22 اپریل کو ہر سال ''مدر ارتھ ڈے‘‘ یعنی زمین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ 1970 کی دہائی میں اس وقت شروع ہوا جب دنیا کی آبادی چار ارب ہونے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اکثر بولنے یا لکھنے میں زمین (Earth) اور دنیا (World) کے الفاظ ایک ہی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں جبکہ معنوی اعتبار دونوں میں خاصا فرق ہے۔ قدرت نے جس سیارے پر انسان کو بسایا وہ زمین یعنی ارتھ کہلاتا ہے جبکہ اس زمین پر جو کچھ حضرت انسان نے بنایا ہے وہ سب دنیا کہلاتا ہے: God made the Earth and Man, Madly, made the World۔ انسان ابتدا میں زمین پر پائی جانے والی ایک ایسی مخلوق تھا جس کی آبادی دیگر مخلوقات کے مقابل انتہائی کم تھی‘ 1 سنہ عیسوی میں یعنی آج سے دو ہزار بیس سال پہلے پوری دنیا کی آبادی 250 ملین یعنی 25 کروڑ کے لگ بھگ تھی جو آج کی پاکستان کی کل آبادی کے قریب ہے ۔ اِس وقت دنیا کی کل آبادی سالانہ آٹھ کروڑ اضافے کے ساتھ بڑھ رہی ہے اور اب تک 7 ارب 85 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انسان کی آبادی اور کرۂ ارض پر ترقی کے نام پر تباہ کن سرگرمیاں اس بھیانک طریقے سے بڑھی ہیں کہ دنیا کی بقا کے ساتھ ساتھ زمین پر پائی جانے والی حیات کیلئے بھی خطرہ بن چکی ہیں۔
اس کی دردناک تاریخ یا کہانی کچھ اس طرح سے ہے کہ دنیا میں انسانی زندگی کا آغاز جنگلوں سے ہوا تھا۔ جنگل کے دور سے نکل کر انسان کاشت کاری میں مشغول ہوا کہ اس کا بنیادی مقصد بھوک مٹانا تھا، کھیتی باڑی شروع ہوتے ہی انسان نے سیاست میں بھی قدم رکھا یعنی معاشرت کو فروغ دیا، قبیلے وجود میں آئے، پھر ان رفتہ رفتہ قبیلوں کے سرداروں کی جگہ بادشاہت آ گئی۔ ہر دور میں بادشاہوں کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ ایسے علاقوں پر قبضہ کریں جو زرخیز ہوں اور وہاں پانی آسانی سے میسر ہو۔ اس کے لئے دریائوں سے ملحقہ علاقے سب سے اہم سمجھے جاتے تھے کیونکہ انسانی بقا کے لیے خوراک اور پانی کی ضرورت ہوتی تھی جبکہ دریائی وادیاں پانی اور زرخیز مٹی کی وجہ سے ان دونوں نعمتوں کے حوالے سے آئیڈیل سمجھی جاتی تھیں۔ اسی لیے دنیا کی تمام پرانی تہذیبیں ہمیں دریائوں کے کناروں پر ہی آباد نظر آتی ہیں۔ تھوڑا سا غور کریں تو اس حقیقت کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔ سب سے پہلی تہذیب میسوپوٹیمیا (موجودہ عراق) دجلہ اور فرأت کے کناروں پر آباد ہوئی۔ مصر کی تہذیب دریائے نیل کے کنارے، ہڑپہ دریائے راوی کے کنارے جبکہ موہنجو دڑو دریائے سندھ کے کنارے آباد ہوئی۔ اگلی حقیقت اس سے بھی دلچسپ ہے‘ وہ یہ کہ چونکہ آج سے دس ہزار سال پہلے جب کاشت کاری کا آغاز ہوا تھا‘ اس وقت پوری دنیا کی آبادی بمشکل 50 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی، اس لئے اس وقت کے بادشاہ زرخیز زمین کے علاوہ آبادی بڑھانے میں بھی دلچسپی لیتے تھے، ان کو احساس تھا کہ صر ف علاقہ یا بڑا رقبہ ہی کافی نہیں بلکہ ان کی رعایا بھی ہونی چاہئے تاکہ انہیں اپنے بادشاہ ہونے کا احساس زیادہ پُرکشش لگے۔ اس دور میں بادشاہ‘ بادشاہوں سے ٹکراتے تھے یعنی خالصتاً طاقت کی سیاست ہوتی تھی اور فاتح مفتوح کی پوری آبادی کو غلام بنا لیا کرتے تھے۔
زرعی دور کے بعد انسان مشین کے دور میں داخل ہوا یعنی صنعتی انقلاب برپا ہوا تو اس انقلاب کی وجہ سے شہر تیزی سے آباد ہونا شروع ہوئے۔ صدیوں پرانا زرعی کلچر چھوڑ کر لوگ تیزی سے شہروں کی طرف نقل مکانی کرنے لگے جہاں زندگی نسبتاً آسان، جدید اور تیز تھی۔ اس سارے انقلاب کا گڑھ یورپ بنا۔ برطانیہ دنیا کا پہلا ملک تھا جس کی شہری آبادی دیہی آبادی سے بڑھ گئی تھی۔ دنیا میں شہری آبادی کی جدوجہد کی بدولت ہی دنیا کی سیاست میں جمہوریت نے جنم لیا تھا۔ 1789ء میں فرانس کے انقلاب نے آزادی، اخوت اور مساوات کے نعرے کے ساتھ پوری دنیا بالخصوص یورپ میں جمہوریت متعارف کرائی۔ جمہوری انقلاب میں بادشاہوں کا ٹکرائو اپنے عوام سے ہوا اور یوں دنیا کی سیاست میں جمہور کا دور آ گیا۔ اس کے بعد دنیا کی سیاست اور معیشت میں ایک نیا انقلاب اشتراکیت کی شکل میں برپا ہوا۔ اگرچہ یہ نظریہ کتاب کی شکل میں 1867ء میں پیش کیا گیا تھا مگر اس کا پہلا عملی نمونہ 1917ء میں انقلابِ روس کی شکل میں سامنے آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے روس ایک عالمی طاقت بن گیا۔ اس معاشی و سیاسی انقلاب نے پوری مغربی دنیا کو ہلا کر ر کھ دیا۔ ''صرف جمہوریت سے ترقی‘‘ کے نظریے اور نعرے کو شدید دھچکا پہنچا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد روس اور امریکا اور اس کے اتحادیوں میں سرد جنگ کا آغاز ہو گیا۔ اس جنگ کو ''تیسری عالمی جنگ‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس جنگ میں تمام براعظم شریک تھے۔ یہ ایک خاموش جنگ تھی اور اسلحے سے زیادہ نظریات کی جنگ تھی۔ نظریاتی کشمکش نے دنیا کی کئی علاقوں کو جنگ میں بھی دھکیلا جن میں ویتنام اور افغانستان اہم ہیں۔ ویتنام میں امریکا جبکہ افغانستان میں روس کو شکست ہوئی۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکا واحد عالمی طاقت کے طور پر ابھرا لیکن تقریباً گزشتہ ایک دہائی سے چین امریکا کے مقابل کھڑا ہو چکا ہے چونکہ چین بھی نظریاتی طور پر ایک کمیونسٹ ملک ہے اس لئے چین امریکا کی کشمکش کو Revival of Cold War بھی کہا جا رہا ہے۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد 1990ء کی دہائی میں دنیا میں ایک نئے عالمی مسئلے نے سر اٹھانا شروع کیا اور یہ مسئلہ ماحولیات کا تھا جو آج کی دنیا کا سب سے بڑاچیلنج بن چکا ہے۔ شروع میں اس کو ''گرین ایشوز پالیٹکس‘‘ کہا گیا۔ اس مسئلے کی بنیادی وجوہات آبادی میں بے ہنگم اضافہ، شہری آبادی کا تناسب بڑھنا، دھواں دینے والے توانائی ذرائع اور شہروں میں کنکریٹ کا جنگل وغیرہ ہیں۔ اس کے باعث سب سے پہلے پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑا اور اس کو انسانیت کو درپیش ایک باقاعدہ خطرہ تسلیم کیا گیا، جس کے تحت Water Wars کا تصور پیش کیا گیا، یعنی آئندہ جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوا کریں گی۔ انسانی ارتقا کی منزل کا جہاں سے آغاز ہوا تھا‘ گھوم پھر کر انسان دوبارہ وہیں پہنچ گیا۔ صاف پانی کا بکثرت حصول‘ اب پھر انسانی بقا کے لیے سب سے بڑے چیلنج کے طور پر موجود ہے۔ پانی کے مسئلے نے جلد ہی عملی شکل اختیار کر لی اور اس وقت ایک درجن سے زائد ممالک میں پانی کے مسئلے پر جھگڑے چل رہے ہیں۔ اسی دوران زمین کے درجہ حرارت بڑھنے کی بازگشت بھی سنائی دی جسے گلوبل وارمنگ کا نام دیا گیا۔ اس بڑھتے درجہ حرارت کی وجہ سے گلیشیرز پگھلنے لگے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر یہ سب کچھ اسی طرح جاری رہا تو سطحِ سمندر بلند ہو جانے سے آئندہ کچھ سالوں میں ساحلی علاقے زیر آب آ جائیں گے۔ مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ ان گلیشیرز کے نیچے دبی نقصان دہ گیسیں ماحول کا حصہ بن کر انسانیت کے لیے مزید مسائل پیدا کریں گی۔ اسی طرح دنیا میں بارشوں کی مقدار میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ بے موسمی بارشیں ہونے لگی ہیں۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں درجہ حرارت صرف بڑھ نہیں رہا بلکہ موسموں میں شدت آتی جا رہی ہے۔ گرمیوں کے ساتھ ساتھ سردیاں بھی سخت ہو رہی ہیں اور برف باری نہ صرف وقت سے پہلے شروع ہو جاتی ہے بلکہ اوسط سے زیادہ ہوتی ہے جس سے نظامِ زندگی متاثر ہی نہیں بلکہ بسا اوقات مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔ اسی لئے اسے ماحولیاتی تبدیلی کے بجائے اب ماحولیاتی تباہی کہا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ جو عذاب نما عفریت حالیہ چند سالوں میں نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے اور جس کا شکار پاکستان سمیت تقریباً پورا جنوبی ایشیا ہے‘ وہ Smog کا خطرہ ہے۔ یہ زہریلی دھند اکتوبر کے آخر سے نومبر تک جاری رہتی ہے۔ اس کی وجہ سے صرف لاہور جیسے شہر میں سالانہ ایک لاکھ سے زائد لوگ ہلاک ہو رہے ہیں، ماہرین اس دورانیے کو پانچواں موسم قرار دے رہے ہیں، اگر اسے ہلاکت کا موسم قرار دیا جائے تو شاید زیادہ مناسب ہو گا۔
ابتدا میں ذکر ہوا تھا کہ بادشاہ زمین کے علاوہ آبادی بڑھانے میں دلچسپی لیتے تھے مگر اب وقت آ گیا ہے کہ حکمران کھلی زمین، صاف اور بکثرت پانی اور جنگلات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے ماحولیات کی اس مسلط شدہ جنگ کو دنیا نے دیگر جنگوں کی طرح لڑنا شروع نہیں کیا حالانکہ یہ صحیح معنوں میں سرد جنگ سے بھی زیادہ بڑی اور تشویشناک عالمی جنگ ہے کیونکہ تباہ کن موسموں، کم ہوتے جنگلات، پانی کی کمی اور سب سے بڑھ کر فضائی اور زمینی آلودگی کی وجہ سے یہ زمین ایک ڈوبتی، جلتی اور زخمی دھرتی ماں کی شکل اختیار کر چکی ہے ۔