بِگ بلنڈرز آف بھارت … (2)

Big Blunders of Bharatکے عنوان سے لکھے گئے گزشتہ کالم پر کچھ لوگوں نے حیرت کا اظہار کیا۔ یہ حیرت اس لیے تھی کہ انہوں نے مذکورہ کالم میں پیش کردہ حقائق کا تذکرہ کہیں اور نہیں سنا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جتنے بڑے یہ انکشافات ہیں‘ ان کی اتنی زیادہ کوریج کیوں نہیں ہوتی۔ اس پر گزارش یہ ہے کہ بھارت کا اپنا میڈیا اس پر زیادہ بات اس لیے نہیں کرتا کہ اس کی اپنی سبکی ہوتی ہے جبکہ چین کی میڈیا پالیسی یکسر مختلف ہے اور وہ ان واقعات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ چین کی اپنی میڈیا پالیسی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ امریکہ کے ممکنہ معاشی بحران‘ جس کے نتیجے میں امریکہ کے ڈیفالٹ کا امکان مسلسل بڑھ رہا ہے‘ کا بھی ذکر بہت کم اور محتاط انداز میں کرتا ہے۔ آج ان دونوں موضوعات کا تذکرہ کرتے ہیں لیکن اس سے پہلے یاد رہے کہ ان دونوں موضوعات کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔
ڈالر کا ڈوبتا سورج
سب سے پہلے یکم جون کا ذکر کرتے ہیں جب ڈالر کے مالک‘ امریکہ کی معاشی بقا کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے۔ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت ہونے کیساتھ ساتھ دنیا کا سب سے زیادہ مقروض ملک بھی ہے۔ اس کی سالانہ کل معاشی پیداوار 23ٹریلین ڈالر ہے۔ یہاں پر واضح کرتے چلیں کہ ایک ٹریلین میں ایک ہزار ارب ہوتے ہیں۔ یہ معاشی پیداوار دنیا کی کل آمدن کا تقریباً 24 فیصد بنتا ہے لیکن امریکی حکومت کا قرضہ اس وقت 31ٹریلین ڈالر کی حد عبور کر چکا ہے۔ یعنی امریکہ کی ایک سال کی کل آمدن سے بھی سات ٹریلین ڈالر زیادہ کا قرض اُس پر واجب الادا ہے۔ اس قرض میں اندرونی قرضوں کے علاوہ بیرونی قرض بھی شامل ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک بیرونی قرضوں کی مد میں امریکہ چین کا سب سے زیادہ مقروض تھا مگر اب یہ درجہ جاپان کے پاس جا چکا ہے۔ قسمت‘ حالات و واقعات یا تاریخ کا چکر دیکھ لیں کہ آج تک جس ایک ملک پر ایٹم بم مارا گیا‘ وہ جاپان ہے اور یہ جرم کرنے والا امریکہ لیکن آج وہی امریکہ جاپان کے سامنے سر نگوں ہو چکا ہے۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ڈالر اور ڈالر کے مالکوں کی قسمت اب سب سے زیادہ جاپان کے ہاتھ میں ہے۔ امریکہ جاپان کا ایک ٹریلین ڈالر جبکہ چین کا 870ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ یہ ملک جو قرضہ امریکہ کو دیتے ہیں‘ اس پر ایک مخصوص شرح سے منافع حاصل کرتے ہیں۔ انہی قرضوں کو بانڈز یا ٹرژری بلز کا نام دیا جاتا ہے۔ قرض دینے والے یہ ممالک ایک خاص مدت کے بعد اس کی واپسی کا مطالبہ بھی کر سکتے ہیں جس کو بانڈزکیش کروانا کہا جاتا ہے۔ جیسے ہمارے ارد گرد بہت سے لوگوں کے پاس بانڈز ہوتے ہیں جو وہ ضرورت کے وقت کسی بھی بینک سے جا کر کیش کروا کر سرکاری نوٹ حاصل کر لیتے ہیں۔
اب ذکر یکم جون کا‘ جس دن امریکہ کی قرضے کی حد ختم ہو جائے گی‘ جس کو Roof Ceiling کہا جاتا ہے۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ اس دن کے بعد امریکی حکومت کے پاس مزید خرچ کرنے کو کچھ بھی نہیں بچے گا یعنی اس کو مزید قرض لینا پڑے گا۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کو اپنے قرضوں کی حد مزید بلند کرنا پڑے گی۔ اب یہاں مشکل یہ پیش آرہی ہے کہ کانگریس میں اکثریت اپوزیشن کی ہے اور وہ تاحال اس حد کو بڑھانے پر راضی نہیں ہو رہی۔ جبکہ عالمی حاکمیت کا بھوت اب بھی امریکہ پر اس حد تک سوار ہے کہ اس نے اس سال پھر اپنا دفاعی یا جنگی بجٹ بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ امریکہ کا دفاعی بجٹ دنیا کا سب سے بڑا بجٹ ہوتا ہے جس کی مالیت سات سو بلین ڈالر سے زیادہ ہے لیکن ایک بات اس سے بھی زیادہ اس طرح اہم ہے کہ امریکہ کی تمام سکیورٹی ایجنسیوں کا بجٹ ملایا جائے تو یہ دو ٹریلین ڈالر کے قریب پہنچ جاتا ہے جو اس کی کل آمدن کا آٹھ فیصد سے زائد بنتا ہے‘ جو کہ بہت زیادہ ہے۔ آپ کو پوری دنیا میں موجود امریکی فوج اور اس کی خفیہ حرکات کا اندازہ تو بخوبی ہوگا۔ امریکہ پر ایک عالمی تنقید یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ جنگی معیشت کا سب سے بڑا بانی و حامی ہے۔ اس کا مطلب اسلحہ کی صنعت کو فروغ دینا ہے‘ مطلب امریکہ کے لیے دنیا کو جنگوں میں دھکیل کر اسلحہ بیچنا باقائدہ ایک صنعت ہے۔ عراق کے خلاف جنگی طرز کے دو آپریشن اس کی سب سے اہم اور بڑی مثالیں ہیں۔ اب اس وقت جب ڈالر کا عروج نہ صرف ختم ہو چکا ہے بلکہ اس کا سورج غروب ہونے کا بھی خدشہ موجود ہے‘ اس کے باوجود ایک ہی ملک ہے جو ایشیا میں امریکہ کے سب سے بڑے مخالف یعنی چین کے خلاف کھڑا ہے‘ وہ بھارت ہے جس کا وہ برملا اظہار بھی کرتا رہتا ہے۔
بھارت اور اس کے تضادات
بھارت کی پالیسیوں‘ حالات اور ترجیحات کوکسی اور نے نہیں بلکہ ان کے اپنے نوبیل انعام یافتہ مصنف نے اپنی کتاب کے موضوع میں ہی واضح کر دیا تھا۔ یہ نوبیل انعام یافتہ لکھاری امرتیا سین صاحب ہیں۔ ان کی کتاب کا عنوان An Uncertain Glory: India and its Contradictions ہے۔ اسی کتاب میں مصنف نے لکھا ہے کہ ایک وقت میں ہر چوتھے بھارتی کو بجلی میسر نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت دنیا میں بجلی کی عدم دستیابی کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہے۔ اسی طرح 40فیصد سے زائد بھارتی عوام کو ٹائلٹ جیسی بنیادی سہولت بھی حاصل نہیں ہے۔ اس کتاب کا حوالہ اس لیے دیا جا رہا ہے کہ اب اس بندے سے زیادہ غیر جانبدار رائے اور تحریر کس کی ہو سکتی ہے۔ یاد رہے یہ کتاب سب سے پہلے2013ء میں چھپی تھی۔ دوسری طرف دیکھیں تو بھارت گمبھیر مسائل کا شکار ملک ہے جن میں مسلسل اضافہ جاری ہے اور وہ خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی مسائل کا باعث بن رہا ہے۔ 2013ء کے بعد بھارت میں ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ امریکہ کے قرضوں کی حد کی طرح ہر حد پار کرگیا ہے۔ سموگ کا مسئلہ بھی بھارت سے شروع ہوا بلکہ اب تو یہ ملک اپنی فضائی آلودگی سے ہمسایہ ممالک کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ یہ کتاب لکھے جانے کے بعد ہی بھارت کے چین کیساتھ تعلقات کشیدہ ہو گئے اور مسلسل ہو رہے ہیں۔ اب اگر یہی مصنف اپنی کتاب کو ترمیم کیساتھ لکھیں تو ان کو یقینا اپنی کتاب کے عنوان میں بھارت کے تضادات کے الفاظ میں جدت کے ساتھ شدت لانا پڑے گی۔
اب آتے ہیں امریکہ کے سر پر منڈلاتے ڈیفالٹ کے خطرات کی طرف تو باقی تو پتہ نہیں‘ جس تیزی کے ساتھ ڈالر کی قیمت پاکستان میں بڑھی ہے اور اب بھی بڑھ رہی ہے اس میں ایک ڈرامائی تبدیلی کا امکان یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ حالانکہ امریکہ کے دیوالیہ ہونے کا دھچکا پوری دنیا محسوس کرے گی لیکن پاکستان پر اس کے اثرات مختلف نوعیت کے ہونے کا امکان ہے۔ اسی طرح اگست کے مہینے تک اک نئی عالمی کرنسی بھی متعارف ہونے جا رہی ہے۔ جس سے دنیا میں جاری امریکی دخل اندازیاں ختم نہ بھی ہوئیں تو کم ضرور ہو جائیں گی۔ De-Dedollarisationکی طرح جس جس شے کے ساتھ ڈی لگ جائے گا وہ کم یا ختم ہو جائے گی۔ اس میں اشتراکیت کی مخالفت کی سرمایہ کاری‘ این جی اوز‘ مذہب کے نام پر امریکہ کی اپنی پیدا کردہ تنظیمیں اور سب سے بڑھ کر اپنے حق میں لکھنے اور بولنے والوں کی کمی۔ ا س تناظر میں بھارت کا تاحال چین کی جنگی طرز پر مخالفت کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ چین کے عالمی معاملات پر مکمل گرفت حاصل کرنے یا امریکہ کے پیچھے ہٹ جانے کے بعد بھارت کے ساتھ چین کیا سلوک کرے گا اور بھارت اپنی بلائنڈ (اندھی) بلنڈرز کو کب بلڈوز کرے گا۔ یہ مسلسل زیر نظر رکھنے والی بات ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں