غربت کی لکیر یعنی Poverty Line ایک کثیر الاستعمال اصطلاح بن چکی ہے۔ اس سے مراد ایک دن میں اوسطاً ایک شخص کے تصرف میں رہنے والی کم از کم رقم ہے۔ یعنی موجودہ حالات میں اگر کسی شخص کی اوسط آمدن 2ڈالر روزانہ سے کم ہے تو اسے خطِ غربت سے نیچے تصور کیا جائے گا۔ اس اوسط آمدن کا گراف گھٹتا، بڑھتا رہتا ہے۔ (عمومی طور پر بڑھتا ہی ہے) 2005ء میں روزانہ کی اوسط آمدن 1.25ڈالر کو تسلیم کیا جاتا تھا مگر 2015ء میں یہ بڑھ کر 1.90ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔ 1990ء کی دہائی میں جب اس اصطلاح کا استعمال شروع ہوا تو اس وقت اس سے مراد ایک ڈالر ہوتا تھا۔ یعنی ہر وہ شخص جس کے ذاتی استعمال میں ''ایک دن کا ایک ڈالر‘‘ سے کم حصے میں آتا تھا تو اسے غربت کی لکیر سے نیچے تصور کیا جاتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس معیار کو ایک ڈالر سے بڑھا کر دو ڈالر کر دیا گیا۔ اب آپ سادہ لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر وہ شخص جو اپنے روز مرہ استعمال میں دو سو روپے خرچ کرنے کی سکت نہ رکھتا ہو تو وہ غربت کی لکیر سے نیچے تصور کیا جائے گا۔ یہاں ایک ضروری بات کی وضاحت ضروری ہے اور وہ ہے کہ دو سو روپے خرچ کرنے کی جگہ یا مقام کونسا ہے اس کی مثال ہم یوں لے سکتے ہیں کہ دو سو روپے سے لاہور شہر میں کیا خریدا جاسکتا ہے تو جواب واضح ہے کہ دو سو روپے کے عوض تین وقت کا کھانا (صرف دال‘ سبزی اور روٹی) بمشکل پورا ہو سکتا ہے۔ واضح رہے آج کل لاہور شہر میں عام تنور سے جو روٹی 8 روپے کی ملتی ہے وہ بھی خالص آٹے کی نہیں ہوتی۔ خالص یا مکمل آٹا Whole wheat سے پکی روٹی 10روپے سے کم کی نہیں ملتی۔ اسی طرح لاہور میں بھینس کا خالص دودھ سو روپے کلو میں ملتا ہے۔ لہٰذا کھانے پینے اور دیگر اشیا تصرف کو مدنظر رکھیں تو لاہور جیسے شہر میں دو سو روپے ناکافی
ہیں۔ یہی 200 روپے لے کر آپ ضلع لاہور کے کسی دور دراز گائوں میں چلے جائیں تو اسی رقم کی قدر دوگنا ہو جائے گی کیونکہ گائوں کے اندر بھینس کا خالص دودھ فقط 50 روپے کے عوض بھی مل جاتا ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں ہر سال مہنگائی کی شرح میں اوسطاً 5-10 فیصد اضافہ ہوتا ہے وہاں 2 ڈالر یا تقریباً 200 روپے ناکافی معلوم ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس غربت کی لکیر کے لیے ڈالر کا معیار مقرر کرنے والے مغربی ممالک میں قیمتوں میں استحکام رہتا ہے (ان کے ہاں عام شخص کی قوت خرید متاثر نہیں ہوتی)۔ چلیں ایک لمحے کے لیے تصور کر لیتے ہیں کہ 2 ڈالر یعنی200 روپے فی کس روزانہ کا معیار ہمارے معاشرے پر بھی منطبق ہوتا ہے تو آپ خود اندازہ لگائیں کہ پاکستان میں لاہور جیسے شہر میں ایک مزدور کو پورے دن کی مزدوری 600 روپے سے زیادہ نہیں ملتی جبکہ اسی مزدور کے زیر کفالت کم از کم 2-3 لوگ ہوتے ہیں۔ ہم کم از کم زیر کفالت لوگوں کی اوسط تعداد 2 بھی تصور کریں تو خود مزدور کو ملا کر کُل 3 لوگ ہو جائیں گے گویا کہ 8-10 گھنٹے کی مزدوری کے بعد بھی ایک مزدور اپنے اہل خانہ سمیت غربت کی لکیر سے نیچے ہی رہتا ہے۔ اگرچہ عالمی معیار کے مطابق 3 افراد کے لئے 600 روپے انہیں خطِ غربت سے اوپر لانے کے لئے کافی ہیں مگر یہاں پر یہ بات ذہن میں رکھنا ازحد ضروری ہے کہ لازم نہیں اس مزدور کو روزانہ مزدوری یعنی روزگار ملتا رہے گا۔ اگر آپ گزشتہ بجٹ کے اعداد و شمار کے گورکھ د ھند ے کو ذہن میں رکھیں تو آپ کو علم ہو گا کہ حکومت نے کم از کم ماہانہ اجرت 14000 روپے ماہانہ مقررکر رکھی ہے۔ اگر ہم اس اجرت کو 15ہزار بھی تصور کرلیں تو اوسطاً اس شخص کے حصے میں ایک روز کے لیے 500 روپے میں آئیں گے اور یوں ماہانہ اجرت پر کام کرنے والا ایک شخص جو اپنے
زیرکفالت صرف 2 لوگ رکھتا ہے‘ وہ غربت کی لکیر سے نیچے ہی رہے گا۔ بھیانک حد تک حیرت انگیز امر یہ ہے کہ وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتوں کے طے کردہ سرکاری گریڈ کے مطابق پہلے تین سکیل ایسے ہیں کہ ان کی بنیادی تنخواہ (Basic pay) 15 ہزار روپے ماہانہ سے بھی کم ہے۔ گویا حکومت اپنی ہی طے کردہ کم از کم اجرت یعنی 14 ہزار روپے سے بھی کم تنخواہ پہلے تین سکیل کے ملازمین کو دے رہی ہے۔ اب یہ تمام لوگ جو پندرہ ہزار روپے ماہانہ کے گھن چکر سے باہر نہیں نکل پا رہے تو آپ اندازہ کریں کہ یہ لوگ صرف دال سبزی اور سوکھی روٹی کے علاوہ کسی چیز کے بارے میں سوچتے بھی کیسے ہوں گے۔ پچھلی دو دہائیوں میں چین دنیا کی واحد بڑی مثال ہے جہاں پر نمایاں ترقی دیکھنے میں آرہی ہے جس کے نتیجے میں لا محالہ طور پر غربت کی شرح میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ چین کی حکومت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلے 7 سالوں میں تقریباً 6.5 کروڑ لوگوں کو غربت کی لکیر سے نکال کر مڈل کلاس میں لایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ چین دنیا کی سب سے تیز رفتار ترقی کی بدولت دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے۔ چین نے 1979ء سے لے کر 2016 ء تک ''ایک جوڑا‘ ایک بچہ‘‘ کا سخت ترین قانون لاگو رکھا، کرپشن کو آ ہنی ہاتھوں سے قابو کیا حتیٰ کہ کرپشن کے ارتکاب پر پھانسی تک کی سزائیں بھی دی گئیں۔ روٹی کپڑا اور مکان، چین کے اندر ہر شخص کو فراہم کرنا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اس کے باوجود چین سمجھتا ہے کہ اسے اپنے ملک میں غربت کا خاتمہ کرنے کے لیے مزید دس سال کا عرصہ لگے لگا۔ اب واپس آتے ہیں اپنے ملک کی طرف‘ جہاں ہم ابھی تک دال‘ روٹی‘ سبزی کی لاگت، کم از کم ماہانہ اجرت اور روزانہ کی مزدوری کا حساب لگا رہے ہیں اور پھر بھی ہم عام مزدور کے بجٹ میں صرف زندہ رہنے کے لیے ضروری اشیا پوری نہیں کر پا رہے۔
قارئین! پاکستان میں جمہوریت کو بحال ہوئے یہ تقریباً دسواں سال ہے یعنی جمہوریت ایک دہائی مکمل کرنے کے قریب ہے۔ لیکن آپ خود بتائیں کہ آپ کی نظر میں اقتصادی راہداری (CPEC) کے علاوہ کوئی ایسا بڑا منصوبہ ہے جس سے عوام کو روزگار کی امید ہو۔ حکومت کا پلان کردہ کوئی ایسا منصوبہ آپ کی نظر سے گزرا ہے جس سے غربت کا خاتمہ ہو سکے۔ کوئی ایسا منصوبہ جس طرح چین نے بنایا ہے‘ جس کے تحت تخمینہ لگایا گیا ہے کہ 2025 یا 2030 تک غربت میں گھرے لوگوں کو خطِ غربت سے نکال لیا جائے گا۔ ہمارے ہاں ملکی آبادی میں سالانہ تقریباً 50 لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے‘ آپ کی نظر سے کبھی کسی بھی سیاسی جماعت (وفاقی یا صوبائی حکومت) کا کوئی ایسا ارادہ سامنے آیا جس سے پتا چلتا ہو کہ آبادی میں بے مہار اضافہ روکنے میں بھی کوئی سنجیدہ ہے؟
اس کالم میں دال‘ روٹی اور سبزی کا بار ہا ذکر ہوا ہے اور کوئی بھی ہانڈی ٹماٹر اور پیاز کے بغیر تیار نہیں ہوتی۔ اس وقت ان کی قیمت ہی کم از کم اوسط آمدن کو چھو رہی ہے۔ آگے سردیوں کی آمد آمد ہے اور یقیناحسبِ روایت سردیوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ بھی شروع ہو جائے گی تو خود سوچیں کہ اوسطاً 500 روپے کمانے والا اگر کسی طرح روٹی اور آٹا خرید بھی لے تو پکائے گا کیسے۔ ان تمام اعداد و شمار اور حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو علم ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام غربت کا دن نہیں بلکہ غربت کی دہائیاں منا رہے ہیں اور نجانے کب تک مناتے رہیں گے۔
(17 اکتوبر کو عالمی سطح پر غربت کے خاتمے کا عالمی دن منایا جا رہا ہے)