The king is dead, long live the king! ایک روایتی اعلان ہے جو بادشاہی نظام کے حامل ممالک میں بادشاہ کے انتقال پر کیا جاتا ہے۔ یہ فقرہ بہت عجیب سا لگتا ہے کہ بادشاہ مر گیا ہے اور بادشاہ کی عمر لمبی ہو۔ دراصل ایک بادشاہ کے انتقال پر جب اُسی کے خاندان کا کوئی فرد اگلا بادشاہ بنتا تھا تو یہ فقرہ بولا جاتا تھا یعنی ایک ہی وقت میں پرانے بادشاہ کی موت کا اعلان اور نئے بادشاہ کے لیے لمبی عمر کی دعا اور نیک خواہشات کا اظہار کیا جاتا تھا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس جدید ترین جمہوری دور میں اس فقرے کا ذکر کیوں چھیڑ دیا گیا ہے تو اس کا مقصد آپ کو یہ بتانا تھا کہ عالمی سیاست میں آج بھی بادشاہت ہی چلتی ہے۔ کبھی ایک بادشاہ‘ کبھی دو اور پھر ایسا دور بھی گزرا ہے جب پوری دنیا پر چار سے پانچ بادشاہوں کا حکم چلتا تھا۔ یہ بادشاہ کبھی کبھار آپس میں الجھ بھی پڑتے تھے‘ مطلب جنگیں ہو جاتی تھیں‘ ان جنگوں کی زد میں پوری دنیا بھی آ جایا کرتی تھے۔ آپ کو پہلی اور دوسری عالمی جنگیں تو یاد ہی ہوں گی۔ پھر تیسری عالمی جنگ بھی شروع ہو گئی تھی اور اس کا نام سرد جنگ رکھا گیا تھا لیکن یہ سرد صرف ایک لحاظ سے تھی کہ اُس وقت کے دنیا کے دو بادشاہوں‘ یعنی سپر پاورز روس اور امریکہ نے یہ طے کر لیا تھا کہ وہ آپسی جنگ میں باقاعدہ اسلحہ استعمال نہیں کریں گے لیکن باقی دنیا کو دونوں طاقتیں گرم جنگوں میں مبتلا رکھتی تھیں۔
کس بادشاہ کا انتقال اور کس کی درازیٔ عمر کی دعا؟
یہ فقرہ The king is dead, long live the king‘ آج کل عالمی میڈیا‘ خاص طور پر سوشل میڈیا پر اس تناظر میں عام استعمال ہو رہا ہے کہ امریکہ کی باشاہت ختم ہو رہی اور چین دنیا کے نئے بادشاہ کے طور پر اس تخت پر براجمان ہوا چاہتا ہے۔ امریکہ نے دنیا کی بادشاہت‘ برطانوی راج کے اختتام پر سنبھالی تھی لیکن دنیا کو زیادہ فرق اس لیے نہیں پڑا تھا کیونکہ امریکہ کی سیاست‘ معیشت‘ معاشرت‘ زبان‘ نسل اور مذہب سب ایک تھے۔ امریکہ کے مقابل روس کھڑا رہا لیکن وہ اپنی جارحانہ خارجہ پالیسی اور کمیونسٹ نظام کو پھیلانے میں اس قدر سخت گیر رہا کہ خود ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔اب مگر چین نے اس طرح کی جارحانہ خارجہ پالیسی اپنانا تو دور کی بات‘ اس طرح کا کوئی بیان تک نہیں دیا۔ دو دن پہلے سابق امریکی صدر کا بیان اخبارات میں چھپا‘ جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ امریکہ کی حکمرانی دنیا پر ختم ہو چکی ہے۔ انہوں نے فرانس کے صدر کے دورۂ چین کا حوالہ دیتے ہوا کہا کہ فرانس کے صدر میکرون نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ یورپ کے دیگر ممالک کو بھی امریکی اثر سے نکلنا چاہیے۔ یاد رہے اس سے پہلے جرمنی بھی ماضی میں اس قسم کی باتیں اشاروں کنایوں میں کر چکا ہے۔ یہاں پر جو بات انتہائی اہم ہے وہ یہ ہے کہ یورپ زمینی طور پر صرف براعظم ایشیا سے جڑا ہوا ہے۔ ان دونوں براعظموں کو ملا کر یوریشیا کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد دوسرا اہم ترین نکتہ روس جیسی طاقت کا براہِ راست یورپ سے جڑا ہونا ہے۔ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے یورپ پر روس کی دھاک بیٹھ چکی ہے اور وہ ڈر بھی محسوس کرتے ہیں۔ سب سے بڑی وجہ روس کے نیٹو اتحاد کے خلاف بیانات‘ نظریات اور اقدامات ہیں۔ روس کے یوکرین پر حملے کی سب سے بڑی وجہ بھی یوکرین کے نیٹو میں شمولیت کے اشارے تھے۔ اسی طرح حال ہی میں فن لینڈ کی جانب سے نیٹو میں شمولیت پر بھی روس نے سخت رد عمل دیا ہے۔ واضح رہے کہ فن لینڈ وہ یورپی ملک ہے جس کی سب سے لمبی سرحد روس سے ملتی ہے۔ مزید واضح کرتے چلیں کہ نہ تو فن لینڈ اور نہ ہی روس کی اتنی لمبی سرحد کسی اور یورپی ملک سے ملتی ہے۔
چین کی بادشاہت قائم ہونے کا اگلا اظہار عالمی تجارت میں امریکی ڈالر کے استعمال میں بتدریج کمی ہے۔ ڈالر کی جگہ اب چینی کرنسی لے رہی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی خبریں سننے میں آ رہی ہیں کہ چین اور روس دیگر ممالک سے مل کر یورو کی طرز پر ایک نئی کرنسی بھی جاری کر سکتے ہیں۔ BRICS اتحاد میں برازیل‘ روس‘ انڈیا‘ چین اور جنوبی افریقہ کے بعد اب مزید ملکوں کو بھی شامل کیا جا رہا ہے جس میں ایران اور سعودیہ بھی شامل ہیں۔ اس سے پہلے چین ایران کو اپنے اتحاد شنگھائی تعاون تنظیم میں خاص مقام دے کر شامل کر چکا ہے۔ چین کی خاموش اور صلح جو خارجہ پالیسی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اس نے بھارت کو اب بھی شنگھائی تعاون تنظیم کا ممبر برقرار رکھا ہوا ہے حالانکہ بھارت امریکہ کے چین مخالف اتحاد کا سرگرم رکن بھی ہے اور بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعات بھی بڑھتے جا رہے ہیں لیکن غالب امکان یہی ہے کہ چین بھارت کے ہوش ٹھکانے آنے پر اسے علاقائی سیاست میں ایک غیرجنگی پالیسی اور کردار اپنانے پر مجبور کر دے گا۔
چین کی طرزِ بادشاہت میں کیا نیا اور نمایاں ہے
چین کے زیر اثر جو نیا ورلڈ آرڈر بن رہا ہے‘ اس میں سب سے پہلی بات چین کی جانب سے براعظم ایشیا کو مستحکم کرنا ہے۔ یاد رہے کہ براعظم ایشیا دنیا میں سب سے زیادہ تنازعات کا حامل براعظم ہے۔ یہ مسائل نہ صرف ایشیائی ملکوں کے مابین موجود ہیں بلکہ ملکوں کے اندر بھی سیاسی و معاشی استحکام موجود نہیں ہے۔ اس سلسلے میں چین نے دنیا کو چونکا دینے والی ایک کامیابی تو ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات بحال کرکے حاصل کر لی ہے لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس سفارتی صلح اور دوستی کا اثر پورے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک پر پڑے گا۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ سابق بادشاہ امریکہ کے پیدا کردہ جنگی جنون اور فسادات کے بالکل برعکس‘ چین نے ان ممالک کیساتھ خود تجارت شروع کرکے اس پورے خطے کو اسی طرز پر چلانا شروع کر دیا ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھیں کہ ایشیا اور مسلم ممالک اپنے اوپر ہونیوالے مغربی جابرانہ رویے سے بہت زیادہ تنگ آچکے تھے بلکہ تھک گئے تھے۔ امریکہ کی یہ روش‘ چین کے لیے آسانیاں پیدا کر رہی ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے تعلقات بہتر ہونے سے اسرائیل پہلی دفعہ انڈر پریشر آیا ہے۔
چین کے ورلڈ آرڈر میں ایک اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے سیاسی‘ معاشی اور سب سے بڑھ کر سماجی طرزِ زندگی کی طرف دیکھتا بھی نہیں ہے۔ وہ کسی بھی ملک کو اپنا نظام چھوڑ کر چینی نظام اپنانے کا کہنے کا سوچ بھی نہیں رہا۔ آپ ایشیا کے ممالک کو دیکھیں تو یہاں پر مذہبی ریاستیں‘ بادشاہتیں اور جمہوریت ایک ہی وقت میں موجود ہیں لیکن مجال ہے کہ چین کوئی بیان بھی دے۔ یہ بھی یاد رہے کہ چین میں کمیونسٹ طرز کی حکومت ہے۔ چین اپنے طور پر اس کا فخریہ اظہار کرتا ہے لیکن سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ کسی دوسرے ملک کو اس قسم کے نظام کی دعوت دے۔ اس بات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ایک بات کا جاننا ضروری ہے جو کچھ اس طرح ہے کہ عالمی تاریخ میں مغرب اور مشرق کا ایک تنازع بہت پرانا اور گہرا ہے۔ امریکہ نے اپنے خود ساختہ تہذیبوں کے تنازع کے فلسفے میں مسلم ممالک اور چین کو اپنا دشمن گردانا ہوا تھا جبکہ اصل میں وہ خود ان تہذیبوں کا دشمن تھا۔ اب صدیوں بعد تاریخ اس مقام پر آ چکی ہے کہ مشرق یعنی ایشیا کو استحکام نصیب ہو رہا ہے جو اگر یونہی جاری رہا تو شاید خوشحالی میں بھی بدل جائے۔ اس لیے اب Long Live China and Asiaکہا جا رہا ہے۔