Myth

Mythکا لفظ سچ یا حقیقت کے متضاد کے طور پر لیا جاتا ہے ۔اس سے مراد ایک ایسی بات ‘فلسفہ یا نظریہ لیا جاتا ہے جس کو عقیدے کی حد تک صحیح مانا جاتا ہے مگر یہ''عقیدہ‘‘ غلط ہوتا ہے ۔اس کی سب سے بڑی مثال اہلِ یونان کے ہاں پایا جانے والا عقیدہ تھا جس کے مطابق یہ لوگ درجنوں دیوی ‘دیوتائوں کی پوجا کرتے تھے ۔ان کے ہاں جنگ ‘محبت‘ہوا‘آگ وغیرہ کے دیوتا پائے جاتے تھے جن پر وہ لوگ یقین رکھتے تھے ۔اس فرسودہ یقین کو ختم کرنے کا سہرا عظیم سکالرسقراط کے سر جاتا ہے جس نے ایسے نظریات کو نہ صرف چیلنج کردیا تھا بلکہ اس پاداش میں زہر کا پیالہ بطور سزاپیا اور اپنی جان دے دی۔ سچ اور حقیقت کے علم کی تلاش کیلئے انسانی تاریخ کی یہ سب سے بڑی قربانی مانی جاتی ہے ۔اس قربانی نے اہلِ یونان میں سوچ‘ فکر اور عمل کی ایک مکمل نئی راہ کھولی دی ‘اسی لئے سقراط کو اہل ِیونان کے ہاں پائی جانے والی فرسودہ روایات کی سیاہ رات ختم کرنے والا سورج نما کردار قراردیا جاتا ہے ۔
پچھلے کالم میں اس اہم بات کا ذکر کچھ یوں ہوا تھا کہ اندھیروں کی مخالفت ضرور کریں چاہے آپ کو کسی جگنو سے ہی روشنی بطور قرض لینی پڑے۔ واضح رہے کہ جیسے جیسے رات کا وقت قریب آتا ہے شرانگیز مخلوقات حرکت میں آجاتی ہیں ‘جیسے نقصان دینے والے حشرات اور جانور حرکت میں آنا شروع ہوجاتے ہیں ‘اسی طرح غلط قسم کی حرکات والے لوگ جیسے چور ‘ڈکیت‘سمگلر ‘ اور قبضہ کرنے والے بھی حرکت میں آجاتے ہیں ۔بنیادی طور پر یہ سب رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہیں ۔
بنیادی طور پر بحث اسی بات کی ہے کہ دنیا میں در پیش معاشی‘سماجی‘سیاسی اور سب سے بڑھ کر ماحولیاتی چیلنجز‘ مشکلات اورآفات سے نبرد آزما ہونے کیلئے کسی ایک فرد کی کوشش‘ بلکہ اس کوشش کیلئے اٹھائے جانے والے پہلے قدم کی اہمیت کیا ہے؟ بہت ہی مختصر مگر مکمل نظریہ کچھ اس طرح ہے کہ درست سمت اور وقت پر اٹھائے جانے والے پہلے قدم سے آدھا فاصلہ طے ہو جاتا ہے ۔اسی طرح کہا جاتا ہے کہ ایک لاکھ نصیحتوں‘مشوروں سے ایک عمل لاکھ گنا بھاری ہوتا ہے۔اگر آپ کا مقابلہ سمندر سے بھی ہے تو سمندر میں سے ایک قطرہ نکال باہر کریں سمندر کو فرق نا بھی پڑے مگر ایک قطرہ ضرور کم ہو جائے گا اور اس مقابلے میں یہ ایک قطرہ ہی سمندر کے مقابل پہلا قطرہ بنے گا۔ Mythکے نام سے لکھے جانے وا لے ناول میں سے ایک مثال سے یہ بات سمجھنے میں نہ صرف آسانی ہوگی بلکہ اس کی پوری سمجھ دل‘دماغ بلکہ روح میں اتر جائے گی۔قصہ کچھ یوں ہے کہ قدیم یعنی زرعی دور میں ایک بڑی ریاست کے سخت گیر حاکم کو پتہ چلا کہ اس کی ریاست میںکرپشن بہت زیادہ ہے اور ہر طرف کرپشن ہی کا سکہ چل رہا ہے ۔
اس نے یہ سب جاننے کیلئے ایک سخت گیرقسم کا حکم نامہ جاری کیا اور فوج سمیت تمام ریاستی اہلکاروں کو پہرہ دینے کی ہدایت کر دی۔ اس مقصد کیلئے پہلے ایک بڑا تالاب بنوایاگیا اورحکم کے مطابق ایک طے شدہ دن کو ریاست کے تمام لوگوں نے اپنے جانوروں کا دودھ اس تالاب میں لاکر ڈالنا تھا۔ دودھ تالاب میں ڈالنے کا ایک وقت مخصوص نہیںکیا گیاتھا‘ اسی طرح تالاب کے کس رخ سے آکر دودھ ڈالنا ہے یہ بھی مخصوص نہیں کیا گیا تھا یعنی ان دو پہلوئوں کیلئے پہرے دار مقررنہیں کئے گئے تھے۔اب اس مخصوص دن عام آدمی سے لے کر بڑے جاگیرداروں حتٰی کہ سرکاری ملکیت کے جانورں کا دودھ بھی اس تالاب میں ڈالنے کا حکم تھا ۔چونکہ ریاست بہت بڑی تھی اور دودھ مقررہ دن سے پہلی رات اور اس دن کی صبح کا ڈالا جانا تھا اس لئے دودھ لاکھوں بلکہ کروڑوں لیٹر جمع ہونے کا تخمینہ تھا ۔ پورا ملک ایک جنگی قسم کے ہیجان میںمبتلا تھا مگر کسی بھی عام و خاص کو کوئی تشویش اس لئے نہ تھی کیونکہ حکم میں یہ بھی شامل تھا کہ ہر کسی کی حیثیت کے مطابق دودھ واپس کر دیا جائے گا ‘اسی لئے دن سخت سردی کا منتخب کیا گیا تھا تاکہ دودھ خراب ہونے کا اندیشہ نہ ہو ۔
سب ٹھیک تھا مگر اس ایک رات کی تاریکی نے کسی کے دل میں ایک سیاہ خیال پیدا کردیا ‘وہ خیال یہ تھا کہ اتنی بڑی مقدار میں جو دودھ جمع ہونا ہے اگر اس میں وہ اپنے دودھ میں کچھ پانی ڈال دے تو کیا فرق پڑتا ہے ۔سردی کی رات طویل اورسیاہ تھی‘چونکہ اس رات چاند نہیں نکلا ہواتھا اسی لئے دودھ میں کچھ پانی ملانے کا خیال دودھ کی جگہ سارا پانی ہی ڈالنے کے خیال میں بدل گیا ۔اب صبح نمودار ہونا شروع ہوئی اور مکمل صبح ہوگئی۔بادشاہ مقررہ جگہ معائنہ کیلئے روانہ ہوا تو اس کو ایک عجیب خیال آیا کہ دن کی روشنی کی وجہ سے جانور دودھ پینے نہ لگ جائیں اور اگر جانور نہ بھی آئیں تو پرندے تو اڑکر ضرور آنا شروع ہو جائیں گے ۔ چونکہ دودھ سب کو واپس کرنا تھا اسی لئے اسے اپنی سکیم پر تھوڑی تشویش ہوئی۔ وہ قریبی ساتھیوں کے سا تھ تا لاب کی طرف بڑھتا رہا‘ اس نے قدرے دور سے دیکھا کہ تا لاب والی جگہ کے اوپر کوئی پرندہ نظر نہیں آرہا تھا‘ اسے قدرے اطمینان ہوا‘ چونکہ وہ یہ تشویش ایک قریبی وزیر سے ظاہر کر چکا تھا ۔اس لئے دونوں نے قدرے اطمینان محسوس کیا حتٰی کہ اس قریبی وزیر نے خوشا مد کا موقع غنیمت جانتے ہوئے اس صورت حال میں بادشاہ کو ایک ناگزیر اور قابل حکمران سے تشبیہ دے دی ‘اس نے بادشاہ کو یہ بھی کہہ دیا کہ یہ جناب کی بادشاہت کی طرف ایک غیبی مدد اور اشارہ ہے کہ جناب نیک اور ناگزیر ہیں۔ اب یہ لوگ جیسے ہی تالاب پر پہنچے تو منظر دیکھ کر ان کا دل چاہا کہ اس تالاب میں کود جائیں اور ڈوب کر مر ہی جائیں کیونکہ تالاب میں پانی ملا دودھ نہیں تھا بلکہ پورا تالاب ہی صرف پانی سے بھرا ہوا تھا ۔
گویا جو خیال کسی ایک کے دل میں آیا تھا کہ پانی ملے دودھ کی بجائے صرف پانی ہی تالاب میں ڈال دیا جائے یعنی کچھ کرپشن کی بجائے مکمل کرپشن ‘ یہ خیال کچھ کی بجائے کل میں پھیل چکا تھا ‘بلکہ یوں کہا جائے کہ خیال تو طرزِ زندگی کی طرح پہلے ہی موجود تھا مگر اب اس کا عملی مظاہرہ تالاب کے پانی میں عکس کی طرح نظر آرہا تھا‘مگر یہ عکس واضح نہیں تھا کیونکہ لوگوں نے صاف پانی ڈالنے کی بجائے تالابوں اور نالوں سے لا کر پانی ڈال دیا تھا جو کہ گدلا تھا ‘اسی لئے شرمندہ چہروں کا عکس واضح نہیں تھا ورنہ بادشاہ سمیت وزرا کے چہروں کے عکس ایک دوسرے کو پانی میں نظرآ رہے ہوتے ۔اس موقع پر سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے کی جرأت اور ہمت نہیں کر رہے تھے ۔
ناول نگار اس ناول کو ابھی مکمل نہیں کر پا رہا کیونکہ وہ ابھی یہ نہیں طے کر پا رہا کہ دودھ کی جگہ ملاوٹ اور پھر صرف پانی ڈالنے کا خیال سب سے پہلے کس کے ذہن میں آیا ہو گا اور کیوں ؟ جبکہ دنیا کی سب سے بڑی Mythیہی ہے کہ کسی ایک کی کوشش سے کیا فرق پڑتا ہے جبکہ Realityکسی ایک سے شروع ہونے والی کوشش ہی ہوتی ہے‘ اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ رات کے وقت سورج میسر نہیں ہوتا ‘چاند اپنی مرضی کرتا ہے‘ دیا پتہ نہیں جلے کہ نہ جلے مگر اندھیروں کی مخالفت ضرور کریں چاہے روشنی جگنو سے قرض لیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں