مستقبل کا تیل ‘پانی ہے

مارچ کا مہینہ عالمی سطح پر منائے جانے والے دنوں کے حوالے سے سب سے اہم اس لئے تصور ہوتا ہے کہ اس میں چند دن ایسے آتے ہیں جن کو منایا جانا انتہائی ضروری ہے ۔اس ماہ ویسے تو عورتوں کے عالمی دن کا شور سب سے زیادہ ہوتا ہے مگر 21مارچ کو جنگلات کا عالمی دن اور سب سے بڑھ کر 22مارچ کا دن ہے جو پانی کا عالمی دن ہے اور اس کو 1993ء سے منایا جارہاہے۔جنگلات کی اہمیت تو واضح ہے کہ سانس لینے کیلئے آکسیجن بنیادی ضرورت ہے اور اس کا واحد ذریعہ درخت ہیں۔اس کے بعد پانی کی باری آتی ہے ۔ پانی کے لفظ کا استعمال ایک مفت میں اور با آسانی ملنے والی چیز کے طور پر کیا جاتا تھالیکن اب بین الاقوامی سٹاک مارکیٹ میں ایک نئی Commodityکا اضافہ ہو چکا ہے ۔ یہ تیل کے بعد Liquidشکل میں پائی جانی والی دوسری چیزہے جس کی تجارت شروع ہوئی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس کی تجارت تیل کی تجارت کے پیچھے چھوڑ دے گی ‘ یہ نئی برائے فروخت چیزپانی ہے ۔ تیل کو مات دینے کی وجہ یہ ہے کہ تیل کے متبادل کئی ہیں مگر پانی کا متبادل صرف پانی ہے۔
دنیا میں ملکوں کی دولت اور اہمیت میں بھی جس نئے Variable کا اضافہ ہو چکا ہے وہ پانی ہے ‘بلکہ یہاں تک کہا جاتا ہے کی مستقبل میں لوگ ہجرت سے پہلے ممکنہ منزل میں جس چیز کو مد نظر رکھاکریں گے وہ پانی کی دستیابی اور اس پانی کا معیار ہوگا‘بلکہ کئی علاقوں کے حوالے سے یہ وقت آ بھی چکا ہے۔جس طرح جنوبی ایشیا کے دورے پر آنے والے شہریوں کو جو تجاویز دی جاتی ہیں ان میں سے ایک بڑی وارننگ نما تجویز یہ ہوتی ہے کہ کھلے نل سے پانی مت پینا۔ماہرین کا ماننا ہے کہ پانی پگھلی ہوئی چاندی کی طرح ہے اور جلد بین الاقوامی تجارت میں چاندی کی دھات کو مات دے دے گا ۔
اس وقت دنیا میں سوا دو ارب لوگوں کو پانی تک براہ راست رسائی حاصل نہیں ہے ۔ اسی طرح محفوظ پانی کا تصور بھیانک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔Safe Waterیا محفوظ‘ صحت مند پانی کے معیار کو لیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی آبادی کی کثرت اس سے محروم ہے ۔اپنے ملک ہی کی بات کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ 75فیصد سے زائد علاقوں کا پانی صحت بخش نہیں ہے ‘اور ماضی میںصاف پانی والے علاقوں کا پانی بھی آلودہ ہوتا جا رہا ہے ۔اس سلسلے میں لاہور شہر سر فہرست ہے۔ اس کی بڑی وجہ اس شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہے۔ شہر کے اندر رہائشی کالونیاں تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔ جب زیر کاشت علاقے کی جگہ کنکریٹ کی عمارتیں تعمیر ہوں تو بارش کا پانی زمین میں جذب نہیں ہو پاتاجس کے نتیجے میں زیر زمین پانی کی سطح نیچے گر تی جاتی ہے اور پانی ناپید ہوتاجاتا ہے۔ اس طرح زیر کاشت علاقوں میں مصنوعی کھاد کا استعمال اتنی بے دردی سے کیا جاتا ہے کہ اس کے اجزا زمین میں جذب ہوکر پانی میں خطرناک کیمیائی اجزاشامل کر کے پانی کو آلودہ کر دیتے ہیں ۔ لاہور ‘جو کبھی باغوں کا شہر کہلاتا تھا‘آلودگی کے اعتبار سے دنیا میں کئی بار سر فہرست آچکا ہے۔ فضائی آلودگی بارش ہونے پر واپس زمین پر آجاتی ہے جس سے زمین اور پا نی دونوں کی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ واضح رہے کہ دنیا کے شہر پانی کی آلودگی اور عدم دستیابی کے حوالے سے سب سے زیادہ خدشات کا شکار ہیں۔ اسی طرح زیر کاشت علاقوں میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے کسان برساتی نالوں کا گندا پانی بھی فصلوں اور سبزیوں کے کھیتوں کو لگادیتے ہیںجس سے اگنے والی فصلیں یقیناغیر محفوظ ہوتی ہیں۔آلودہ پانی کی وجہ سے سرگودھا اور فیصل آباد ڈویژنوں میں اگنے والا چاول ہر گز لذت اور Stuffکے اعتبار سے کھانے کے قابل نہیں رہا‘ یہی صورت حال گندم اور سبزیوں کی ہوتی ہے ‘ جبکہ ان علاقوں کے اکثر لوگ Water Bornبیماریوں کا شکار ہوتے ہیں اسی لئے ان علاقوںکے لوگوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ اب روٹی‘ کپڑااور مکان کی بنیادی ضرورتوں کے بجائے صاف پانی ‘ہوا اور دھوپ یعنی اپنی بقا کے بنیادی اسباب کیلئے ترس رہے ہیں۔یہی مسئلہ بتدریج پوری دنیا کا لاحق ہوتا جا رہا ہے اور اگر پوری دنیا کا ذکر کریں تو جنوبی ایشیا ان مسائل میں سرفہرست ہے۔واضح رہے کہ اس خطے کی آبادی میں سالانہ اڑھائی کروڑ سے زیادہ کا اضافہ ہوتا ہے جو پوری دنیا کا0 3 فیصدہے۔
کسی بھی انسان کے معیار اور حوالے سے بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کیلئے پانی وہی حیثیت رکھتا ہے جو ایک گاڑی کیلئے تیل اہمیت رکھتا ہے۔ ہر انسان کو اپنے جسم کی حرکت برقرار رکھنے اور زندہ رہنے کیلئے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ پانی اس خوراک کو ہضم کرنے کیلئے اہم ترین جزو ہے ۔ اس کے ساتھ وہ خوراک میں جو بھی دال‘ سبزی‘اور اناج کھاتاہے اس کو اگانے کیلئے دھوپ اورمٹی کے بعد پانی تیسرا لازمی جزو ہے۔جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ زمیں میں اگنے والی ہر چیز کے معیار کو طے کرنے والا اہم ترین عنصر پانی ہے ۔اسی طرح گوشت یا دودھ کے معیار کا تعین بھی پانی ہی کرتا ہے ۔سب سے بڑھ کر یہ کہ انسانی جسم کا 70 فیصد پانی سے بنا ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ آپ کی صحت کیسی ہے اس کا تعین پانی کرتا ہے۔ ہمارے ہاںمصنوعی کھادوں کا استعمال چونکہ بہت زیادہ ہوتا ہے اس لئے اب بہت سے علاقوں میں زیر زمین پانی میں آرسینک نامی زہریلا مادہ پانی میں شامل ہو رہا ہے۔اس کی وجہ سے پانی کا ذائقہ اور معیار دونوں خراب ہو رہے ہیں۔
ہم موازنہ کر رہے ہیں پانی اور تیل کا اور اس ضمن میں تذکرہ کرتے ہیں تیل کی اقسام کا تو مٹی کا تیل ‘ ڈیزل ‘پٹرول اور ہائی اوکٹین اس کی اہم اقسام ہیں ۔بالکل اسی طرح اب پانی کی اقسام بھی مارکیٹ میں موجود ہیں ۔ تالابوںسے حاصل کردہ پانی‘ خام یعنی غیر محفوظ پانی ‘ سادہ پانی ‘فلٹر شدہ پانی‘ پہاڑی چشموں سے حاصل کردہ پانی اورمنرل پانی اس کی بڑی اقسام ہیں ۔ واضح رہے کی پانی کی ان اقسام کی قیمت بھی تیل جتنی ہی نہیں بلکہ تیل سے بھی زیادہ ہے ۔ پاکستان جیسے ملک کی اہم ترین بالخصوص سیاسی شخصیات کی بڑی تعدا د درآمدشدہ اعلیٰ قسم کا پانی نوش فرماتی ہے ۔پانی کی اعلیٰ ترین قسموں میں سے اوسط درجے کے پانی کی ایک لٹر کی بوتل کی قیمت 14امریکی ڈالر ہے یہ قیمت معیار کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے ۔مگر آپ بلا وجہ پریشان نہ ہوں صرف پانی کیلئے مٹی کابنا گھڑا یا کولر خرید لیں یہ پانی کو محفوظ بناتا ہے اور باسی ہو کر بیکٹیریا پیدا ہونے سے بچاتا ہے ۔واضح رہے کہ گھر پرپانی کی بڑی بوتل میں پڑا پانی‘بوتل کھلنے کے بعد باسی ہوجاتا ہے اور اس میں بیکٹیریا پیدا ہو جاتے ہیں‘یہ محفوظ نہیں رہتا اس لئے پلاسٹک کی بوتل کو استعمال کرنے کے بجائے گھر میں واٹر فلٹر لگانے کے علاوہ آپ پانی کو ابال کر مٹی کے گھڑے یا کولر میں ڈال کر پانی کو محفوظ رکھ سکتے ہیں ۔ راقم یہ بات پہلے بھی لکھ چکا ہے کہ ذہن نشین کر لیں کہ پانی پیتے ہوئے آپ کو اندازہ ہونا چاہیے کہ آپ کیا پی رہے ہیں۔ جیسے آپ یہ دیکھتے ہیںکہ گاڑی میں آپ نے کیا ڈلوایا ہے‘ ڈیزل ‘پٹرول‘یا ہائی اوکٹین‘ اسی طرح پانی بھی مختلف معیار رکھتا ہے۔کہتے ہیں کہ مستقبل قریب میں صاف اور معیاری پانی کا مقام کھانے کی اشیا پر لگنے والے چاندی کے ورق سے بھی زیادہ ہوگا اورملکی اور عالمی ہجرت کی اگلی بڑی وجہ ماحول کے ساتھ اس علاقے میں پانی کا معیار اور مقداربھی ہو گا۔ جیسا کہ پانی کے انسانی خوراک میں بنیادی کردار کاذکر ہوا ہے‘اسی لئے انسان کیلئے زندہ رہنے اور نقل وحرکت کے حوالے سے مستقبل کا تیل ‘پانی کو کہا جا رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں