دنیا میں بیماریوں کے علاج کے دو طریقے مر و ج ہیں ایک ایلوپیتھک جسے عام الفاظ میںا نگریزی طریقۂ علاج کہتے ہیں اور دوسرا ہومیو پیتھک و دیسی طریقہ علاج ہیں۔ دیسی طریقہ میں علاج بالوجہ کیا جاتاہے جبکہ ایلوپیتھک میں علاج بالضد۔ اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ اگر آپ کے جسم کے کسی حصے میں درد ہو رہا ہو تو انگریزی طریقہ علاج کے مطابق آپ کو درد ختم کرنے کی ایک گولی یا Injectionدے دیا جاتا ہے جس سے درد کی وجہ اور درد باقی رہتا ہے مگر جسم کو درد کا احساس نہیں رہتا جس کی وجہ سے مریض کو افاقہ محسوس ہوتا ہے۔ علاج کے دوسرے دونوں طریقے درد کا فوری اور بالضد تدارک کرنے کی بجائے درد کی وجہ تلاش کرتے ہیں جیسا کہ جسم میں کمزوری ، نظام ہضم خراب ہونا ،جسم کے کسی اہم عضو کا صحیح طور پر کام نہ کرناوغیرہ وغیرہ ۔
روزمرہ زندگی پر غور کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ زندگی کی رفتار تیز ہونے ،ایک وقت میں ایک سے زیادہ کام کرنے کی وجہ سے ہماری زندگی بھی انگریزی طریقہ علاج کی طرح بالوجہ کی بجائے بالضد اور مصنوعی طرزپر چل رہی ہے۔ مثال کے طور پر ہم وقت بے وقت کھانا کھانے اور ضرورت سے زیادہ کھانے کے بعد چہل قدمی اور سیر نہیں کرتے جس سے ہمارا وزن روٹین سے زیادہ ہو جاتا ہے ‘ پیٹ بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے ہر دوسرا شخص وزن کم کرنے کے مختلف بلکہ مہنگے ٹوٹکے ڈھو نڈتا نظر آتا ہے‘ جن میں ادویات کا استعمال‘ پتلا (Slim)کرنے والی چائے‘مختلف مشینوں کی مدد سے مخصوص قسم کی ورزش اور کھانا کھانے کی ترتیب و ترکیب شامل ہیںجن سے وزن اور توند کم ہو سکے‘ حالانکہ یہ سارا کچھ بالضد ہے ا گر ہم بلاناغہ گرائونڈ میں جاکر ورزش کریں ،دوڑ لگائیں اور ہو سکے تو کسی کھیل میں باقاعدہ حصہ لیں تو ہمارا وزن اور توند‘ دونوںمستقل بنیادوں پر کم ہو سکتے ہیں۔
اگلا ذکر رنگ گورا کرنے والی مختلف کریموں کا ہے‘ ہم دھوپ میں چلتے وقت چھتری کا استعمال نہیں کرتے کسی سادہ کپڑے سے سر اور چہرے کو نہیں ڈھانپتے‘ دن میں تین دفعہ چہرہ نہیں دھوتے‘۔مگر رنگ گورا کرنے کی کریموں اور لوشن وغیرہ خریدنے پر بے تحاشا پیسے خرچ کر دیتے ہیں۔ میڈیکل سائنس کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں آج تک کوئی ایسی کریم یا لوشن نہیں بنا جو آپ کا رنگ مستقل طور پر سفید یا گورا کر سکے بلکہ عارضی طور پر کریم لگانے یا پارلر جاکر مالش نمار گڑائی کرانے سے رنگت وقتی طور پر قدرے صاف یا گوری نظر آتی ہے لیکن مستقل حل کوئی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ایک ہلکا پھلکا مگر وزن میں بھاری کسی استاد کا مقولہ ہے کہ مرد حضرات جتنے پیسے رنگ گورا کرنے والے میک اپ کے سامان پر خرچ کرتے ہیں اگر انہی پیسوں کا تازہ دودھ اور پھل استعمال کرنا شروع کر دیں تو ان کی رنگت مستقل بنیادوں پر قدرے بہتر ہو سکتی ہے۔ مصنوعی اور بناوٹی رویے زندگی میں اتنے زیادہ سرایت کر چکے ہیں کہ اب واپسی ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ یہ مصنوعی اور بناوٹی پن ہماری خوراک میں بھی شامل ہو چکا ہے۔ خواتین بالخصوص اور مرد حضرات بالعموم کسی بھی مارکیٹ سے 25,30 روپے کا سیب کا نام نہاد جوس لے کر پیتے ہیں اور فوراً فیس بک پر Status uploadکر دیتے ہیں مگر وہ یہ قطعی طور پر نہیں
سوچتے کہ 25روپے میں سیب تو کجا ـــــ''ـبیر‘‘ یا ''امرود‘‘ جیسے سستے پھلوں کا جوس بھی نہیں نکل سکتا۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ذہنی بیماریوں کا شمار سب سے تیزی سے پھیلنے والی بیماریوں میں ہوتا ہے۔ ذہنی طور پر انتشار کا شکار ہونا ،بلاوجہ گھبراہٹ ہونااور انجانا خوف وغیرہ وہ امراض ہیں جس کا شکار کم از کم آ د ھے سے زیادہ آبادی ہو چکی ہے۔ انہی ا مراض میں نیند نہ آنا یا ایسی نیند آنا جو پر سکون یا گہری نہ ہو‘ شامل ہیں۔ اس کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ آنکھیں سو جاتی ہیں مگر دماغ جاگتا رہتا ہے اس کا فوری اور آسان حل لوگ نیند کی گولی میں تلاش کرتے ہیں جب کہ زندگی ایک ربط سے گزاری جائے‘ مذ ہب سے اپنا ناتہ مستقل طور پر جوڑا جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دن میں کوئی نہ کوئی کام ایسا کیا جائے جس میں کوئی مالی غرض نہ ہو اور سب سے بڑھ کر ایسی جسمانی مشقت جس سے جسم میں تھکن پیدا ہو توآپ کو با آسانی پر سکون نیندآئے گی۔
بات کی جائے ملکی سیاست کی تو دعوی کیا جاتا ہے کہ Dictatorsکے ادوار میں زیادہ ترقی ہوئی ۔ اصل صورت حال یہ ہے کہ جیسے ہی کوئی ڈکٹیٹر حکومت میں آتا ہے تو غیر ملکی عناصر بالخصوص مغربی طاقتیں اُسے نہ صرف خوش آمدید کہتی ہیں بلکہ مصنوعی امداد میں اضافہ کر دیتی ہیں جس سے مصنوعی اور عارضی طور پر ملکی معیشت ترقی پذیر نظر آتی ہے۔ جیسے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافہ ہو جاتا ہے تنخواہوں میں بہتری آ جاتی ہے۔ اور روز مرہ استعمال کی چیزیں قدرے سستی ہو جاتی ہیں۔ آپ مشرف دور کو ہی لے لیں تو آپ کو لگے گا کہ وہ دور معاشی طور پر بہتر تھا حالانکہ وہ سب استحکام عارضی اور مصنوعی تھا۔ گویا طاقتور ترین ڈکٹیٹربھی بالضد طریقے سے ہی علاج کرتے رہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ اربوں بلکہ کھربوں روپے کی کرپشن کامقدمہ اعلی ترین عدالت میں زیر سما عت ہے اورپہلی دفعہ اعلیٰ ترین ایجنسیوں کی زیر نگرانی تحقیقات کے نتیجے میں معاشی‘ سیاسی اور سماجی برائیوں یا بیماریوں کا علاج بالوجہ شروع ہوا ہے۔جی ہاں بجا طور پر کرپشن سوبیماریوںکی جڑہے چوںکہ ایسا صرف ایک خاندان کے ساتھ ہو رہا ہے اس لیے ماہرین اسے ''Too Little, Too Lateـ‘‘سے تشبیہ دے رہے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ کہہ رہے ہیںکہ ''دیر آئد درست آئد‘‘ اس لئے کہ پہلی دفعہ علاج بالوجہ ہو رہا ہے نہ کہ علاج بالضد۔
بہرحال وزیراعظم کے احتساب کو معمولی یا تاخیر سے سمجھنا درست نہیں‘ بلکہ یہ اچھا آغاز ہے توقع ہے کہ یہ سلسلہ آگے بڑھے گا اور آخری کرپٹ تک جاری رہے گا۔ علاوہ ازیں اس احتساب نے قومی زندگی پر اچھا اثر چھوڑا ہے۔ یقین ہے کہ اب کرپشن کرنے والا‘ رشوت لینے یا بدعنوانی کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا۔ اُسے بہرحال یہ ڈر رہے گا کہ اگر پھنس گیا تو بری طرح پھنسے گا‘ بلکہ اس طرح کہ کوئی اس کی مدد کو بھی نہیں پہنچ سکے گا۔ مدد کرنے والے کو خود شکنجے میں آنے کا ڈر رہے گا۔ پاناما لیکس نے بڑے بڑوں کے کان کھڑے کر دیے ہیں۔ہاں اگر اس کے بعد احتساب کا سلسلہ رُک جاتا ہے تو سمجھا جائے گا کہ شریف فیملی کے خلاف کارروائی انتقامی اور یک طرفہ تھی۔