کچھ سنجیدہ و سنگین لطائف

پہلا سنجیدہ بلکہ سنگین لطیفہ یوں ہے کہ بھارت کے ایک چینل پر ایک خاتون اینکر نے فرانس میں جاری فسادات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ فرانس میں نسلی فسادات بڑھ رہے ہیں اور اس کی وجہ فرانس میں حکومت کی خراب پالیسیاں اور کمزوری ہے۔ اس کے بعد اس کا کہنا تھا کہ کسی ایک ہی ملک میں بہت ساری نسلیں کس طرح سے ہم آہنگی سے رہتی ہیں‘ اس کے لیے ہمیں امریکہ کی طرف دیکھنا ہو گا۔ یہاں تک تو بات بالکل ٹھیک تھی لیکن اس اینکر نے اگلے ہی لمحے امریکہ کے ساتھ دوسری مثال بھارت کی دے ڈالی۔ اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ یہ کس قدر سنگین لطیفہ ہے۔ بھارت وہ ملک ہے جس کی مثالیں کیس سٹڈی کے طور پر پروفیسرز اپنے لیکچرز میں دیتے ہیں اور لکھنے والے اس پر کتابیں لکھ چکے ہیں کہ بھارت کا معاشرتی تنوع کیسے ایک ٹائم بم کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ آج کا موضوع صرف بھارت نہیں بلکہ دنیا میں آپ کو اور بھی ایسے بے شمار سنگین لطائف مل جائیں گے۔ اب بظاہر یہ ایک تضاد لگتا ہے کہ جو بات سنگین ہو وہ لطیفہ کیسے ہو سکتی ہے لیکن اگر ایک خاص زاویے سے دیکھیں گے تو سمجھ آجائے گی کہ دنیا کی صورتحال ایسی ہی ہے۔ اس میں سب سے بنیادی نکتہ یہ ہے کہ دنیا کے ممالک عالمی امور میں اتنے زیادہ گھر چکے ہیں کہ اب ''منفی امن‘‘ کا سامنا ہے۔ اب یہ منفی امن کیا بلا ہے؟ اس کا جواب ہے کہ ایسی صورتحال جس میں کوئی جنگ نہ ہو رہی ہو لیکن جنگ ہونے کے امکانات، خدشات اور وجوہات پوری طرح موجود ہوں‘ منفی امن کے زمرے میں آتی ہے۔ سنگینی یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں جنگوں کے خدشات اب بڑھتے جا رہے ہیں۔
دو بر اعظموں کا ٹاکرا
عالمی جنگی منظر نامے کی بنیاد دو بر اعظموں کی لڑائی ہے۔ اس کو عرفِ عام میں مشرق اور مغرب کی لڑائی بھی کہہ سکتے ہیں۔ امریکہ کسی طور بھی ایشیا کی ابھرتی ہوئی عالمی طاقت چین کی پیش قدمی کو روکنا چاہتا ہے۔ مگر اب اس کے اتحادیوں یعنی یورپ کے کچھ ملکوں کی پوزیشن اور ان کا نقطۂ نظربھی بدلتا جا رہاہے۔ فرانس ہی کو دیکھ لیں‘ جس کے صدر نے گزشتہ دنوں دورۂ چین کے موقع پر تائیوان کے مسئلے پر کچھ اس طرح کا بیان دیا کہ جس کو سادہ الفاظ میں چین کی کھلے عام حمایت ہی کہا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف امریکہ یہ واضح کرچکا ہے کہ تائیوان پر چین کے جنگی طرز کے حملے یا قبضے کی کوشش پر امریکہ تائیوان کا دفاع کرے گا۔ اسی حوالے سے اگلا مدعا یہ ہے کہ فرانس میں حالیہ فسادات ہوں یا اس سے پہلے پنشن اور ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کے فیصلے پر ہونے والے ہنگامے اور مظاہرے‘ بین السطور یہ خبریں بھی آئی ہیں کہ ان میں امریکہ اور برطانیہ ملوث ہیں۔ ان کی کچھ ایجنسیوں کی جانب سے ایسا قصداً کیا جا رہا ہے تاکہ فرانس کے موجودہ صدر کی مشکلات میں اضافہ کیا جائے اور فرانس کے چین کی طرف بڑھتے جھکائو کو روکا جائے۔ یہ بات قرینِ قیاس بھی لگتی ہے کیونکہ جن وجوہات کی بنا پر فرانس میں افراتفری پھیلی ہوئی ہے‘ یا ہنگامے ہو رہے ہیں‘ وہ اتنی بڑی یا سنگین نہیں ہیں۔ یورپ کو دوسرا دھچکایوکرین کی صورت میں پہلے ہی لگ چکا ہے۔ اس کے علاوہ بیلاروس بھی ایسا یورپی ملک ہے جو مکمل طور پر روس نواز پالیسیاں اور حکمت عملی رکھتا ہے۔ بیلا روس سے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ یورپ کی واحد اور آخری آمریت ہے۔ حالیہ دنوں میں روس نے اپنے ایٹمی میزائل بیلاروس میں نصب کیے ہیں۔ روس سے متعلق خیال کیا جا رہا تھا کہ عالمی تجارتی پابندیوں کی وجہ سے اس کے لیے شدید معاشی مشکلات پیدا ہوں گی اور یہ جلد ہی گھٹنے ٹیک دے گا لیکن اس کے بالکل برعکس روسی تیل‘ قیمت کم ہونے کی وجہ سے‘ زیادہ مقدار میں فروخت ہونا شروع ہو چکا ہے۔ عالمی منظر نامے میں اگلی تبدیلی یہ آئی ہے کہ روس نے تائیوان کے جزیرہ نما ملک کے ارد گرد اپنے بحری بیڑے روانہ کر دیے ہیں۔ روس کے اس فیصلے سے تائیوان کے مسئلے پر چین کی گرفت مضبوط ہوئی ہے۔ یاد آیا! اس ساری صورتحال میں جاپان کی پریشانی میں بھی اضافہ ہو گیا ہے اور اس نے اپنی افواج کو ہائی الرٹ کر دیا ہے۔ جاپان اس سے پہلے شمالی کوریا کی ایٹمی صلاحیت اور سخت گیر رویے کی وجہ سے پریشان تھا‘ اب اس سنگینی میں مزید اضافہ شمالی کوریا کی جانب سے روس کے یوکرین پر حملے کی مکمل حمایت نے کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ شمالی کوریا ایک سخت گیر قسم کا اشتراکی ملک ہے۔ مزید یہ کہ شمالی کوریا پر ایک ہی خاندان پچھلی سات دہائیوں سے حکمرانی کر رہا ہے۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ شمالی کوریا کی جنوبی کوریا سے علیحدگی اور آزادی میں روس نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اب چین، روس اور شمالی کوریا کا اتحاد ایک بار پھر سرد جنگ کی یادیں تازہ کر رہا ہے۔ اُس وقت یہ ممالک سوویت یونین کی قیادت میں اکٹھے تھے اور اب چین کی سربراہی میں ایک ہو گئے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ تینوں ممالک ایٹمی صلاحیت کے حامل ہیں اور اگر انہیں مغرب مخالف نہ بھی کہیں تو امریکہ مخالف رجحان ضرور رکھتے ہیں۔
اسی خطے میں آگے بڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ چین کے تعلقات ویتنام سے اچھے نہیں ہیں۔ جنوبی ایشیائی سمندر میں چین مخالف ممالک میں فلپائن کا ذکر بھی آتا ہے‘ جہاں امریکی افواج مسلسل کئی دہائیوں سے اپنے اڈوں کیساتھ موجود ہیں۔ اُدھر امریکہ کے سر پر سے ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل تو گیا ہے لیکن تاحال موجود بھی ہے۔ امریکہ کے کل قرضے کا حجم اب 32 ٹریلین ڈالر سے زائد ہو چکا ہے اور اس میں نہایت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر آپ امریکہ کا سرکاری ڈیبٹ کلاک دیکھیں‘ جس میں ہر سیکنڈ کے حساب سے قرض کی رقم میں اضافہ دکھایا جاتا ہے‘ تو اس گھڑیال کو دنیا کی سب سے تیز چلنے والی چیز کہا جاتا ہے۔ مطلب ایک سیکنڈ کے سوویں حصے میں بھی یہ گھڑیا ل خاصی تیزی سے گردش پذیر نظر آئے گا۔ سب سے انوکھا اور از قسم نمونہ ملک بھارت ہے جو اب بھی چین مخالفت میں امریکہ کا سب سے بڑا آلہ کار بنا ہوا ہے۔ بھارت سرکار نے چین کی اُس تجارت کو روکنے کیلئے جو چین آبنائے ملاکا کے سمندری راستے سے کرتا ہے‘جنوب میں کالا پانی کے علاقے میں ایک جزیرے پر ایک نیا بحری اڈا قائم کرنے کا کام شروع کیا ہے۔ اس وقت بھارت کی اندرونی حالت یہ ہے کہ ریاست منی پور میں جاری خانہ جنگی اور فسادات کو دو مہینے سے زیادہ ہو چکے ہیں اور تاحال بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔ دوسری طرف خالصتان تحریک کی عالمی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں امریکہ میں ایک بھارتی سفارتخانے پر خالصتانی سکھوں نے حملہ کیا۔ اس وقت بھارت کیلئے عالمی جھمیلوں اور شرارتوں سے یکلخت کنارہ کشی کر کے اپنے اندرونی مسائل پر توجہ دینا ناگزیر ہو چکا ہے۔ بھارت ایک ایسا غبارہ بن چکا ہے جس میں امریکہ ہوا بھرتا چلا جا رہا ہے اور بھارت بخوشی یہ ہوا بھروا رہا ہے۔
عالمی طاقتوں کے سنگین حالات
اس وقت کی عالمی صورتحال سے ایک ایسا سبق ملتا ہے جو عام طور پر کسی اخلاقی کہانی سے ملتا ہے۔ یہ سبق ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں اپنے اندرونی مسائل کو پس پشت ڈال رہی ہیں حالانکہ ان کو اب بیرونی سے زیادہ اندرونی محاذوں پر شکست و ریخت کے خطرات کا سامنا ہے۔ اس سارے عالمی گھن چکر کا سرچشمہ امریکہ ہے جو کسی طور بھی چین کو اپنے برابر دیکھنے کو تیار نہیں۔ امریکہ کو اندرونی طور پر معاشی قرضوں کے علاوہ ایک اور ایسی آفت کا سامنا ہے جو ایک دہکتے محاذ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ یہ محاذ ہے امریکہ میں ماس شوٹنگ کے بڑھتے واقعات۔ رواں سال جون کے اختتام تک امریکہ میں ساڑھے تین سو سے زائد فائرنگ کے واقعات ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکہ صرف ان واقعات کو شمار کرتا ہے جس میں کوئی ہلاکت ہوئی ہو۔ مطلب فائرنگ کے جس واقعے میں لوگ صرف زخمی ہوئے ہوں‘ اس کو گنا ہی نہیں جاتا۔ بعض فورم صرف اس واقعے کو ماس شوٹنگ گردانتے ہیں جس میں کم از کم چار افراد ہلاک ہوں۔ امریکہ سالوں سے جاری اس مسئلے کو پس پشت ڈال کر عالمی معاملات میں دخل اندازیوں کی پالیسی پر گامزن ہے‘ جو ایک سنگین حقیقت اور المیہ تو ہے ہی‘ ساتھ ہی ایک لطیفہ بھی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں