برین ڈرین سے ڈرینڈ برین تک

بعض یورپی ممالک سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہاں دو پیشوں سے وابستہ لوگوں کو مہینے کے بعد جو معاوضہ دیا جاتا ہے‘ اسے تنخواہ نہیں بلکہ اعزازیہ کہا جاتا ہے۔ یہ دو پیشے ڈاکٹری اور تدریس کے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا اور ماننا ہے کہ یہ دونوں پیشے ایسے ہیں جن کا کوئی معاوضہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس ضمن میں ایک غور طلب بات یہ ہے کہ ایک ڈاکٹر بھی اپنے اساتذہ ہی کی بدولت ڈاکٹر بنتا ہے۔ تمام مغربی ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے لیکن ان کی حکومتیں دفاع کے شعبے کے علاوہ تعلیم اور طب کے شعبے کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش ضرور کرتی ہیں تاکہ یہ شعبے مکمل طور پر تجارتی رنگ میں نہ ڈھل جائیں۔ ان ملکوں میں دفاع کے شعبے میں عالمی برتری برقرار رکھنا ایک ترجیح ہوتی ہے۔ جدید ترین اور نت نئے ہتھیار نہ صرف دنیا میں ان کی حاکمیت قائم رکھتے ہیں بلکہ یہ اسلحہ فروخت کرکے وہ بھاری زرِمبادلہ بھی کماتے ہیں۔ غور کریں تو یہ تمام جدت بھرے ہتھیار ان کی تحقیق ہی کا نتیجہ ہیں جبکہ تحقیق‘ تعلیم کے شعبے کا ہی ایک اعلیٰ درجہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ برطانیہ‘ امریکہ اور کئی دیگر ممالک میں پوری دنیا سے جو لوگ اعلیٰ یا معیاری تعلیم کے لیے جاتے ہیں‘ اس سے یہ ممالک اربوں ڈالر کماتے ہیں۔
اب تاریخ میں قدرے بدنام شہرت کی حامل ایک شخصیت کی طرف چلتے ہیں۔ یہ شخصیت ہٹلر کی ہے‘ جس سے دو اقوال کچھ اس طرح منسوب ہیں کہ اگر آپ کے ملک میں جنگ ہو رہی ہو‘ لوگ مر رہے ہوں تو تباہی سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ آپ اپنے استاتذہ کو بچا لیں۔ یہ قوم کو دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا کر دیں گے۔ اس سے منسوب دوسرا قول کچھ یوں ہے کہ جو استاد تین نسلوں کو پڑھا لے اس سے خبردار رہو کیونکہ وہ انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ ان دونوں باتوں میں کتنی زیادہ صداقت ہے‘ اس کے لیے آج تک کی پوری انسانی تاریخ کا مطالعہ کر لیں تو یہی نچوڑ نکلتا ہے۔ ذرا مکمل یکسوئی سے سوچئے گا کہ دنیا میں ان ملکوں نے بھی ترقی کی ہے جہاں جمہوریت نہیں تھی لیکن دو باتیں ضرور تھیں‘ اول انصاف یعنی کرپشن کا خاتمہ اور دوسرا جدید تعلیم۔ اس دلیل کی سب سے بڑی مثال پہلے جرمنی تھا‘ پھر روس بنا اور آج چین اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اب یہ پوری انسانی تاریخ کا سبق ہے‘ اس لیے اس پر کوئی بحث یا اس حوالے سے کسی دوسری رائے کا کوئی امکان نہیں۔ اس سے آگے بڑھیں تو اندازہ ہوگا کہ دنیا میں عالمی طاقتوں کا تصور بھی تحقیق کے نتیجے میں ہی سامنے آیا تھا‘ جس کا مرکز یورپ تھا۔ اب تو آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ کیسے برطانیہ اور دیگر یورپی طاقتوں نے صنعتی انقلاب کے بعد باقی دنیا کو اپنی کالونیاں بنا لیا تھا۔ یہ صنعتی انقلاب بھی یورپ کی یونیورسٹیوں کی بدولت ہی ممکن ہوا تھا۔
Drained Brain
جب اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ ہنر مند اور کسی پیشے میں مہارت رکھنے والے لوگ اپنا ملک چھوڑ کر کسی دوسرے ملک کوچ کر جائیں تو اس کو برین ڈرین یعنی دماغوں کا اخراج کہا جاتا ہے۔ برین ڈرین ترقی پذیر یا پسماندہ ممالک کا ایک المیہ ہے۔ جب اپنے اپنے شعبوں کے ماہر ڈاکٹر‘ انجینئر‘ کمپیوٹر ایکسپرٹ‘ چارٹڈ اکاؤنٹنٹ ملک سے باہر چلے جائیں تو اس برین ڈرین کی وجہ سے نہ تو ملک میں اچھے معالج دستیاب ہوتے ہیں اور نہ ہی اچھے انجینئرز جو ملک میں صحت کے شعبے اور صنعت کو دورِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکیں۔ ملک کی اشرافیہ‘ جو بے حساب مال و متاع رکھتی ہے‘ ملک میں سیاسی یا معاشی عدم استحکام کی وجہ سے اپنے بچوں اور سرمایے سمیت بیرونِ ملک منتقل ہو جاتی ہے‘ جسے کیپٹل ڈرین کہا جاتا ہے۔ اب یہ دونوں چیزوں کا ڈرین یعنی اخراج مقامی سطح پر ملک و قوم کو پسماندہ کرتا جاتا ہے یا پھر پسماندہ ہی رہنے پر مجبور کرتا ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت تقریباً ایک کروڑ پاکستانی بیرونِ ملک قیام پذیر ہیں اور وہاں ان ملکوں کی ترقی میں بھرپور حصہ ڈال رہے ہیں۔ اور ملک میںمزید کروڑوں افراد بیرونِ ملک منتقل ہونے کی خواہش پال رہے ہیں۔ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح میں انتہائی خطرناک حد تک اضافے کے بعد پاسپورٹ بنوانے والوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ آپ بھارت کی مثال لے لیں۔ اس وقت دنیا کی کتنی ہی بڑی کمپنیوں کے سربراہ بھارتی ہیں لیکن ان افراد کی زیادہ سے زیادہ تعداد چند سوہو گی مگر اس ملک کی کل آبادی ایک ارب 45کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ بھارت ترقی تب کرے گا جب یہ لوگ بھارت کے اندر کمپنیاں چلائیں گے‘ ان کے بیرونِ ملک کمپنیوں میں ملازمت کرتے رہنے سے بھارت ترقی نہیں کر سکتا۔ ویسے بھی یہ معاملہ پاکستان اور بھارت کا نہیں ہے بلکہ دنیا کے ہر اس ملک کا ہے جہاں مقامی طور پر معاشی حالات ٹھیک نہیں یا پھر کشیدگی پائی جاتی ہے۔
اب بات ''ڈرینڈ برین‘‘ کی نئی اصطلاح کی جس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ ملک میں جو دماغ‘ یعنی کام کرنے کی صلاحیت رکھنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں‘ ان کی کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہو جانا یعنی وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار نہ لا سکیں۔ اب اس کی مزید وضاحت یہ بنتی ہے کہ جو لوگ ہنر مند ہیں یا کسی بھی پیشے میں ماہر ہیں‘ اگر وہ کام نہ کر پا رہے ہوں یا پھر مقامی حالات ایسے ہوں کہ ان کی دماغی سکت کم یا ختم ہونا شروع ہو جائے۔ اب اس میں سیاسی افراتفری‘ مہنگائی‘ بجلی سمیت دیگر ضروری سہولیات کی عدم دستیابی اور سب سے بڑھ کر مقامی کرنسی کی قدر میں کمی شامل ہوتی ہے۔ اس وقت پاکستان ایک غیر اعلانیہ معاشی جنگ کا سامناکر رہا ہے۔ مغربی طاقتیں کسی بھی طور پاکستان کو چین کی شکل میں موجود معاشی استحکام کے مواقع سے دور رکھنا چاہتی ہیں۔ معاشی گرداب نے ملک کو ایک معاشی دلدل میں پھنسا رکھا ہے۔ ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ مغرب نے یوکرین کا بدلہ پاکستان سے لینے کی ٹھان رکھی ہے‘ جس میں بھارتی جنگی خواہشات اس شکل میں شامل ہیں کہ بھارت اس وقت امریکہ کی ایما پر چین کے خلاف ایک پراکسی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ جس کے بدلے میں بھارت کو صرف پاکستان کا نقصان مقصود ہے۔ آپ امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کے بیس سالوں ہی کو لے لیں جس کے دوران بھارت نے امریکی چھتری کے نیچے پاکستان کو دہشت گردی کی سب سے بڑی جنگ میں مبتلا رکھا۔ بات ہو رہی تھی ''ڈرینڈ برین‘‘ کی تو جب ہر طرف سے بری خبریں ہی آ رہی ہوں اور حالات ناقابلِ برداشت ہوں تو دماغ کام کرنا چھوڑ ہی دیتے ہیں۔
کوئی مرنے والا ہے
اب بات ایک قول کی جو بہت جاندار ہے اور اشترکیت کے بانی کارل مارکس سے منسوب ہے۔ اس قول کے مطابق صحافت صرف یہ بتانا نہیں کہ کوئی مر گیا ہے‘ بلکہ یہ بتانا ہے کہ کوئی مرنے والا ہے۔ اب اس بات میں بہت زیادہ دم اس لیے بھی ہے کہ پوری دنیا کی تعلیم و تحقیق اس رحجان کی طرف آچکی ہے کہ مستقبل کے متعلق بتایا جائے۔ ہمارے ہاں ویسے یہ کام دست شناسی کرنے والے کرتے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں قدرتی ماحول کی آلودگی کے لحاظ سے جنوبی ایشیا سب سے زیادہ خطرناک صورتحال کا شکار ہے۔ اس کے لیے اس شعبے کے ماہرین کو جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مصنوعی بارشیں اس خطے کا ایک ایسا سہارا ہیں جو اس کو آلودگی سے بچا کر کچھ مزید زندگی مہیا کر سکتی ہیں لیکن اس طرف پورے جنوبی ایشیا کے خطے‘ جسے Worst Asia بھی کہا جا رہا ہے‘ میں تحقیق کرنے اور دوسروں کی کی ہوئی تحقیق پر عمل کرنے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہاں مودی جیسے حکمران تقریروں کی حد تک اپنے اس ملک کے گن گارہے ہیں جو سب سے زیادہ آلودگی پیدا کرتا ہے۔ ان حالات میں اس خطے کے لوگوں کی اوسط عمر کم ہونا شروع ہو چکی ہے۔پنجاب کے تعلیم کے شعبے سے وابستہ لوگوں کا اپنے ان حقوق کے لیے سڑکوں پر آنا‘جو وفاق دے رہا ہے‘ مستقبل کی ایسی تصویر کشی ہے جسے دیکھتے ہوئے کہنا پڑے گا کہ مستقبل میں اس علاقے میں شعبۂ تعلیم مرنے والا ہے کیونکہ اس شعبے کے لوگوں کا دماغ ڈرین ہو چکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں