مئی کا مہینہ جہاں گرمی کے باقاعدہ آغاز کا اعلان ہوتا ہے‘ وہیں یہ دو اہم تاریخی حوالوں سے بھی بہت کچھ یاد دلاتا ہے۔ یہ دونوں تاریخی حوالے مغرب‘ بالخصوص برطانیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ پہلے ان حوالوں کی بات کر لیتے ہیں تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو جائے۔ 4 مئی ٹیپو سلطان کی شہادت کا دن ہے اور 5 مئی دنیا کے سب سے بڑے سماجی سائنس دان‘ کارل مارکس کا جنم دن ہے۔ برطانیہ ان دونوں شخصیات سے بہت زیادہ ناپسندیدگی دکھاتا ہے۔ 1799ء میں غداروں کی وجہ سے ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد ہی عملی طور پر انگریزوں کا راج برصغیر پر مکمل ہوا تھا۔ کارل مارکس‘ جس کا جنم 5 مئی 1818ء کو ہوا‘ نے ستمبر 1867ء میں عالمی سطح پر معیشت، سیاست اور سماجیات کو یکسر تبدیل کر دینے والی اپنی کتاب ''داس کیپیٹل‘‘ پہلی دفعہ شائع کرائی تھی۔
پہلے ذکر ٹیپو سلطان کا‘ جن کی ریاست میسور موجودہ بھارت کے جنوب مغرب میں واقع تھی۔ ایک طرف اس ریاست میں واقع بندر گاہ انگریزوں کے لیے بہت اہم تھی اور دوسری طرف اس آزاد ریاست کے ہوتے ہوئے انگریز برصغیر پر اپنے مکمل اقتدار کا خواب پورا نہیں کر پا رہے تھے‘ اس طرح انگریزوں کی حکومت واضح طور پر چیلنج ہونے کی وجہ سے ان کی دھاک نہیں بیٹھ رہی تھی۔ ٹیپو سلطان کی شہرت عالمی نوعیت کی تھی۔ آپ کو شاید عجیب لگے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس دلیر لیڈر کا فرانس کے نامور جرنیل نپولین بونا پارٹ سے مسلسل رابطہ رہا۔ ان کی خط و کتابت سے اندازہ ہوتا ہے کہ نپولین نے ٹیپو سلطان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انگریزوں کے خلاف جنگ میں ان کی مدد کو آئے گا مگر نپولین کے کمزور بحری بیڑے کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو سکا۔ البتہ ایسے شواہد بھی ملتے ہیں کہ نپولین کے جرنیل ٹیپو سلطان کی فوج کو ٹریننگ دیا کرتے تھے۔ اسی طرح فرانس کی لوہا پگھلانے اور جنگی آلات بنانے کی ٹیکنالوجی میسور کی ریاست کو خصوصی طور پر فراہم کی گئی تھی۔ انگریز ٹیپو سلطان سے اس قدر خائف تھے اور ذہنی طور پر ان سے اتنی نفرت رکھتے تھے کہ انہوں نے ٹیپو کی شہادت کے بعد شکار کی صورت میں شیروں کا قتلِ عام کیا۔ اسی طرح انگریز اپنے مقامی نوکروں کا نام بھی ٹیپو رکھتے تھے۔ ٹیپو سلطان کے وزیر خوراک کو ''خانساماں‘‘ کا نام دیا جاتا تھا‘ لہٰذا انگریزوں نے اپنے باورچیوں کو یہ نام دے دیا اور آج تک یہی چلا آ رہا ہے۔ ایک بہت اہم بات یہ کہ انگریزوں اور ریاست میسور کے مابین چار جنگیں ہوئی تھیں جن کو ''اینگلو‘میسور جنگیں‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس بات ہی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ انگریزوں کو ٹیپو کے خلاف کتنی سخت جدوجہد کرنا پڑی تھی۔ انگریزوں کی میسور سے پہلی جنگ 1767ء میں ہوئی تھی جو دو سال تک جاری رہی۔ یہ جنگ سلطان حیدر علی کے دور میں لڑی گئی۔ اس کے بعد تین مزید جنگیں لڑی گئیں۔ یوں کل ملا کر 32 سال تک مسلسل ہزیمت اٹھانے کے بعد انگریزوں نے میسور کے ایک جرنیل میر صادق کو اپنے ساتھ ملایا اور پھر دھوکے سے انگریز فوجوں کو قلعے میں داخل کر کے اپنا ہدف حاصل کیا۔
اب کچھ بات اس تاریخی شخصیت کے ذکر کی۔ آپ خود اندازہ کریں کہ آپ نے چار مئی کو کتنی بار شیرِ میسور کی شہادت کا تذکرہ سنا؟ اسی طرح کتنے ڈرامے یا فلمیں اس موضوع پر بنے ہیں؟ شاید بلکہ یقینا اس کی ایک بڑی وجہ برطانوی مخالفت ہے۔ مطلب یہ کہ چونکہ اس بہادر سلطان نے برطانوی راج کے خلاف جہاد کیا تھا‘ اس لیے اس کا تذکرہ کم کم ہی ملتا ہے۔ اگر آپ مطالعہ پاکستان یا تاریخِ پاکستان کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو وہاں بھی اس سپوت کو اس کے شایانِ شان جگہ نہیں ملی۔ میں نے تاریخ کے بہت سارے طالب علموں سے سوال کیا کہ کیا وہ جانتے ہیں کہ میسور کی ریاست بھارت کے کس حصے میںہے تو نوے فیصد افراد اس بات کا جواب دینے سے قاصر تھے۔ حالیہ دنوں میں بھی ٹیپو سلطان کا ایک حوالہ سننے کو ملا جو زیادہ اچھا نہیںہے۔ عمران خان کی حکومت ختم ہونے پر امیرِ جماعت اسلامی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ''ٹیپو سلطان بننے چلے تھے مگر بہادر شاہ ظفر بن کر رہ گئے‘‘۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر قیامِ پاکستان کے بعد کی کوئی تشبیہ استعمال کر لی جاتی۔
اب ذکر مئی کی دوسری شخصیت یعنی کارل مارکس کا جس نے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا معاشی و سیاسی نظریہ (Paradigm) پیش کیا۔ اس نظریے کا ایک بنیادی نکتہ کہ 'دنیا میں غربت کی وجہ وسائل کا نہ ہونا نہیں بلکہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے‘ آج کی دنیا میں ایک عالمگیر حقیقت بن چکاہے۔ اس حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے صرف ایک فیصد لوگ دنیا کی 83 فیصد دولت پر قابض ہیں۔ دنیا میں اس قدر عدم معاشی مساوات ہے کہ جہاں ایک طرف سری لنکا جیسا ملک کووڈ کی عالمی وبا کے سبب دیوالیہ ہو گیا‘ وہیں دنیا کے دس امیر ترین افراد کی دولت اس عرصے میں دو گنا تک بڑھ گئی۔ واضح رہے کہ یہ اعداد و شمار عالمی شہرت یافتہ ادارے آکسفم کے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے نے 1990 کی دہائی میں ایک عالمی سروے کرایا تھا کہ ان ایک ہزار سالوں (ملینیم) کی سب سے پُراثر شخصیت کون سی ہے تو اکثریت نے جواب میں کارل مارکس ہی کا نام لیا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس سروے میں آئن سٹائن اور آئزک نیوٹن جیسے سائنسدانوں کے نام بھی شامل تھے۔ دنیا میں کارل مارکس کے نظریات پر مبنی سب سے پہلا انقلاب 1917ء میں روس میں آیا تھا جبکہ 1921ء میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کا سنگِ بنیاد رکھا گیا تھا جس نے 1949ء میں چین میں انقلاب برپا کر کے اقتدار سنبھالا تھا۔ آج اسی پارٹی کی سربراہی میں چین دنیا کی عالمی طاقت بن چکا ہے جس نے امریکا کی عالمی حاکمیت کو چیلنج کر رکھا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ہو جائے کہ فی کس آمدنی اور قوتِ خرید کی بنیاد پر چین امریکا پر سبقت لے چکا ہے۔ اگرچہ سالانہ کل آمدن کی بنیاد پر امریکا اب بھی پہلے نمبر پر ہے لیکن توقع کی جا رہی ہے کہ اس بنیاد پر بھی چین آئندہ پانچ سالوں میں امریکا کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ اس صورت میں تقریباً تین صدیوں کے بعد دنیا کی سب سے بڑی یعنی پہلے نمبر کی معیشت کا درجہ (مغل سلطنت کے بعد) واپس ایشیا میں آ جائے گا۔ واضح رہے کہ امریکا سے پہلے سب سے بڑی عالمی معیشت کا ٹائٹل برطانیہ کے پاس تھا۔
کارل مارکس سے برطانیہ کی مخاصمت کی بڑی وجہ اس کے پیش کردہ نظامِ اشتراکیت کا مخالف سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کی ابتدا برطانیہ سے ہوئی تھی۔ معاملہ یہ ہے کہ کارل مارکس نے اپنے نظریات سرمایہ دارانہ نظام سے ٹکر لیتے ہوئے پیش کیے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اس نے دنیا کی اکثریت کی غربت کی وجہ سرمایہ دارانہ نظام کو قرار دیا تھا۔ اس لیے اشتراکیت کے افکار سرمایہ دارانہ نظام سے مختلف ہی نہیں بلکہ متضاد اور متصادم ہیں۔ مغربی دنیا نے امریکا کی سربراہی میں سرد جنگ اشتراکیت کا دنیا میں پھیلائو روکنے ہی کی کیلئے لڑی تھی۔ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی‘ آج کے دور کو نئی سرد جنگ کہا جاتا ہے جو امریکا اور چین کے درمیان لڑی جا رہی ہے۔ اس کشمکش کی بڑی وجہ بھی اشتراکیت کا نظام ہے کیونکہ چین بھی سرکاری سطح پر ایک کمیونسٹ ملک ہے۔ اگرچہ اس نے اس نظام میں سرمایہ دارانہ نظام والی بہت ساری تبدیلیاں کر دی ہوئی ہیں جس کی سب سے بڑی مثال چینی معیشت میں پرائیویٹ سیکٹر کا غالب ہونا ہے مگر چین والے آج بھی کارل مارکس کا نام اپنے پیشوا کے طور پر لیتے ہیں۔
ٹیپو سلطان ہوں یا کارل مارکس‘ برطانیہ بشمول مغربی دنیا کی دونوں سے مخاصمت رہی ہے۔ پاکستان کے بننے کے بعد یہاں کی دائیں بازو کی سبھی جماعتیں اشتراکیت کے خلاف مہمیں چلاتی رہی ہیں۔ اس سلسلے میں مولانا مودودی کا مقام نمایاں ہے جس کے بیانات سے اس دور کے اخبارات بھرے پڑے ہیں لیکن پتا نہیں کیوں آج سراج الحق صاحب نے عمران خان کی مخالفت میں ٹیپو سلطان کا نام استعمال کیا، حالانکہ ٹیپو سلطان ہو یا کارل مارکس حتیٰ کہ عمران خان بھی‘ ان سب کی شہرت مغربی استعمار کے مخالف کے طور پر ہے۔