کی طرف سے بھارت میں بھاری سرمایہ کاری اور دونوں ممالک میں انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز کی مد میں دوطرفہ تعاون جاری ہے۔سکیورٹی کے شعبے میں امریکہ کے سرکاری اور نیم سرکاری حلقے بھارت کو ایک مستحکم ملک سمجھتے ہیں جوخطے کی روایتی اور غیر روایتی سکیورٹی میں مددگار ثابت ہوسکتاہے۔امریکہ کے سٹریٹجک تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت کو پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترجیح حاصل ہے۔ امریکہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کودو مختلف پالیسی ٹریکس پر دیکھتا ہے۔ امریکہ سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ پاک بھارت ایشوز پر پاکستان کے موقف کی حمایت کرے گاتاہم وہ چاہتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین جاری کشیدگی نچلے لیول پر رہنی چاہئے۔
اتنے ایشو ز پر اختلاف رائے کی موجودگی میں پاک امریکہ تعلقات کے ضمن میں ایک محدود دسکوپ پایا جاتا ہے۔کسی ایک ایشو پر ان میں اتفاق رائے ہوسکتا ہے تو کسی دوسرے ایشو پر دونوں ممالک کا ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف رائے بھی ہو سکتا ہے۔پاک امریکہ تعلقات کی پیچیدگیوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو دو ایشوز پر اپنی بھرپور توجہ مرکوز کرنا ہوگی:اول یہ کہ جن شعبوں میں امریکہ کے ساتھ پالیسی اشتراک موجود ہے وہاں پاکستان کو تعلقات میں بہتری لانی چاہئے اور جہاں پالیسی میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے وہاں امریکہ کے ساتھ پائیدار بات چیت کاسلسلہ جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ کسی سپر پاور سے دوری اختیارکرنا کبھی پسندیدہ عمل نہیں ہوسکتا۔پاکستان کو اپنی داخلی معیشت اور سیاست میں بہتری لانے پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔معیشت کے داخلی ذرائع کو اس قدر مستحکم کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کو بیرونی ذرائع پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ایک اچھی اور مستحکم معیشت پاکستان کو عالمی سطح پر پرکشش ملک بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔اس کیلئے پاکستان کو داخلی سیاست میں محاذآرائی کو کم کرنا چاہیے نیز جمہوریت اور دستورپسندی کے اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ملک میں سماجی اور سیاسی ہم آہنگی کوفروغ دینا چاہیے۔