بھلا یا برا‘ ترقی یا تباہی ؟

''ہم جب بھی ماضی کے حوالے سے رشتوں کی مٹھاس، لوگوں کے حسنِ سلوک، اشیا کے خالص پن، ماحولیاتی تازگی وغیرہ کی بات کرتے ہیں تو ساتھ ہی دو لفظوں میں اس کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ ''بھلے وقتوں‘‘ کی بات ہے۔ اس جملے میں دراصل ایک خاص قسم کا دکھ شامل ہوتا ہے‘ وہ یہ کہ ہر گزرا ہوا سال یا زمانہ ہمیں بھلا محسوس ہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بھلے سے برے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس لیے یہ دور جسے ہم ترقی یافتہ کہتے ہیں‘ یہ بھلا نہیں برا ہے اور یہ ترقی نہیں تباہی ہے‘‘۔ یہ بات دھوتی‘ کرتے میں ملبوس استادِ محترم نے ایک درخت کے نیچے بیٹھے‘ مٹی کے گھڑے میں سے پانی کا گلاس نکالتے ہوئے کی۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ اسی موضوع پر کچھ مزید روشنی ڈالیں۔ اس پر استادِ محترم نے کہا: بھئی اب تو روشنی بھی خالص نہیں رہی۔ روشنی بھی خالص و غیر خالص ہوتی ہے؟ میں سوچنے لگ گیا۔ اس پر وہ وضاحت کرتے ہوئے بولے کہ ہمارے جیسے ملکوں میں اتنی آلودگی ہو چکی ہے کہ اب سورج کی کرنیں تک آلودہ ہو چکی ہیں۔ اس کی وجہ سورج نہیں بلکہ ہماری فضا میں ہماری اپنی پیدا کردہ آلودگی ہے‘ جس کی وجہ سے اب دھوپ کی رنگت تک متاثر ہو چکی ہے۔ یقین نہ آئے تو کبھی کسی دور دراز پہاڑی علاقے میں جا کر صاف شفاف آسمان اور چمکتی دھوپ کو دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہو۔ اگرچہ وہ بھی اس آلودگی سے مکمل پاک نہیں ہوتے مگر وہاں اس کے اثرات خاصے کم ہوتے ہیں۔ ایسا ہی نظارہ شہر میں اس وقت کیا جا سکتا ہے جب موسلا دھار بارش کے بعد مطلع صاف ہوا ہو۔ اس کے بعد چائے کی پیالی آگئی تو بولے: بے دھڑک ہو کر پیو‘ یہ کیمیکل والے دودھ سے نہیں بنی بلکہ اپنی موجودگی میں گائے سے حاصل کردہ دودھ سے بنائی گئی ہے۔
باقاعدہ گفتگو شروع ہوئی تو میں نے کہا: پہلے اس چائے کے مسئلے کا کوئی حل بتا دیں۔ اپنے مخصوص انداز میں بولے: حل بہت سادہ ہے! بیرونِ ملک سے دس لاکھ گائیں منگوائیں اور دیہات کے لوگوں میں قرض کی شکل میں تقسیم کر دیں۔ ایک طرف لوگوں کو روزگار ملے گا اور دوسری طرف شہر کے لوگوں کو اصلی مطلب خالص دودھ۔ میں نے کچھ حساب کتاب کرتے ہوئے کہا کہـ تقریباً سو ارب روپے خرچ ہوں گے۔ استاد نے جواب دیا: سبسڈیز بھی تو دیتے ہو نا! یہ تو پھر ایک قرض ہے، اور اگر کوئی قرض کی قسطیں واپس نہ کرے تو گائے واپس لے لیں۔ اس سے اچھی سرمایہ کاری اور کیا ہو گی؟ دس لاکھ گائیوں کا مطلب ہے اوسطاً ایک کروڑ سے ڈیڑھ کروڑ لیٹر تک دودھ۔ میں نے سوال کیا: گائیں ہی کیوں‘ بھینسیں کیوں نہیں؟ بولے: گائے دودھ زیادہ دیتی ہے اور اس کا دودھ زود ہضم بھی ہوتا ہے۔ خاص طور پر شہری لوگوں کیلئے‘ جو جسمانی مشقت سے میلوں دور جا چکے ہیں‘ یہ بہت مفید ہے۔ اسی طرح ان گائیوں کی افزائش سے مزید گائیں پیدا ہوں گی اور دودھ کی پیداوار بڑھتی جائے گی۔ اس کے بعد استاد نے ایک بہت اہم بات کی۔ کہا: اگر آپ لوگوں کو ماہانہ پیسے دیتے رہیں گے تو وہ کبھی بھی اپنے پائوں پر کھڑے نہیں ہو سکیں گے۔ انہوں اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے لیے اسی طرح کے منصوبے بنانا ہوں گے۔ ایک بات جو سب سے اہم ہے‘ وہ یہ کہ اس منصوبے سے آپ کو جعلی دودھ سے چھٹکارا مل جائے گا۔ میں نے شہروں کے حوالے سے بات آگے بڑھانا چاہی تو استاد نے اشارہ کر کے خاموش رہنے کا کہا اور اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولے: شہروں کے اندر یا قریبی علاقوں میں اگر گائیں رکھی جائیں تو ایک اور بھی فائدہ ہو گا، وہ یہ کہ روزانہ کی بنیاد پر جتنا سبزی اور پھلوں کے چھلکوں کا کچرا پیدا ہوتا ہے‘ وہ ان کی خوراک کی ضروریات کو بخوبی پورا کر سکتا ہے۔ اس وقت شہروں کی انتظامیہ اس کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے کئی کئی کلومیٹر کا سفر کرتی ہے، اس طرح وقت اور فیول کی بھی بچت ہوگی اور بظاہر جو کوڑا سمجھا جاتا ہے‘ وہ ان جانوروں کی خوراک بن جائے گا۔
پھر کہنے لگے: بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی! دودھ سے آپ مکھن اور گھی بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ بات میں اس لیے کر رہا ہوں کہ آئے روز جو ٹی ٹونٹی کرکٹ کے رنز کی طرح گھی کی قیمت نئے نئے ریکارڈ بنا رہی ہے‘ اس مسئلے پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی۔ میں نے کہا:اس کی تھوڑی وضاحت کر دیں۔ استادِ محترم بولے: اگر آپ پانچ کلو دودھ کا مکھن نکالیں تو ایک کلو مکھن آرام سے بن جاتا ہے۔ اب اس مکھن کو اپنے استعمال میں لائیں، مطلب اس میں سے لسی مت نکالیں، یہ زود ہضم بھی ہوتا ہے اور ذائقے میں بھی لذیذ ہوتا ہے۔ اگر گائے کا دودھ آپ نے سو روپے کلو میں حاصل کیا ہو تو آپ کو پانچ سو روپے میں ایک کلو خالص مکھن مل جائے گا۔ اب اگر بازار میں بکنے والے بناسپتی گھی کی قیمت کا حساب لگا ئو تو یہ مکھن تمہیں سستا پڑے گا۔ اور اگر سستا نہ بھی ہو تب بھی یہ بات یاد رکھو کہ یہ خالص ہوگااور اس کا بازار میں بکنے والے گھی کے معیار سے کوئی موازنہ نہیں بنتا۔ مزید کہا: اگر تمہارے ذہن میں سو روپے فی کلو میں گائے کا دودھ حاصل کرنے کی بات اٹکی ہوئی ہے تو یاد رکھو! یہ کام تب بہ آسانی ہو جائے گا جب آپ دس لاکھ گائیں ملک کی زرعی معیشت کا حصہ بنائیں گے۔ آخری بات یہ کہ لاہور جیسے شہر میں اس وقت بھی گائے کا خالص دودھ ایک سو بیس‘ تیس روپے میں مل جاتا ہے۔ اس قیمت میں اس سے حاصل ہونے والا مکھن بازار کے گھی کی قیمت ہی میں پڑتا ہے۔
میں یہ ساری گفتگو سن کر کچھ دیر خاموش رہا، پھر موضوع بدلتے ہوئے کہا: آلودگی کا کیا حل ہے؟ بولے: وہ حل بھی بہت آسان ہے۔ میں نے تھوڑا جوشیلے انداز میں کہا: لوگ مر رہے ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ بہت آسان حل ہے۔ اس پر استاد نے کہا کہ سب سے پہلے سڑکوں پر چلنے والی ٹریفک کو پابند کریں کہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو بھاری جرمانہ ہو گا۔ میں نے کہا: لوگ جرمانہ دے دیں گے۔ استادِ محترم مسکرائے اور بولے کہ پہلی دفعہ گاڑی کو جرمانہ‘ دوسری دفعہ گاڑی بند۔ میں نے کہا: یہ کافی سخت سزا ہے۔ بولے: اگر بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں کمر توڑ اضافہ سخت فیصلہ کہلا سکتا ہے تو دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو بند کرنا اس کے مقابلے میں قدرے قابلِ فہم اور درست فیصلہ ہے۔ اور پہلے یہ بات پوری طرح سمجھ لو۔ شہروں کے اندر اور باہر ورکشاپس کا ایک جال بچھا کر بند کی جانے والی گاڑیاں وہاں بجھوا کر ان کی ٹیوننگ کرائی جائے اور مالک سے جرمانے کے علاوہ گاڑی کی مرمت پر آنے والی لاگت بھی وصول کی جائے۔ میں نے کہا: اگر مؤثر مہم چلائی جائے تو بھی یہ معاملہ ٹھیک ہو سکتا ہے۔ اس پر وہ قدرے غصے میں بولے کہ جتنے پیسے تم اشتہارات پر خرچ کرو گے‘ اس سے پتا نہیں کتنی گاڑیوں کی مفت ٹیوننگ کروا سکتے ہو۔ ویسے بھی جب تک سزا اور جزا کا نظام لاگو نہیں کرو گے‘ بہتری نہیں بلکہ صرف تباہی آئے گی۔ آلودگی پید کرنے والی گاڑیوں کے بعد اسی طرز پر اینٹیں بنانے والے بھٹوں اور صنعتی کارخانوں کو بھی آلودگی پیدا کرنے سے روکا جائے تو آلودگی کا مسئلہ نوے فیصد تک حل ہو جائے گا۔
میں نے اس کے بعد مزید کوئی بات کرنے کے بجائے عرض کی کہ اس نشست کو ختم کرنے والے الفاظ و خیالات کا اظہار بھی کر دیں۔ بولے: نشست ختم نہیں بلکہ مکمل کرنے والے الفاظ کہو۔ میاں! بات یہ ہے کہ اس دور میں اب بات روٹی، کپڑا اور مکان سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے۔ اب مسئلہ صاف یا معیاری روٹی کا ہو چکا ہے، مطلب جو بندہ سکت و استطاعت رکھتا ہے اور غذا کھا رہا ہے‘ وہ اب غیر معیاری ہی نہیں بلکہ جعلی اور مصنوعی غذا کھا رہا ہے۔ اسی طرح اب بات روٹی کے علاوہ صاف ہوا اور پینے کے قابل پانی کی بھی ہو رہی ہے، وہ وقت بھی سروں پر آن پہنچا ہے کہ لوگ اب آکسیجن کے سلنڈر بھی بازار سے خریدا کریں گے اور وہ وقت زیادہ دور نہیں‘ اکتوبر کے مہینے کا انتظار کرو جب سموگ آئے گی۔ اسی لیے کہتا ہوں کہ ترقی کے نام پر پھیلتی تباہی کو روکو اور اس تباہی کو مکمل ہونے سے پہلے روک لو‘ اسی میں بہتری ہے، ابھی معاملہ کنٹرول کیا جا سکتا ہے‘ بعد میں سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں ہو پائے گا۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھا تو فوراً بولے: اپنے کرتوت بدلو‘ مطلب انہیں بہتر کرو، ورنہ تباہی ہی تباہی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں