دنیابھر میں سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین کی اکثریت جمہوریت اور لبرل دستوری اقدار کا احترام کرتی ہے۔پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے تمام ممالک منصفانہ اور آزادانہ الیکشن‘لبرل دستوری اقدا ر اورقانون کی حکمرانی کے علاوہ سماجی او رمعاشی انصاف کے ذریعے ایک جمہوری سیاسی نظام قائم کرنے کے خواہاں ہیں‘تاہم زیادہ تر ممالک بوجوہ جمہوریت کے معیار پر پورا اترنے سے قاصر ہیں۔روایتی جمہوریت کو دو طرح سے پرکھا جاتا ہے‘ اول یہ کہ ہم آئینی شقوں خاص طورپر بنیادی انسانی حقوق‘انتخابی عمل‘ عدلیہ کی آزادی اور حکمرانوں کے احتسا ب سے متعلق شقوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہم یہ جاننے کے لیے قانون اور عدالتی نظام کا جائزہ بھی لیتے ہیں کہ کیا قانونی اور آئینی نظام کے ان پہلوئوں میں جمہوریت کے نظریاتی معیار کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے یا نہیں۔دوم یہ کہ ہم اس تھیوری اور پریکٹس کے درمیان تفاوت سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے جمہوری نظام کی حقیقی کارکردگی پر بھی فوکس کرتے ہیں۔جن ممالک میں آئین جمہوریت کی تائید کرتا ہے وہاں جمہوریت کی کوالٹی کا جائزہ لیے کے لیے کئی بنیادی سوالات اٹھائے جاتے ہیں‘ مثلاًکیا وہاں کے الیکشن آزادانہ اور مسابقت پر مبنی ہوتے ہیں؟آبادی کے درماندہ طبقات کے لیے قانون کی حکمرانی کہاں تک دستیاب ہے اور وہاں بسنے والے انسانوں کے حقوق دیگر شہریوں‘ منظم گروہوں اور ریاست کی دستبرد سے کہاں تک محفوظ ہیں؟ وہاں کی عدالتیں کس حد تک آزاد ہیں اور لوگوں کو انصاف کی فراہمی اور ان کے انسانی اور سیاسی حقوق کے تحفظ کے ضمن میں ان کا ٹریک ریکا رڈ کیسا ہے ؟ حکومتی سطح پر کتنی کرپشن پائی جاتی ہے اور جماعتی سطح پر ریاستی وسائل کا استعمال کس حد تک کیا جاتا ہے؟نیز حکمران اشرافیہ کے لیے احتساب کا نظام کس قدر مؤثر ہے؟
آج کل ہم جمہوریت کی کارکردگی جانچنے کے لیے ایک اور کسوٹی بھی استعمال کرتے ہیں اور وہ ہے کسی جمہوری حکومت کی طرف سے عوام کی فلاح و بہبود کے میدان میں بنیادی خدمات کی فراہمی کی کارکردگی کا جائزہ لینا یعنی یہ دیکھنا کہ کسی جمہوری حکومت نے عوام کے معیار ِزندگی کو بہتر بنانے کے لیے کچھ کیا ہے؟ تاکہ زندگی میں ترقی کے لیے عام شہریوں کو مساوی مواقع فراہم ہو سکیں۔کسی بھی جمہوری حکومت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرے گی‘ جن میں معیاری تعلیم‘ ہیلتھ کیئر کا عمدہ نظام‘ملازمت کے مواقع یا بیروزگاری میں مالی سپورٹ‘شہری سہولتیں اور اچھی صحت کا مناسب ماحول شامل ہیں۔ اس کے پس پردہ محرک یہی ہوتا ہے کہ عوام کی منتخب کردہ حکومت عوام کی ترجیحی بنیادوں پر خدمت کرے۔ کوئی بھی جمہوری حکومت الیکشن میں فتح یاب ہو کر اسی وقت اپنا انتخابی جواز حاصل کرسکتی ہے جب وہ اچھی گورننس‘ سماجی اور سیاسی انصاف کی فراہمی کے فروغ اور انسانی فلاح و بہبود اورسلامتی کو یقینی بناسکے۔جمہوریت کی کوالٹی جانچنے کا معیار بہت سخت ہے۔سکینڈے نیویا‘ شمالی امریکا اور یورپ کی جمہوریتوں میں زیادہ تر یہ شرائط پوری کی جاتی ہیں۔کوئی بھی یہ توقع نہیں کرتا کہ ایک جمہوری حکومت مجموعی طور پر کارکردگی کے معیار پر پورااترسکتی ہے‘ مگرہم حکومت کی طرف سے فلاح وبہبود کی سہولتوں کی فراہمی کے حجم کا جائزہ لیتے ہیں نیز یہ کہ حکومت اپنے عوام کے معیارِ زندگی میں بہتری لانے کے لیے کیسے کام کررہی ہے۔جوں جوں آبادی میں اضافہ ہوتا ہے او رمعیشت اپنے مختلف مراحل سے گزرتی رہتی ہے تو یہ حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن جا تا ہے کہ وہ انسانی ترقی اور فلاح و بہبود کی سرگرمیوں میںبہتری لائے‘تاہم جمہوریت اس وقت تک ایک قابلِ عمل سیاسی نظام نہیں بن سکتی جب تک عوامی فلاح وبہبود کو فروغ نہیںدیتی اور قانون کی حکمرانی کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی انصاف کی فراہمی کے ذریعے عوام کی خدمت کو یقینی نہیںبناتی۔
جب ہم ان شرائط کااطلاق پاکستان پر کرتے ہیں تو ہمیں جمہوریت کی کوالٹی بہت ناقص نظر آتی ہے اور جمہوریت کی تھیوری اور پریکٹس میں ایک بڑا خلا نظر آتاہے۔پاکستان کا آئین جمہوریت کے تمام تقاضے پورے کرتا ہے اور ہمارے ہاں جمہوریت کا ایک قانونی اور ادارہ جاتی انفراسٹرکچر بھی موجود ہے‘تحریرو تقریر کی آزادی بھی موجود ہے؛ تاہم مختلف جمہوری ادوار میں اس کے حجم میں تبدیلی آتی رہی ہے۔سیاست کے حقائق کے بجائے جمہوریت کے رسمی یا رسوماتی رنگ زیادہ مستحکم نظر آتے ہیں۔جمہوریت ایک طرزِحیات‘انسانی مزاج اور ایک ذہنی رجحا ن کا نام ہے۔جمہوریت ایک کلچر ہے جسے جمہوری کلچر کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی تاریخ پرنظر ڈالیں توغیر جمہوری رویے کی عکاسی ہوتی ہے۔ پارٹی لیڈر سیاسی جماعتوں کو اپنی ذاتی یا خاندانی جاگیر کے طور پر چلاتے ہیں۔پارٹی کے اندر شاید ہی کبھی کسی ایشو پر کھلی بحث ہوتی ہو۔پارٹی اجلاس نہ صرف لیڈرز کی مدح سرائی بلکہ خوشامد کی آخری حدوں کو چھورہے ہوتے ہیں۔ جمہوری کلچر تو برداشت‘ مشاورت اور متنازع امور پرمکالمے کا متقاضی ہوتا ہے۔جمہوری سیاست میں اختلافی مطالبات کا حل ہمیشہ رواداری‘ باہمی گنجائش اور مکالمے کے ذریعے تلاش کیا جاتا ہے‘ جو فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔ جب تک سیاسی اور سماجی رہنما ایک دوسرے کے لیے سیاسی برداشت اور باہمی احترام کا مظاہرہ نہیں کرتے‘ جمہوریت مشکلات کا شکار رہے گی۔ حکومت اور اپوزیشن متنازع ایشوز پر کبھی بات چیت کے دروازے بند نہیں کرتے۔اگر سیاسی رہنما بھی کسی مسئلے کو محدودجماعتی مفادات سے اوپر اٹھ کر نہیں دیکھ سکتے اور ان کے لیے ذاتی اور جماعتی مفادات کسی بھی دوسری شے پر مقدم ٹھہرتے ہیں تو جمہوریت کا انجام دلدل کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔
پاکستان میں جمہوریت اس لیے بھی کڑی آزمائش سے دوچار ہے کیونکہ سیاسی رہنما ایک دوسرے کے خلاف اخلاق باختہ زبان استعمال کرتے ہیں۔ان کا سیاسی بیانیہ ناشائستہ اورپارلیمانی اخلاقیات کے منافی ہوتا ہے۔ تقسیم اور محاذآرائی کے ایسے ماحول میں سیاسی رہنما کبھی ریاست یا سماج کی بہتری کے کسی معاملے پر متفق اورمتحد نہیں ہوسکتے۔وہ ہر وقت ایک دوسرے کے خلاف کسی سیاسی جنگ میں مصروف رہتے ہیں۔حکومتی رہنما ہمیشہ ریاستی مشینری اور قانون کی مدد سے اپنے سیاسی حریفوں کو میدان سیاست سے آئوٹ کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔حقیقی جمہوریت میں کبھی اپنے سیاسی حریف کو میدانِ سیاست سے آئوٹ کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔احتساب کا عمل تو پاکستان میں ایک مذاق بن کررہ گیا ہے۔اینٹی کرپشن یا احتساب عدالتیں موجودہ حکمرانوں کے خلاف کرپشن یا منی لانڈرنگ کے مقدمات ختم کر رہی ہیں یاانہیں واپس بھجوا ر ہی ہیں۔موجودہ اپوزیشن رہنمائوں خصوصاًعمران خان کے خلاف نئے مقدمات درج کرائے جا رہے ہیں۔بعض حکومتی اداروں کے توسیع پسندانہ کردار کی وجہ سے بھی جمہوری سیاست کو سنگین نقصان پہنچ رہا ہے۔عام آدمی کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا معیار گھٹیا اورناقص ہے۔موجودہ اور سابق حکومتوں نے ملکی وسائل کا عشر عشیر بھی انسانی فلاح اور سماجی ترقی پر خرچ نہیں کیا۔تعلیم اور صحت عامہ کو پاکستان میں ہمیشہ نظرانداز کیا گیا ہے۔ اس وقت بھی متحارب سیاسی رہنما ہرجائز یا ناجائز طریقے سے اقتدار کے حصول کی جنگ لڑرہے ہیں جس میں دانشمندی اور جمہوری اقدار کا فقدان نظر آتا ہے۔اس کے نتیجے میں سیاسی اداروں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور پارلیمنٹ کے کردار پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔پاکستان میں موجودہ سیاسی چلن جاری رہتا ہے تو جمہوریت کا مستقبل مخدوش نظر آتا ہے۔ سیاسی رہنمائو ں کے غیرجمہوری رویوں اور ریاستی اداروں کے توسیع پسندانہ کردار کی موجودگی میں پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔