'' کیا تم جانتے ہو ؟میں جانتا ہوں کہ تم نہیں جانتے‘‘۔ ایک انتہائی گہری سوچ والے بندے نے ایک بڑے‘ طاقتور اور صاحبِ اختیار بندے سے ملاقات کے دوران یہ جملہ کہا۔ صاحبِ اختیار شخص ناراض ہوتے ہوئے بولا کہ اتنے مشکل اور پیچیدہ الفاظ کے بجائے تم سادہ طریقے سے بات کرو۔ اس پر وہ دانا بولا ''میں جانتا ہوں کہ تم نہیں جانتے‘‘۔ بڑے آدمی نے جواباً کہا کہ کیا گھما پھرا کر بات کر رہے ہو‘ آسانی سے بات کیوں نہیں کرتے؟ وہ دانا بولا کہ حضور! آپ مکمل طور پر ایک انتہائی گمبھیر مشکل میں پھنس چکے ہیں اور آپ جانتے بھی نہیں کہ آپ مشکل میں پھنس چکے ہیں‘ اسی لئے میں نے آپ کو سوال نما انداز میں آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
قارئین کرام! یہ مکالمے کے الفاظ ایک ناول سے مستعار ہیں۔ یہاں ان کا مقصد، ایک بظاہر طاقتور نظر آنے والے ملک کی صورتِ حال بیان کرنا ہے جو ایک مکمل مشکل میں پھنس چکا ہے اور اسے اس کا علم بھی نہیں۔ یہ ملک ہمارا مشرقی پڑوسی بھارت ہے اور جس مشکل میں وہ پھنس چکا ہے‘ اس کو زیادہ گمبھیر مشکل اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کو اب تک اس مشکل کا ادراک نہیں ہے۔ سادہ لفظوں میں بیان کیا جائے تو بھارت چین کے خلاف امریکا کی پراکسی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ امریکا دنیا کی سب سے بڑی طاقت یعنی سپر پاور کی پوزیشن بہت تیزی سے کھوتا جا رہا ہے۔ اسی مہینے میں امریکا تاریخ میں پہلی دفعہ مالی طور پرڈیفالٹ ہونے جا رہا ہے۔ عالمی طاقت کے قرضے 28 ٹریلین سے زائد ہو چکے ہیں‘ یہ رقم امریکا کے ایک سال کی کل آمدنی یعنی جی ڈی پی سے زائد ہو چکی ہے۔ یہاں ایک اور بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ ہمارے ہاں بہت سے لوگ ایک کھرب کو ٹریلین سمجھ لیتے ہیں حالانکہ ایک ہزار ملین کا ایک بلین اور ایک ہزار بلین کا ایک ٹریلین ہوتا ہے، مطلب ایک ہزار ارب یا دس کھرب ہوں تو ایک ٹریلین بنتا ہے۔ اب آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ امریکا کی سالانہ آمدنی اور قرضے‘ دونوں کتنی بڑی رقم ہیں۔ امریکا جن ممالک کا مقروض ہے‘ ان میں جاپان کے بعددوسرا بڑا ملک چین ہے، جس کا امریکا نے ایک ٹریلین ڈالر سے زائد قرضہ ادا کرنا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ چین کے پاس ایسا ہتھیار موجود ہے کہ وہ کسی بھی وقت امریکا کو ایک بڑی آزمائش میں ڈال سکتا ہے۔
آگے بڑھتے ہیں؛ امریکا دنیا کے تیس سے زائد ملکوں کے تحفظ کا ضامن ہے، جس میں نیٹو کے وہ ممبرزیادہ اہم ہیں جو چھوٹے چھوٹے ممالک ہیں اور اپنے دفاع کیلئے محض امریکا پر انحصار کرتے ہیں۔ امریکا کی ترقی کی شرح کورونا وبا کے بعد سے ابھی تک سنبھل نہیں سکی اور کافی حد تک منفی میں جا رہی ہے جبکہ دنیا میں اس کا واحد مقابل چین تیزی کے ساتھ امریکا کی کل سالانہ پیداوار کے برابر ہی نہیں بلکہ اب اس سے آگے ہونے کے درجے پر پہنچ چکا ہے۔ یہ حیران کن تبدیلی 2025ء یا اس سے پہلے بھی روپذیر ہو سکتی ہے جبکہ عسکری طور پر چین پہلے ہی امریکا سے طاقتور ہو چکا ہے۔ امریکا کے برعکس چین دنیا میں عسکری مہم جوئی سے مکمل پرہیز کیے ہوئے ہے جبکہ امریکا تقریباً پوری دنیا میں عسکری، نیم عسکری یا دیگر طریقوں سے موجود ہے اور مداخلت کی عادت سے مجبور ہے۔ امریکا کا دفاعی بجٹ 750ارب ڈالر ہے جبکہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کا بجٹ ساتھ ملا لیں تو یہ ایک ٹریلین ڈالر بن جاتا ہے جو یقینی طور پر نہ صرف دوسروں کیلئے بلکہ خود امریکا کیلئے بھی ایک تباہی کی علامت ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ امریکا ہر طرح کے وسائل سے مالا مال ملک ہے، اور اسی بنا پر وہ کسی معاشی تباہی سے دوچار ہونے کے بعد بھی سنبھل سکتا ہے۔ لیکن سوال پھر یہی ہے کہ وہ کب یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ پوری دنیا بالخصوص مسلم اور مشرقی ممالک میں تھانیداری کا کردار ختم نہ سہی‘ کم ہی کر لے۔ اس طرح امریکا کچھ دے کر بہت کچھ بچا سکتا ہے۔ کچھ دینے سے مراد دیگر ممالک میں دخل اندازی سے گریز ہے جبکہ دوسری طرف اسے چین کے ساتھ اپنے جنگی تنائو کی روش کو بدل کر اس کی عالمی طاقت کی حیثیت کو بھی تسلیم کرنا ہو گا۔ اگرچہ امریکہ ایک طاقتور ملک ہے مگر یہ بات قابلِ غور ہے کہ اگر اس کی معیشت کا پہیہ پٹری پر نہیں آتا تو اس کو اپنے شہریوں کو گھر بیٹھے امداد دینا ہو گی اور یہ سلسلہ زیادہ عرصے تک نہیں چل سکتا، اس کی وجہ سے اندرونِ ملک ایک گھٹن کی فضا پیدا ہو سکتی ہے‘ اسی تناظر میں مظاہروں اور لوٹ مار کا خدشہ بھی موجود رہے گا۔
اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ امریکہ کی بالادستی دنیا میں کم ہوتی جارہی ہے مگر بھارت ابھی تک اس کے ہاتھوں استعمال ہو رہا ہے۔ افغانستان کی مثال لے لیں‘ بھارت صرف پاکستان کو نقصان پہچانے کیلئے وہاں سرمایہ کاری کرتا رہا۔ امریکی انخلا کے بعد بھارت کو وہاں سے دھویں سے بھی زیادہ تیزی سے غائب ہونا پڑا۔ بھارت کا ذکر اس لئے بھی ناگزیر ہے کہ وہ چین جیسی عالمی طاقت کے ساتھ بھی تنائو جاری رکھنے کی کوشش میں تیزی سے مار کھا رہا ہے۔ چین نے تاریخ میں پہلی دفعہ‘ ارونا چل پردیش، کشمیر اور ڈوکلام کے بعد بھارتی ریاست اتراکھنڈ میں بارا ہوتی کے علاقے میں اپنے سو کے قریب فوجی بھیجے۔ یہ سو فوجی 30اگست کو پانچ کلومیٹر تک انڈیا کے اندر گھس گئے اور کئی گھنٹے تک انڈیا کی بے بسی کا لطف اٹھانے کے بعد واپس چلے گئے۔ یہ تو وہ باتیں ہیں جو انڈین میڈیا رپورٹ کر رہا ہے‘ اصل حقیقت ابھی پردے میں ہے کیونکہ ابھی تک چین نے اس سے متعلق کوئی بیان دینا مناسب نہیں سمجھا۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس نے اس واقعے کو بیان نہ کرکے بھارت کو کوئی وقعت نہیں دی۔ بھارت کو اس سے پہلے‘ گزشتہ سال‘ نیپال کے ہاتھوں بھی شرمندگی اٹھانا پڑی تھی جب اس نے بھارت کے تقریباً چار سو کلومیٹر کے علاقے پر اپنا حق جتاتے ہوئے اپنے ملک کا نیا نقشہ جاری کر کے اپنی پارلیمنٹ سے منظور بھی کرا لیا تھا۔ بھارت اس ساری صورتحال میں تاحال بالکل بے بس ہے۔ چین اس سے پہلے لداخ میں کئی کلومیٹر تک کے علاقے پر قبضہ کر چکا ہے۔ لداخ دراصل وادیٔ کشمیر کا حصہ ہے۔ چین اور بھارت کی سرحد تقریباً ساڑھے تین ہزار کلومیڑ طویل ہے، چین کی حالیہ مداخلت کے بعد پوری سرحد ہی نیم جنگی صورت اختیار کر چکی ہے۔ بھارت کے آرمی چیف نے ایک بار پھر چین کے مقابل اپنی بے بسی کا اقرا رنما اظہار ایک تشویشی بیان دے کر کیا ہے۔ واضح رہے کہ چین کے فوجیوں کی دراندازی اور کئی گھنٹے پانچ کلومیٹر تک بھارت کے اندر گزارنے اور ایک پل تباہ کرنے کے واقعے پربھارت نے کوئی جوبی وارننگ تو کجا‘ اس کی شدید مذمت بھی نہیں کی۔
دوبارہ ذکر معاشی مشکلات کے بعد امریکا کے محدود ہوتے اور چین کے بڑھتے عالمی کردار کا‘ اب دنیا کے حالات تیزی سے تبدیل ہوں گے، امریکی حلیفوں کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونا ہو گا یا پھر وقت آنے پر وہ بھی چین کے ساتھ تعلقات استوار کر لیں گے‘ سوال یہ ہے کہ ایسے میں بھارت کیا کرے گا جو تا حال چین سے مہم جوئی کی پوزیشن سے پیچھے نہیں ہٹ رہا۔ ایسی صورتحال میں بھارت اپنی اندرونی علیحدگی کی تحریکوں، غربت، ریاستوں کے باہمی جھگڑوں سمیت دیگر مشکلات کے سامنے گھٹنے ٹیکتا نظر آ رہا ہے لیکن ابھی تک اسے اس بات کا ادارک نہیں ہوا۔ شروع کی سطور کو اب دوبارہ سمجھنے کی کوشش کریں۔