آئی ایم ایف کی قسط کے اجراسے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا مالیاتی اعتبار مستحکم ہوا ہے۔ کئی یورپی ممالک پاکستان کے ساتھ فعال اقتصادی تعاون پر آمادہ ہوں گے اور انسانی ترقی کے پروگراموں کے لیے پاکستان کو قرض اور مالی امداد فراہم کرنے کے لیے تیار ہوں گے ۔تاہم یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ آئی ایم ایف کا انتظام ایک عارضی ریلیف ہے تاکہ پاکستان اپنی معیشت کی بحالی کے لیے اقدامات کر سکے۔ غیر ملکی قرضوں کو معیشت چلانے کا باعزت طریقہ نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ غیر ملکی قرضے بیرونی ذرائع پر انحصار پیدا کرتے ہیں جو ملکی معاملات اور خارجہ تعلقات میں پالیسی سازی کے اختیارات کو محدود کر دیتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی معیشت غیر ملکی ذرائع پر زیادہ انحصار کرتی ہے‘ جسے بدل کر ملکی ذرائع پر زیادہ انحصار کرنے کی ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان کو زراعت اور صنعتوں کی جدت پر کام کرنے‘ خاص طور پر زراعت پر مبنی صنعت اور کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کے مواقع بڑھا کر مقامی وسائل کو متحرک کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو معیشت میکرو اور مائیکرو دونوں سطحوں پر بہتر نتائج دکھائے گی۔ اس کے بعد نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے کافی وسائل پیدا ہوں گے۔ اس سے انسانی ترقی پر زیادہ توجہ دینے کے لیے وسائل بھی دستیاب ہوں گے ‘جس میں تعلیم‘ صحت کی دیکھ بھال اور ماحولیاتی تحفظ شامل ہے۔
مشرقی ایشیائی ممالک جنہوں نے پچھلی چار دہائیوں کے دوران متاثر کن معاشی ترقی کی ہے‘ نے انسانی ترقی اور انسانی بہبود پر وسائل صرف کیے ہیں۔ اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ انہوں نے تعلیم‘ صحت کی دیکھ بھال‘ شہری سہولیات اور ماحولیات کی بہتری پر کتنا خرچ کیا۔ پاکستان نے ماضی میں ان شعبوں کو نظرانداز کیا ہے۔ کوئی بھی شخص گزشتہ دس سال کے دوران پاکستان کے وفاقی اور صوبائی بجٹ اُٹھا کر یہ جانچ سکتا ہے کہ مختلف حکومتوں نے مذکورہ سماجی شعبوں پر کیا وسائل خرچ کیے ہیں۔ اس لیے یہ حیران کن نہیں ہے کہ پاکستان میں غربت اور پسماندگی میں اضافہ ہو رہا ہے اور نوجوانوں کی بے روزگاری اس قدر غیر معمولی ہے کہ زیادہ تر نوجوان قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے ملازمتوں کے لیے ملک چھوڑ کر بیرون ملک جانا چاہتے ہیں۔
اگر پاکستان معاشی اور سماجی شعبوں میں مثبت پیش رفت کرتا ہے تو عالمی سطح پر اس کا سفارتی وزن بھی بڑھے گا۔ موجودہ دور کے بین الاقوامی نظام میں کسی ملک کے کردار کا تعین بنیادی طور پر اس کی داخلی سیاسی اور اقتصادی صورتحال سے ہوتا ہے۔ اس کی معیشت کا کیا حال ہے؟ ایک ملک دوسرے ممالک کے ساتھ کس حد تک مثبت اقتصادی تعلقات استوار کرتا ہے؟ کیا یہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرتا ہے اور اس کی منڈیاں دوسرے ممالک کی منڈیوں سے کس حد تک جڑی ہوئی ہیں؟ عالمی اقتصادی رابطہ عالمی سفارت کاری میں طاقت کا ذریعہ ہے۔ تاہم عالمی اقتصادی رابطہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کسی ملک کی معیشت خود کفیل نہ ہو اور اس کی مصنوعات بین الاقوامی منڈیوں کے لیے موزوں نہ ہوں۔ کیا غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کے لیے اس ملک پر اعتماد ہے؟ یہ ایک دو طرفہ اقتصادی تعامل ہے جس میں دوسرے ممالک کی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے کسی ملک کی برآمدی صلاحیت اور اس ملک کی منڈیوں تک پہنچنے کے لیے دوسرے ممالک تک اسی طرح کی رسائی شامل ہے۔
اگر پاکستان بیرونی اقتصادی امداد پر انحصار کم کرنا اور عالمی سطح پر اپنی عزت بڑھانا چاہتا ہے تو اسے تین پالیسی شعبوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے:
پہلی بات‘ پاکستان میں موجودہ دور کی محاذ آرائی کی سیاست معاشی ترقی کے خلاف ہے۔ سیاسی رہنما ایک دوسرے کو کمزور کرنے میں زیادہ توانائی صرف کرتے ہیں اور الزامات اور جوابی الزامات کے تبادلے میں مصروف رہتے ہیں۔ سیاسی لیڈروں کی جانب سے سیاست کی جو زبان استعمال کی جاتی ہے وہ جارحانہ‘ غیر اخلاقی اور غیر پارلیمانی ہے۔ سیاسی قائدین کو اس طرز کی سیاست ترک کر کے مہذب گفتگو کو اپنانا ہو گا اور باہمی احترام کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ اگر سیاست میں تصادم کم ہو جائے تو سیاسی رہنما اہم معاشی اور سیاسی معاملات پر متفق ہونا آسان پائیں گے۔ سیاسی ہم آہنگی اور آئین پسندی کے نفاذ اور قانون کی حکمرانی کے بغیر معاشی بحالی کا امکان کم ہی رہے گا۔
دوسرا‘ سیاسی رہنماؤں کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون حکومت کے لیے اہم اقتصادی معاملات پر سخت فیصلے لینے کو ممکن بنا سکتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو سخت چیلنجز کا سامنا ہے جس کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے‘ تاہم منقسم سیاسی ماحول میں ایک کمزور حکومت بجٹ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے‘ غیر ملکی تجارت میں عدم توازن‘ کم صنعتی پیداوار‘ زراعت کا زوال اور گندم‘ چینی اور کپاس کی قلت کے مسائل سے نمٹنے کے لیے پالیسیاں نہیں بنا سکتی۔ پاکستان میں سبزیوں اور خوراک کی پیداوار میں بھی کمی آئی ہے۔ یہ ایسے چیلنجز ہیں جن پر قابو پایا جاسکتا ہے‘ بشرطیکہ حکومت معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پیشہ ورانہ انداز اپنائے۔ اگر زراعت میں بہتری آئے گی تو اس سے صنعت کو فروغ ملے گا‘ روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور بیرون ملک سے کھانے پینے کی اشیاکی برآمدات میں کمی آئے گی۔ ایک اور معاشی مسئلہ کھانے پینے کی اشیااور روزمرہ استعمال کی دیگر مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق ہے۔ اگر انتظامیہ مارکیٹ فورسز کو کنٹرول کرتے ہوئے قیمتوں کو کنٹرول کرتی ہے تو یہ عام لوگوں کے لیے بڑا ریلیف ہوگا۔
تیسرا‘ توجہ کا ایک شعبہ سفارت کاری بھی ہے‘ جس کا مقصد دوسری ریاستوں کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنا اور عالمی سطح پر ملک کے لیے خیر سگالی کو فروغ دینا ہے۔ یہ دفتر خارجہ کے کردار‘ بیرون ملک پاکستانی سفارتی مشنز اور خارجہ پالیسی کے اہم عہدیداروں کے کام کو واضح کرتا ہے۔ ہوشیار سفارت کاری ملک کے خلاف منفی پروپیگنڈے کو بے اثر کرنے میں مدد کرتی ہے اور باقی دنیا کے ساتھ اقتصادی تعامل کو فروغ دیتی ہے۔ سفارتی امور کی خرابی سے ملک کی ساکھ بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ رواںماہ کے شروع میں پاکستان نے سفارت کاری کی ایک ناقص مثال قائم کی۔ سوئٹزرلینڈ کے وزیر خارجہ نے اسلام آباد کاتین روزہ دورہ کیا جبکہ اس دوران پاکستان کے وزیر خارجہ امریکا کے نجی دورے پر تھے اور وزیر مملکت برائے خارجہ امور اسلام آباد میں دستیاب نہیں تھیں۔ سوئٹزرلینڈ کے وزیر خارجہ کی خوش قسمتی سے پاکستان کے وزیراعظم اسلام آباد میں موجود تھے جن سے ان کی ملاقات ہو گئی۔ یہ ایک اہم غیر ملکی دورے کا ناقص انتظام تھا۔تاہم پاکستان اب سافٹ ڈپلومیسی اور سافٹ امیج بلڈنگ پر توجہ دے رہا ہے۔ کرتارپور کوریڈور‘ نومبر 2019ء میں کھلا‘ پوری دنیا کے سکھوں میں پاکستان کے لیے خیر سگالی پیدا کرنے کے لیے یہ ایک مثبت قدم ہے۔ ایک اور مثبت قدم اسلام آباد میں 11تا13 جولائی‘ گندھارا سمپوزیم کا انعقاد تھا ‘ جس نے پاکستان میں بدھ مت کے ورثے کو اجاگر کیا۔ پاکستان میں پشاور‘ ٹیکسلا اور لاہور کے عجائب گھروں میں بدھ مت کے ورثے کے بہت سے نادر نمونے موجود ہیں جو بدھ مت کے پیروکاروں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ پاکستان کو مختلف مذاہب اور ثقافتی نمونوں کے سرچشمہ کے طور پر اپنا امیج بنانے کے لیے مذہبی سیاحت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
موجودہ آئی ایم ایف معاہدے کے پس منظر میں اگر پاکستان کے رہنما سیاست‘ معیشت اور ثقافتی اور ریگولر سفارت کاری کے میدان میں درست اوردانشمندانہ فیصلے کریں تو پاکستان اپنے معاشی اور سفارتی مسائل پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائے گا۔