پوری دنیاکے تاجر طبقات‘ خاص طور پر ایکسپورٹرز، امپورٹرز، منی ایکسچینج کا کام کرنے والے اور وہ ممالک جن کے قومی ذخائر ڈالر میں پڑے ہیں‘ ان کے علاوہ عالمی امور پر لکھنے اور بولنے والے بے چینی سے یکم جون کا انتظار کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ اس وقت امریکہ پر کل ملکی قرضوں کی حد بڑھانے کی شکل میں ایک آزمائش آن پڑی ہے۔ اس معاملے کا تفصیلی ذکر گزشتہ کالم میں ہو چکا ہے‘ اب بات اس کے کچھ مضمرات کی۔ اگر امریکہ ڈیفالٹ کر جاتا ہے‘ جس کا تاحال زیادہ امکان ہے‘ تو اس سے عالمی مارکیٹ اور معیشت کو بہت بڑا دھچکا لگے گا۔ اس کے اثرات امریکہ کے اندر تو ظاہر ہوں گے ہی‘ ایک بحران کی شکل میں یہ پوری دنیا پر چھا جائیں گے۔ ان میں سرفہرست دو منفی اثرات بیروزگاری اور مہنگائی کی شکل میں نمودار ہوں گے۔ اس کے علاوہ عالمی سیاست میں بھی بڑی تبدیلیوں کے آثار نمایاں ہوں گے بلکہ ابھی سے ہونے لگ پڑے ہیں۔ آئیے! ان دونوں پہلوئوں کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
عالمی معیشت اور منڈی پر اثرات
امریکہ اس وقت دنیا کی ایک چوتھائی معیشت کا مالک اور دنیا کا سب سے بڑا معاشی ملک ہے۔ اس کے ڈیفالٹ کرنے کی صورت میں (جس کا امکان اس لیے زیادہ ہے کہ اس کے دو بڑے بینک ڈیفالٹ کر چکے ہیں) پوری دنیا کے وہ کاروباری لوگ جو اپنی اشیا امریکہ کو برآمد کرتے ہیں‘ کو بہت بڑا دھچکا لگے گا۔ امریکی وہ قوم ہیں جن کا معیارِ زندگی پوری دنیا میں سب سے بلند ہے۔ یہاں زیرِ استعمال اشیا صرف بنیادی سہولتوں ہی سے متعلق نہیں بلکہ اس زمرے میں پُرتعیش چیزیں بھی شمار ہوتی ہیں۔ معیشت کا بنیادی اصول ہے کہ تجارت میں زیادہ منافع سہولتوں اور تعیشات کے زمرے میں آنے والی اشیا میں ہوتا ہے۔ امریکہ سالانہ تین ٹریلین ڈالرز کی اشیا درآمد کرتا ہے۔ یہ بھی یاددہانی کرا دیں کہ ایک ٹریلین میں ایک ہزار بلین ہوتے ہیں۔ یعنی امریکہ ہر سال تیس کھرب ڈالر سے زیادہ کی اشیا درآمد کرتا ہے۔ اس مقدار اور اعتبار سے امریکہ دنیا کا سب سے بڑا امپورٹر ہے۔ اگر یہ ڈیفالٹ کر جاتا ہے تو یہ تجارت تقریباً رک جائے گی اور دنیا بھر کی تجارتی کمپنیوں کو دھچکا لگے گا۔ اسی طرح تجارت کرنے والی کمپنیوں میں کریڈٹ کا مسئلہ بھی درپیش ہوتا ہے، جس کے ڈوبنے کا خدشہ لاحق ہو جائے گا۔ علاوہ ازیں امریکہ سالانہ اڑھائی ٹریلین ڈالر کی چیزیں دیگر ممالک کو بھجواتا ہے، مطلب عالمی تجارت میں امریکہ کا حصہ تقریباً ساڑھے پانچ ٹریلین ڈالر بنتا ہے جبکہ دنیا کی کل عالمی تجارت کا حجم تقریباً 28 ٹریلین ڈالر ہے۔ اب صورتحال مزید واضح اور سمجھنا خاصی آسان ہو جاتی ہے کہ 28 میں سے 5.5 ٹریلین ڈالر کی تجارت صرف امریکہ سے وابستہ ہے۔ یہ دنیا کی کل تجارت کا تقریباً ایک چوتھائی بنتا ہے۔ اس لیے امریکہ کے ڈیفالٹ کرنے سے عالمی تجارت کو ایک چوتھائی حصے کے غائب ہو جانے کا خدشہ لاحق ہے۔ اس سے امریکی معیشت سے جڑے پوری دنیا کے لوگوں کا روزگار برے طریقے سے متاثر ہو گا۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان متاثرین میں امریکہ کا مقابل اور سب سے بڑا حریف ملک چین بھی شامل ہو گا۔ چین جن ممالک سے سب سے زیادہ اشیا منگواتا ہے وہ اس کے قریبی ممالک ہیں جن کو آسیان ممالک کہا جاتا ہے۔ دوسرے نمبر پر یورپی یونین کے ممالک ہیں جبکہ تیسرے نمبر پر امریکہ ہے۔ یہاں یہ وضاحت کرتے چلیں کہ چین کو سب سے زیادہ فائدہ جس تجارت میں ہوتا ہے وہ امریکہ سے ہی ہے۔ گزشتہ سال چین نے امریکہ سے 177 بلین ڈالر کی اشیا درآمد کیں جبکہ امریکہ کو بھیجی جانی والی یعنی برآمد کردہ اشیا کی قدر 581 بلین ڈالر تھی۔ انفرادی طور پر چین کی سب سے بڑی برآمدی منڈی امریکہ ہی ہے۔ مذکورہ اعداد و شمار سامنے رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ چین اور امریکہ کی باہمی تجارت میں چار سو بلین ڈالر کا فرق ہے، یا یوں کہہ لیں کہ اس تجارت سے چین کو سالانہ لگ بھگ چار سو بلین ڈالر کا فائدہ اور امریکہ کو اتنا ہی تجارتی خسارہ ہو رہا ہے۔ اب اس تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھتے ہیں‘ امریکی ڈیفالٹ سے وہ تمام ممالک جو مختلف اشیا امریکہ سے منگواتے ہیں اور جن کی مالیت اڑھائی ٹریلین ڈالر سے زائد ہے‘ ان چیزوں کی برآمدی منڈی میں امریکی غیر حاضری سے چین سمیت دیگر ممالک کو فائدہ پہنچے گا۔ اس لسٹ میں سب سے اہم یورپی ممالک ہوں گے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اس صورتحال کا سب سے زیادہ فائدہ چین اور یورپ کو ہی ہو گا جن کی تجارت اور معیشت مزید پھلے پھولے گی۔ اسی طرح ایک منظر یہ ہو گا کہ چین عالمی تجارت میں بھی نمبر ون بن جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں امریکہ کے خلا کو چین نہ صرف بخوبی بلکہ بہت آسانی سے نبھائے گا اور وہ اس کے لیے تیار بھی بیٹھا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ عالمی سیاسی حکمرانی کے لیے جاری سرد جنگ میں معاشی یا تجارتی حوالے سے یورپ امریکہ کے ہاتھوں سے نکل کر چین کے ساتھ کھڑا ہو جائے۔ یاد رہے کہ روس اور امریکہ کی سرد جنگ میں پہلا میدان یورپ ہی بنا تھا، اس جنگ میں امریکہ اس لیے کامیاب رہا تھا کہ یورپ کے بڑے اور اہم ممالک نے واضح اکثریت کے ساتھ امریکی بلاک کا حصہ بننے کو ترجیح دی تھی جبکہ مشرقی یورپ کے کمزور اور چھوٹے ممالک‘ جن کی تعدا محض چھ تھی‘ نے روس کے ساتھ الحاق کیا تھا۔ اس الحاق میں خوشی و رغبت سے زیادہ روس کی طاقت اور جبر کا حصہ زیادہ تھا۔ اب کی بار تاریخ کا پہیہ الٹا گھوم رہا ہے۔ بات اس سے آگے بھی بڑھ سکتی ہے کیونکہ چین امریکہ کے بالکل الٹ چل رہا ہے۔ وہ دیگر ممالک کو عسکری، سیاسی اور نظریاتی طور پر نہیں بلکہ صرف تجارتی طرز پر اپنا ہمنوا بنا رہا ہے۔ یہ بات تمام ممالک کو بجا طور پر بھاتی اور پسند آتی ہے۔ اسی طریقے سے یورپی ممالک اپنے آپ کو امریکی اثر و رسوخ سے باہر نکلتا اور بین الاقوامی طور پر آزاد ہوتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔
معیشت سے ہٹ کر بہت کچھ
تھوڑا سا غور کریں تو علم ہو گا کہ چین نے دیگر ممالک کو علاقائی و عالمی سیاست میں ان کا حصہ دینا شروع کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی مثال جرمنی ہے۔ جرمنی کے پاکستان میں متعین سفیر نے گزشتہ دنوں پاکستان کے کشیدہ حالات پر صلح جوئی کا ایک ٹویٹ کیا۔ اگرچہ بعد میں یہ ٹویٹ ہٹا دیا گیا، لیکن یہ ایک بہت بڑا پیغام دے گیا۔ اس پیغام میں جرمنی سے زیادہ چین کی خواہش نظر آ رہی تھی۔ جرمن سفیر نے گزشتہ دنوں جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق سے بھی ملاقات کی تھی۔ اب واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ موجودہ سیاسی منظر نامے میں صرف جماعت اسلامی ہی وہ سیاسی جماعت ہے جو پی ٹی آئی اور حکومتی اتحاد میں پیغام رسانی اور صلح جوئی کے لیے کام کر رہی ہے۔ اسی طرح گزشتہ دنوں جرمنی کے ایک اخبار نے آبادی کے اعتبار سے بھارت کے چین سے آگے نکل جانے پر ایک کارٹون شائع کیا جس میں حقائق کی عکاسی کی گئی تھی مگر بھارت نے حسبِ توقع اس سے سبق سیکھنے کے بجائے اس کارٹون اور جرمنی پر جوابی وار شروع کر دیے۔ دوسری جانب چین نے یوکرین کے مسئلے پر اپنی ثالثی کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ جرمنی کے علاوہ سعودی عرب وہ ملک ہے جس پر چین نے اپنا انحصار بڑھا دیا ہے۔ اب سعودی عرب نہ صرف ہماری سیاسی کشیدگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے بلکہ چند روز قبل یوکرین کے صدر نے بھی سعودی عرب کا دورہ کیا۔ اس دورے کا مقصد صرف اور صرف سعودی عرب سے مدد حاصل کرنا تھا تاکہ یوکرین کا روس سے جنگی معاملہ طے ہو سکے۔ سعودی عرب کے اس بڑھتے ہوئے عالمی کردار کے چین کو پیچھے صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ چین کے سبب سعودیہ‘ ایران صلح کے بعد ایران نے پاکستان کی سرحد کے ساتھ ایک تجارتی مرکز بھی کھول لیا ہے۔ اب پاکستان کیلئے بھارت کے سوا تمام سرحدوں پر امن اور دوستی کا جھنڈا بلند ہوتا نظر آ رہا ہے۔ یہ سب کچھ چین کے عالمی طاقت کے طور پر ابھرنے کے بعد شروع ہوا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے ہی امریکی اثر مزید کم ہوگا‘ دنیا میں دوستانہ اور پُرامن معاشی سفر تیز ہو جائے گا۔ اب دیکھیں یکم جون کو کیا ہوتا ہے؟