پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان موجودہ قرض اور معاشی تنظیمِ نو کا پروگرام 30اپریل 2024ء کو ختم ہو جائے گا؛ تاہم حکومتِ پاکستان آئی ایم ایف کو ''الوداع‘‘ نہیں کہنا چاہتی اور اگلے دو سے تین سالوں کیلئے آئی ایم ایف کے ساتھ نئے انتظامات کرنا چاہتی ہے۔ یہ بات 14تا 19مارچ کو آئی ایم ایف کے وفد کے دورۂ اسلام آباد کے دوران پاکستانی وفد کے مزاج سے واضح ہو گئی۔ آئی ایم ایف کے وفد کا دورہ موجودہ قرض پروگرام کی 1.1بلین ڈالر کی آخری قسط کیلئے پاکستان کی معیشت کا جائزہ لینے کے لیے تھا۔ مذاکرات کا اختتام مثبت نوٹ کے ساتھ ہوا اور توقع ہے کہ پاکستان کو اپریل میں آئی ایم ایف سے آخری قسط مل جائے گی جو موجودہ حکومت کیلئے ایک بڑا معاشی ریلیف ہو گا۔
عبوری قرض پیکیج کی آخری قسط کے حصول کے دوران پاکستان نے آئی ایم ایف کے وفد کے مشورے کے مطابق معیشت میں اصلاحات اور تبدیلیاں کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ آئی ایم ایف کا اہم مشورہ یہ ہے کہ پاکستان کے دستیاب معاشی وسائل اور ریاست کے اخراجات کے درمیان فرق کو پورا کرنے کیلئے آمدنی میں اضافہ اور اخراجات کو کم کیا جائے تاکہ مالی ضیاع سے بچا جا سکے‘ معاشی واجبات کو کم کیا جا سکے اور انکم میں اضافہ کیا جا سکے۔ انہوں نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا جائے‘ محصولات کی وصولی کو بہتر بنایا جائے اور ان معاشی شعبوں پر ٹیکس عائد کیا جائے جن پر فی الحال صفر یا برائے نام انکم ٹیکس عائد ہے۔
آئی ایم ایف ایڈوائزری کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے عوام بجلی‘ گیس‘ پٹرولیم اور ریاست کی فراہم کردہ خدمات کیلئے بڑھتے ہوئے ٹیرف کے مطابق ادائیگی کریں گے۔ اس سے خورونوش اور دیگر ضروری اشیا کی قیمتوں میں نیا اضافہ ہوگا۔ ماہِ رمضان کی وجہ سے ان اشیا کی بڑھتی ہوئی طلب کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں پہلے ہی خاصا اضافہ ہو چکا ہے۔ رمضان کے بعد قیمتوں میں اضافے کے یہ رجحانات جاری رہنے کا خدشہ ہے کیونکہ حکومتِ پاکستان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرے گی۔ حکومتِ پاکستان سے یہ بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ یکم جولائی سے شروع ہونے والے اگلے مالی سال میں پی آئی اے‘ سٹیل مل اور ریلوے جیسے کچھ ریاستی اداروں پر ''سرمایہ کاری‘‘ ختم کر دے گی۔ نجکاری کی پالیسی ان کاروباری اداروں کے ملازمین اور کچھ سیاسی جماعتوں جیسے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی طرف سے کچھ مزاحمت کے ساتھ سامنے آنے کی توقع ہے۔ حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بجلی‘ گیس اور پٹرولیم کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرے گی۔ اس سے کچھ ریاستی کاروباری اداروں کی نجکاری کے ساتھ ساتھ انکم ٹیکس نیٹ میں بھی اضافہ ہو گا کیونکہ حکومت اگلے دو تین سالوں کیلئے آئی ایم ایف سے ایک نیا اور وسیع بیل آؤٹ قرض پیکیج حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ نیا آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج صرف اس صورت میں ممکن ہوگا جب وفاقی حکومت یہ ظاہر کرے کہ وہ آئی ایم ایف کی سفارشات پر عمل درآمد کیلئے مؤثر اقدامات اور اپنی معیشت کو بہتری کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔
ایسے لگتا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ ایک اور قرض پروگرام میں داخل ہونے کیلئے پوری طرح پُرعزم ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے 21مارچ کو کہا تھا کہ ہم آئی ایم ایف کے نئے معاہدے‘ جو دو سے تین سال پر محیط ہوگا‘ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ حکومت کی اس طرح کی مایوسی کو دیکھتے ہوئے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ عام لوگ اشیائے خور و نوش‘ دیگر ضروری اشیا اور ریاست کے زیرِ کنٹرول سہولتوں کی قیمتوں میں کوئی بامعنی ریلیف حاصل کر سکیں گے۔ درحقیقت‘ زیادہ تر اشیا اور خدمات کی قیمتوں میں اضافے ہی کی توقع ہے۔ اگر پاکستان معیشت میں اصلاحات کیلئے متفقہ اقدامات پر عمل درآمد شروع نہیں کرتا تو آئی ایم ایف نئے قرض پیکیج‘ جس کے جاری آئی ایم ایف پیکیج کی تکمیل کے بعد مذاکرات شروع ہونے کی توقع ہے‘ میں تاخیر کر سکتا ہے۔
پاکستان پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے نئے قرضوں کو محفوظ بنانے کے نحس چکر میں پھنس چکا ہے۔ مزید برآں معیشت کو کچھ ساختی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ایک اور معاشی چیلنج یہ ہے کہ عام لوگوں پر نئے معاشی اقدامات کے اثرات سے کیسے نمٹا جائے؟ عام لوگ پہلے ہی مہنگائی اور قیمتوں میں اضافے سے سخت متاثر ہیں۔ شہریوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ خاندان کے لیے مطلوبہ مقدار میں کھانے کی اشیا خریدنے کی ان کی گرتی ہوئی مالی سکت ہے۔ بہت سے خاندانوں نے مالی مشکلات کی وجہ سے اشیائے خور و نوش کی خریداری کو کم کر دیا ہے‘ جس سے بچوں اور بوڑھے لوگوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اسی طرح ادویات خریدنا بھی خاندانی آمدنی پر بھاری بوجھ بن گیا ہے۔
خیراتی‘ عوامی اور سرکاری پروگرام معاشرے کے غریب طبقات کو محدود امداد فراہم کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اور خاندان بھی ہیں جو غریب کے زمرے میں نہیں آتے لیکن مہنگائی اور قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے انہیں سنگین مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان بطورِ خاص سیاسی نظام سے ناراض اور الگ تھلگ ہیں کیونکہ ان کے پاس آگے بڑھنے کے لیے کوئی پُر امید مستقبل نہیں۔ بیروزگاری یا کم بیروزگاری ان کیلئے بڑے مسائل ہیں۔
دوست ممالک یا بین الاقوامی مالیاتی اداروں یا بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر پر انحصار کرکے پاکستان کی معیشت کو نہیں بچایا جا سکتا۔ اب بہر طور معیشت کی تجدید کرنا ہو گی۔ اہم توجہ زراعت اور صنعت پر ہونی چاہیے‘ ایسے شعبے جو نئی اور مستقل ملازمتیں پیدا کر سکیں۔ اسی طرح جدید ٹیکنالوجیز اور کمپیوٹرز‘ سافٹ ویئر اور انفارمیشن فیلڈز بہتر مواقع پیش کر سکتی ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو باعزت روزگار حاصل کرنے کے قابل بنانے کے لیے حکومت کو ان شعبوں پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مگر اس کے لیے سیاسی ہم آہنگی اور استحکام بھی ازحد ضروری ہے‘ اس کے بغیر اس قسم کی معاشی تبدیلی ممکن نہیں۔ پاکستان میں موجودہ محاذ آرائی کی سیاست معاشی بحالی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کو سیاسی تنازعات کو ختم کرنے اور معاشی مسائل پر اپنی پالیسیوں کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے‘ خاص طور پر انسانی فلاح و بہبود اور روزگار کے مواقع کے لیے یکسو ہونے کی ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ حکومت کو یہ یقینی بنانا چاہئے کہ اس کی اتحادی جماعتیں معاشی تنظیم نو کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔
پاکستان میں حکمران طبقات چاہتے ہیں کہ اپوزیشن معاشی بحالی کے لیے تعاون کرے لیکن وہ اپوزیشن پر ریاستی نظام کے دباؤ سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے۔ سیاسی اور معاشی ڈومینز کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر حکومت حزبِ اختلاف کو دباؤ میں رکھنے کے لیے ریاست کی قانونی اور انتظامی مشینری کے استعمال کو کم یا ترک نہیں کرتی تو حزبِ اختلاف کے کسی بھی مسئلے پر تعاون کی پیشکش کرنے کا کوئی امکان نہیں۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتی جب تک کہ 2022-2023ء میں نافذ کی جانے والی تعزیراتی اور ریگولیٹری پالیسیاں اعتدال پسند نہ ہوں۔ اگر ان کو تبدیل نہ کیا جائے‘ اگر پاکستانی سیاست ماضی میں محصور رہتی ہے اور حکمران اور اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے کو سیاسی عمل سے نکال باہر کرنے کی پالیسی کو ترک نہیں کرتیں تو سیاسی ہم آہنگی اور استحکام کی امید‘جو معاشی بحالی کے لیے لازمی شرط ہے‘کا امکان نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا۔