جنوبی ایشیا دنیا کی کل آبادی کے تقریباً 22 فیصد پر مشتمل ہے اور اس میں بھارت‘ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ مالدیپ‘ نیپال اور بھوٹان یعنی سات ریاستیں شامل ہیں۔ اپریل 2007 ء میں جنوبی ایشیا کی علاقائی تعاون تنظیم (سارک) کی 14ویں سربراہی کانفرنس میں جب افغانستان کو ایسوسی ایشن میں شامل کیا گیا تو اسے جنوبی ایشیا کے آٹھویں ملک کے طور پر شمار کیا جانے لگا۔ جنوبی ایشیا علاقائی سطح پر اور جنوبی ایشیا کا ہر ملک انفرادی طور پر بھی نسلی‘ لسانی اور مذہبی تنوع کے لیے جانا جاتا ہے۔جنوبی ایشیا میں افغانستان‘ پاکستان‘ بنگلہ دیش اور مالدیپ مسلم اکثریتی ممالک ہیں لیکن صرف افغانستان اور پاکستان اسلامی جمہوریہ کا ٹائٹل استعمال کرتے ہیں۔ نیپال سرکاری طور پر ہندو مذہب کے ساتھ اپنی شناخت رکھتا تھا‘ تاہم مئی 2008ء میں‘ جب اس نے بادشاہی نظام کو ختم کیا تو خود کو وفاقی جمہوریہ کے طور پر نامزد کیا۔ اس نے سرکاری سطح پر ہندو مذہب کے ساتھ اپنی ختم کر دی تھی۔ جنوبی ایشیا میں واحد بادشاہت بھوٹان کی ہے۔ سری لنکا اور بھوٹان بدھ اکثریتی ممالک ہیں۔بھارت ایک ہندو اکثریتی ملک ہے لیکن سرکاری سطح پر خود کو سیکولر ملک کے طور پر پیش کرتا ہے۔
یہ خطہ قدیم تہذیبوں اور ثقافت کا منبع ہے۔ سندھ اور پنجاب میں وادیٔ سندھ کی تہذیب اور بلوچستان میں مہر گڑھ آثارِ قدیمہ‘ دنیا کی دو قدیم ترین انسانی برادریوں میں سے ہیں۔ پاکستانیوں اور غیر ملکی ریسرچرز کی جانب سے وادیٔ سندھ کی تہذیب کے آثارِ قدیمہ کے مقامات پر کافی کام کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ ٹیکسلا اور پاکستان کے شمالی حصوں میں بدھ مت ورثے کے حامل مقامات موجود ہیں جن کا بدھ مذہب کے پیروکار احترام کرتے ہیں۔ گندھارا تہذیب شمالی پاکستان اور افغانستان میں موجود تھی‘ جو مغل فنِ تعمیر اور دوسرے فنون کے علاوہ ہے۔ سکھ مذہب کے بڑے مذہبی مقامات پاکستان میں واقع ہیں۔ کچھ تاریخی ہندو مندر پنجاب اور سندھ میں واقع ہیں۔ اسی طرح جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک‘ خاص طور پر نیپال اور بھارت میں اہم ثقافتی ورثے کے حامل مقامات ہیں‘ جو ریکارڈ شدہ تاریخ کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ ممالک عالمی سطح پر اپنے لئے ایک سافٹ امیج بنانے کیلئے ان تاریخی مقامات کو اجاگر نہیں کر سکے۔
جنوبی ایشیا دنیا کا سب سے کم مربوط خطہ ہے۔ اگرچہ ان ممالک نے دسمبر 1985ء میں جنوبی ایشیا کی علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک) بنائی اور اس تنظیم نے اقتصادی و سماجی تعاون‘ دہشت گردی پر قابو پانے اور غذائی تحفظ کیلئے بہت سے اہم چارٹرز کی منظوری دی لیکن ان چارٹرز پر پوری طرح عمل نہیں ہو سکا۔ علاقائی تعاون کی دیگر تنظیموں کے مقابلے میں سارک ایک مؤثر اور بامعنی علاقائی تعاون کی تنظیم کے طور پر کام کرنے کے قابل نہیں ہو سکی ہے۔ اس کی سربراہی کانفرنسیں باقاعدگی سے منعقد نہیں ہوئیں۔ وزرائے خارجہ کی کانفرنسوں اور دیگر اجلاسوں کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے‘ حالانکہ اس کا ہیڈ کوارٹر نیپال کے شہر کھٹمنڈو میں کام کر رہا ہے۔ جنوبی ایشیا کے آٹھ ممالک کے دارالحکومتوں کے درمیان براہ راست ہوائی سفر کے انتظامات اکثر دستیاب نہیں ہوتے ہیں۔ ویزا کا مسئلہ خطے میں سفر کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ بھوٹان اور نیپال سے ہندوستان کے سفر کو چھوڑ کر‘ دوسرے ممالک کے شہری آسانی سے سیاحتی ویزا حاصل نہیں کر سکتے۔ اگر کسی خطے کے مختلف ممالک کے شہری اس خطے میں سفر نہیں کر سکتے اور آزادانہ طور پر ایک دوسرے سے مل نہیں سکتے تو ایک خطہ ہونے کا احساس پیدا نہیں ہو سکتا۔ اسی لئے جنوبی ایشیا میں ہم خطے کی بجائے مشترکہ سٹرٹیجک نقطہ نظر کے حامل ممالک کی بات کرتے ہیں۔
جنوبی ایشیا کے ممالک کے تعلقات اکثر جیوسٹرٹیجک دشمنی‘ تنازعات اور سرحدی مسائل کی وجہ سے خراب رہتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کی چھوٹی ریاستوں کے ساتھ بھارت کے تعلقات کبھی کشیدگی اور تنازعات والے ہوتے ہیں اور کبھی معمول کی بات چیت کی طرف آ جاتے ہیں۔ اگرچہ بنگلہ دیش‘ نیپال‘ سری لنکا اور مالدیپ کے بھارت کے ساتھ معمول کے تعلقات ہیں لیکن باہمی عدم اعتماد وقتاً فوقتاً ان کے تعلقات میں تناؤ کا باعث بنتا رہتا ہے۔سب سے زیادہ مسائل پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں ہیں۔ ان پریشان کن تعلقات کی جڑیں آزادی کے ابتدائی سالوں تک جاتی ہیں۔ ان کے تعلقات منفی تاریخی معاملات‘ باہمی عدم اعتماد‘ خارجہ پالیسی کے متضاد اہداف‘ منفی پروپیگنڈے‘ مختلف نوعیت کے تنازعات‘ جنگوں اور مسلح تنازعات سے تشکیل پائے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکراتی عمل اگست 2014ء میں بھارت کی مودی حکومت نے معطل کر دیا تھا۔ پاکستان نے اگست 2019ء میں بھارت کے ساتھ اس وقت ہر قسم کی تجارت اور سفری تعامل معطل کر دیا تھا جب بھارت نے یکطرفہ طور پر مقبوضہ کشمیر کی آئینی اور سیاسی حیثیت کو تبدیل کر دیا تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کی موجودہ حکومت سخت گیر ہندو قوم پرست گروہوں کی سرپرستی کر رہی ہے جس کی وجہ سے بھارتی حکومت کے لیے دو طرفہ تعلقات میں تعطل کو کم کرنامشکل ہو جاتا ہے۔پاکستان اور بھارت کے کشیدہ تعلقات جنوبی ایشیا میں علاقائی تعاون کے فروغ کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اگر یہ معمول کی بات چیت کو آگے نہیں بڑھا سکتے تو علاقائی تعاون پروان نہیں چڑھ سکتا۔ سارک تنظیم بھارت پاکستان مخاصمت کی یرغمال بن چکی ہے۔ 19ویں سارک سربراہی کانفرنس نومبر 2016 ء میں اسلام آباد میں ہونی تھی‘ اس کا انعقاد نہ ہو سکا کیونکہ نریندر مودی نے بھارت میں دہشت گردی کے واقعے کا بہانہ بنا کر اسلام آباد آنے سے انکار کر دیا تھا۔ نومبر 2014ء میں نیپال میں منعقد ہونے والی 18ویں سارک سربراہی کانفرنس کے بعد سے بھارت کے اسلام آباد میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے اصرار کی وجہ سے کوئی سارک سربراہی کانفرنس منعقد نہیں ہو سکی۔
جنوبی ایشیا میں غربت‘ پسماندگی اور معاشی تفاوت بڑے پیمانے پر موجود ہیں۔ جنوبی ایشیا کے تمام ممالک اس کمی کا شکار ہیں۔ اس خطے کی ایک بڑی آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے اور جنوبی ایشیا کی ریاستیں انسانی بہبود اور سماجی تحفظ پر محدود فنڈز خرچ کرتی ہیں۔ جنوبی ایشیا کے تین بڑے ممالک یعنی بھارت‘ پاکستان اور بنگلہ دیش میں دیگر پانچ ممالک کے مقابلے میں غربت کا شکار افراد زیادہ ہیں۔ پاکستان اور بھارت اپنے ریاستی وسائل کا ایک اچھا خاصا حصہ علاقائی اور فوجی تحفظ پر خرچ کرتے ہیں۔ ان کی سکیورٹی ایک دوسرے کے خلاف ہے جس کی وجہ سے پورے خطے کیلئے مشترکہ سکیورٹی بیانیہ تیار کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازع کی بنیادی وجہ علاقائی امن اور سلامتی کے بارے میں ان کے مختلف نقطہ نظر ہیں۔بھارت کا استدلال ہے کہ اس کی فوجی برتری اور سفارتی اولیت امن اور استحکام کی ضامن ہیں اور یہ کہ خطے کی ریاستوں کو اپنی سلامتی اور بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات پر بھارت کو مرکزی بنانے والے نظام کے اندر رہ کر کام کرنا چاہیے۔ پاکستان اسے بھارت کے تسلط پسندانہ فریم ورک کے طور پر بیان کرتا ہے۔ پاکستان جنوبی ایشیا کیلئے ایک کثیر سکیورٹی ماڈل کی بات کرتا ہے جس کی بنیاد بات چیت کے ذریعے تیار کئے گئے مشترکہ نقطہ نظر پر ہو‘ جو تمام ریاستوں کی خود مختار مساوات کا احترام کرتا ہو۔ امن و استحکام اور علاقائی تعاون کیلئے بہترین آپشن جنوبی ایشیا کی ریاستوں کے درمیان تمام دو طرفہ اور علاقائی مسائل پر ڈائیلاگ ہے تاکہ ایشوز اور مسائل کے بارے میں مشترکہ نقطہ نظر کو استوار کیا جا سکے‘ بجائے اس کے کہ بھارت اکیلا علاقائی ایجنڈا طے کرے۔