بہت کم لوگ اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ تحریک پاکستان، جو انگریز اور ہندو کے خلاف تھی، کے نتیجے کے طور پر نہ صرف پاکستان بلکہ برما، سری لنکا اور مالدیپ بھی آزاد ہوئے، بھوٹان اور نیپال بھی ا پنی ا ٓزادی برقرار رکھ پا ئے ۔جی ہاں تھوڑا غور کریںتو آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ ہندو اپنی عددی اکثریت کے باعث پورے بر صغیر کو آج بھی اپنی سلطنت مانتے ہیں ۔تخلیق پاکستان کے نتیجے میں ہی 1948میں سری لنکا اور برما، جس کا موجودہ نام Myanmar ہے ،کو آزادی ملی تھی۔نیپال اور بھوٹان چو نکہ ، رقبہ اور آبادی دونوں کے اعتبار سے ،بہت ہی چھوٹے ممالک ہیںاس لئے ان ممالک کی آزادی صرف پاکستان کی وجہ سے برقرار رہ پائی ہے۔ واضح رہے بھارت جنوبی ایشیا کے چھوٹے ممالک کو اپنی طفیلی ریاستیں بنا کر رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور جب بھی موقع ملتا ہے ،درا ندازی سے باز نہیں آتا۔برما کے اندر جا کر سرجیکل سٹرائیک کرنا،مالدیپ کی حکومت کا operation cactus کے ذریعے 1988 میں تختہ الٹنے کی کوشش کرنا یا سری لنکا کی علیحدگی پسند تحریک کا بھرپور ساتھ دینے کے علاوہ بھارت کی دیگر کئی شر پسند حرکتیں اور سازشیںنظر آتی ہیں اور ان تمام مواقعے پر پاکستان نے بھارتی سازشوں سے نمٹنے میںتمام ممالک کی مدد کی ہے ۔بھارت نے 1989اور 2016 میں نیپال کی بحری تجارت بند کرنے کی دھمکی دی تو پاکستان نے فوراً نیپال کو اپنا بحری رستہ بذریعہ چین استعمال کرنے کی پیشکش کر دی جس کے نتیجے میں بھارت اپنی پابندی سے باز رہا ۔ سری لنکاکی اعلی سول و ملٹری قیادت گاہے گاہے پاکستان کا دورہ کرتی ہے اور پاکستان سے اپنے تعلقات کی تجدید کرتی ہے حالانکہ سری لنکا سے پاکستان کی تجارت بہت محدود ہے ، سمندری سرحدی فاصلہ بہت زیادہ ہے،مذہب کے اعتبار سے سری لنکا کی اکثریت بدھ مت ہے مگر سری لنکا یہ بات بخوبی سمجھتا ہے کہ بھارتی جارحانہ عزائم کے مقابل پاکستان ہی اس کی بقا کا ضامن ہے۔یاد رہے 26 جولائی کو مالدیپ کے یوم آزادی کے موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم مہمان خصوصی تھے۔
جنو بی ایشیا کی سیاست کے علاوہ پاکستان کے قیام کے وقت دنیا کی سب طویل یعنی سرد جنگ روس اور امریکہ میں شروع ہوچکی تھی چونکہ روس کمیونزم کو با آسانی جنوبی ایشیا میں پھیلانے کی طاقت ر کھتا تھااس لئے پاکستان نے مغربی یعنی امریکی بلاک میں شمولیت اختیار کی ۔جس کے نتیجے میں پاکستان سرد جنگ کا حصہ بن گیا۔یہ جنگ پاکستان کیلئے سرد سے گرم اس وقت ہوئی جب 1979میں روس نے افغانستا ن پر حملہ کردیا ۔ اس جنگ کے نتیجے میں 30لاکھ افغان مہاجرین پاکستان آگئے ۔ یہ قیام پاکستان کے بعد دوسری بڑی ہجرت تھی اور30لاکھ آبادی کا ،جو زیادہ تر غریب اور ان پڑھ لوگوں پر مشتمل تھی ،بوجھ پاکستان آج تک اٹھائے ہوئے ہے ۔ تقریباًدس سال تک جاری رہنے کے بعد یہ جنگ روس کی شکست کی شکل میں ختم ہوئی ۔ روس اس وقت دنیا کی دوسری بڑی طاقت تھا اور افغانستان کی جنگ میں شکست اس کو 14ٹکڑوں میں تقسیم کر گئی ۔ اگرچہ پاکستان کو تمام مغربی دنیاکی حمایت حاصل تھی مگر عملاً یہ جنگ پاکستان کے لوگوں اور دفاعی اداروں نے مل کر لڑی۔ واضح رہے کہ اس افغان جنگ کے دوران روس نے ایک سپر پاور ہونے کے ناطے پاکستان کی ریاست کے خلاف ہرظالمانہ حربہ آزمایا۔ روس پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنے کیلئے سستی ترین اشیا افغانستا ن کے رستے پاکستان بجھواتا ۔ پاکستان کے اندر بم دھماکے کراوئے
جاتے۔ یہاں تک کے کھلونا بم بھی پاکستان کے علاقوں میں پھینک دیئے جاتے ۔ اگر تھوڑا غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان آج بھی اس جنگ کے ذیلی اور زہریلے اثرات کا شکار ہے۔ افغان جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ نے دنیا میں نیو ورلڈ آرڈر کا حاکمانہ نظام متعارف کرایا ۔ اس نیو ورلڈ آرڈر کے تحت امریکہ نے مسلم دنیا کو زیر عتاب کر لیا ،جس کا آغاز عراق پر حملے کی شکل میں ہوا ۔ اس کے بعد 11ستمبر کا واقعہ رونما ہوا جس کا تعین کرنا باقی ہے کہ یہ حادثہ ہوا تھا یا کروایا گیا، مگر اس حادثے کے بعد امریکہ نے اپنے طور پر جواز بنا کر افغانستان میں اپنی فوجیں اتار دیں، جو آج تک وہاں موجود ہیں۔ افغانستان میں امریکی فوج کی آمد کے بعد پاکستان کے ازلی اور بدترین دشمن بھارت نے افغانستان میں پائوں جمانا شروع کر دیے ۔ حیرت کی بات ہے کہ افغانستان، جہاں اس کے اپنے باشندے جانے کو تیا رنہیں وہاں بھارت سیروسیاحت اور ٹرانسپورٹ کے نام پر گزشتہ دس سال سے سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اصل میں یہ سرمایہ کاری دہشت گردی کے لئے ہے۔ جس کے ذریعے بھارت مختلف گروپوں کو بھاری رقوم دے کر پاکستان کی سرحد پار کرا کے دہشت گردی کروا رہا ہے۔ ماہرین بھارت کی ان حرکتوں کو دنیا کی سب سے بڑی ریاستی دہشت گردی قرار دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت پاکستان کی معاشی شہ رگ کراچی میں گزشتہ تین دہائیوں سے مختلف گروپوں کے ذریعے دہشت گردی کرا رہا ہے۔ ان باتوں کو جیتا جاگتا ثبوت کلبھوشن یادیو ہے جس نے اپنے اعترافی بیانات میں کراچی میں بالخصوص اور دیگر شہروں میں بالعموم دہشت گردی کے بھارتی منصوبوں کا اعتراف کیا ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کی ایران سے ملحق سرحد پر بھی حالات زیادہ خوشگوار نہیں ۔ حالیہ واقعات کے تناظر میں بھارت ضد برائے ضد کے طور پر چا ہ بہار میں بندرگاہ بنا رہا ہے ۔ دراصل وہ ایران کے اندر اپنی عمل داری بڑھانا چاہتا ہے ۔ واضح رہے کہ کلبھوشن بھی ایران کے رستے سے ہی پاکستان میں داخل ہوا تھا ۔
خوش قسمتی سے پاکستان کی چوتھی سرحد یعنی چین کی طرف سے ٹھنڈی ہوا کی کھڑکی ہی نہیں بلکہ دروازہ کھلا ہے اور چین کی معاشی طاقت اور ترقی کے ثمرات پورے ایشیا میں پھیلنا شروع ہو گئے ہیں ۔ ہٹ دھرم بھارت وہ واحد ملک ہے جو اس منصوبے‘ بالخصوص پاکستان سے گزرنے والی معاشی شاہراہ کا نہ صرف حصہ نہیں بنا بلکہ اس منصوبے کو نقصان پہنچانے کے در پے ہے ۔ بدنامِ زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی را نے اس سلسلے میں باقاعدہ ایک علیحدہ ونگ قائم کیا ہے ، مگر تاحال پاکستان ہر بھارتی چال کا توڑ کامیابی سے کر رہا ہے۔
شروع میں ذکر ہوا تھاکہ پاکستان اپنے علاوہ دیگر جنوبی ایشیا کے ممالک کیلئے بھی بقاء کی ضمانت ہے اور اپنے 70 سالہ دور میں مسلط کردہ جنگوں کو لڑتا ،بہتری کی جانب گامزن ہے، دوسری طرف بھارت بیرونی محاذوں کے علاوہ اندرونی طورپر بیس سے زیادہ علیحدگی پسند تحریکوں کی آماجگاہ ہے ۔ گزشتہ دنوں بھارت کی عسکری قیادت خود اعتراف کر چکی ہے کہ علیحدگی پسند تحریکیں بھارت کے لئے ایک محاذ کا درجہ رکھتی ہیں۔ واضح رہے بھارتی قیادت نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ اسے اڑھائی محاذوں کا سامنا ہے اس میں آدھا محاذ اندرونی تحریکیںہیں ۔اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ معاشی طور پر کمزور ،ذات پات کے تضادات ، مختلف ریاستوں میں چلتی مائوسٹ تحریک ،نسلی و لسانی تضادات اور علاقائی جھگڑوں میںگھرے بھارت کے مزید کتنے ٹکڑے ہوتے ہیں۔