بات چل رہی ہے بھارت کے اس کردارکی جو اس نے تقسیم و آزادیٔ ہند کے بعد سے آج تک‘ اس علاقے کے سب سے بڑے ملک کے طور پر نبھایا۔ پہلے ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ راقم نے تواتر اور گہرائی سے اس موضوع پر کیونکر لکھا۔ یہ 1987ء کی بات ہے جب جنوبی ایشیا کا جغرافیہ نام کا مضمون کالج کی سطح پر پڑھنا شروع کیا۔ اس مضمون میں آبادی، معیشت، سیاسی تعلقات، قدرتی وسائل اور سب سے بڑھ کر کسی خطے کی تاریخ اور ترقی کا ذکر ہوتا ہے۔ اس مضمون نے سوچ کا رُخ مطالعہ پاکستان سے بڑھا کر پورے جنوبی ایشیا کی طرف کر دیا۔ پھر ''جنوبی ایشیا کا جغرافیہ‘‘ کا مطالعہ ماسٹرز لیول پہ بھی جاری رہا، اس کے بعد معلم کی حیثیت سے بھی اس علاقے کا مطالعہ جاری رہا۔ اب یہی تعلق بطور لکھاری بھی جاری ہے۔ دورِ طالبعلمی میں راجیو گاندھی کے تامل باغیوں کے ہاتھوں قتل کا سانحہ پیش آیا تو پتا چلا کہ بھارت سری لنکا جیسے چھوٹے ملک کے اندرونی معاملات میں بھی دخل اندازی کر رہا ہے۔ یہاں ایک بہت اہم واقعے کا حوالہ دینا بہت ضروری ہے‘ جو کیمرے سے ریکارڈ بھی ہوا۔ ہوا کچھ یوں کہ اندرونی معاملات میں مداخلت کے باوجود بظاہر ایک دوستانہ دورے پر جب راجیو گاندھی سری لنکا کے دورے پر گئے تو ایئر پورٹ پر گارڈ آف آنر پیش کرتے ہوئے ایک فوجی اہلکار‘ جو سری لنکا میں بھارت کے مداخلتی کردار کے ہاتھوں تنگ تھا‘ نے اپنی بندوق کے دستے کو پوری قوت سے راجیو گاندھی کی کمر پر دے مارا۔ راجیو گاندھی کئی فٹ تک لڑکھڑاتے گئے اور بمشکل گرنے سے بچے۔ یہ وڈیو آپ آج بھی انٹر نیٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔
بھارت اور جنوبی ایشیا کی بد قسمتی
اب ایک اور واقعے کی طرف چلتے ہیں۔ نیپال‘ جو دنیا میں ہندومت کو بطور سرکاری مذہب اپنانے والا دنیا کا واحد ملک تھا‘ کو 1989ء میں بھارت کی جانب سے ایک پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ نیپال بھارت اور چین کے درمیان گھرا ہوا ملک ہے‘ اس کے ساتھ چونکہ کوئی سمندر نہیں ہے‘ یہ لینڈ لاکڈ ملک ہے‘ اس لیے اس کی سمندری تجارت مکمل طور پر بھارت کے راستے ہوتی تھی، لیکن بھارت نے اپنی حاکمیت جتانے کے لیے نیپال کو سمندری روٹ دینے پر پابندی عائد کر دی۔ اب نیپال اگر چین سے مدد لیتا تو اس کو چین کے راستے سمندر تک رسائی کے لیے پانچ ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ کا فیصلہ طے کرنا پڑتا۔ یہاں پاکستان ہی وہ ملک تھا جس نے نیپال کو بذریعہ چین اپنی بندرگاہ استعمال کرنے کی اجازت دی۔ یہ متبادل راستہ ملنے کے بعد جلد ہی بھارت نے اپنی پابندی واپس لے لی۔ آپ پاکستان کی جانب سے آفر کو آج کے سی پیک روٹ سے جوڑ سکتے ہیں۔ اب مالدیپ کی طرف چلتے ہیں جہاں پر بھارت نے اسی عرصے میں ایک فوجی آپریشن کیا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ سری لنکا کے کچھ مسلح افراد نے مالدیپ پر حملہ کر دیا تھا اور اس وقت کے حکمرانوں کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی۔ ویسے یہ بات مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے کہ چند لوگوں کا گروپ سری لنکا سے اٹھا اور 980 کلومیٹر سے بھی زیادہ کا فاصلہ طے کرکے سری لنکا سے مالدیپ پہنچ گیا اور مقامی انتظامیہ کو بے بس کر کے پورے ملک کو مفلوج کر دیا۔ بہرکیف‘ اس واقعے کے بعد بھارتی فوج کی فلمی طرز کی انٹری ہوئی اور اس نے مالدیپ کو اس حملے سے ''نجات‘‘ دلائی۔ تب سے اب تک بھارتی فوج مالدیپ میں مستقل ٹھکانے بنا کر بیٹھی ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ اب تقریباً دو سال سے مالدیپ میں بھارتی فوج کے خلاف ''India Out‘‘ نام سے ایک تحریک چل رہی ہے۔
اب آپ نیپال کی بدلتی ہوئی خارجہ پالیسی کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ نیپال نے پہلے ایک نیا جغرافیائی نقشہ بنایا، اسے پارلیمنٹ سے منظور کرایا اور پھر فوراً جاری کر دیا۔ اس نقشے میں تقریباً چار سوکلومیٹر بھارتی علاقے پر نیپال نے اپنا حق جتلایا ہے۔ اس نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نیپال کو اس کا علاقے واپس کرے۔ یہ علاقہ لپو لیکھ اور کالاپانی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ابھی یہ تنازع چل ہی رہا تھا کہ بھارت نے ایک نیا ایشو کھڑا کر دیا۔ گزشتہ ماہ بھارت نے اپنی پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح کیا جس کی ایک دیوار پر ''اکھنڈ بھارت‘‘ کا نقشہ کندہ ہے جس میں افغانستان، پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش، بھوٹان، تبت، سری لنکا حتیٰ کہ میانمار کو بھی اکھنڈ بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ باقی ممالک نے تو صرف اس کی زبانی مذمت کی لیکن نیپال‘ جو بھارت سے کچھ زیادہ ہی عاجز آ چکا ہے‘ نے اس کے جواب میں ''گریٹر نیپال‘‘ کے نام سے ایک نقشہ جاری کر دیا جس میں اس نے اپنے مشرق، مغرب اور جنوب کی جانب بھارتی علاقوں کو اپنا حصہ دکھایا ہے۔ نیپال کی اس بہادری کے پیچھے اس کی اپنی طاقت نہیں ہے بلکہ یہ چین کی طرف سے حاصل حمایت اور تھپکی بول رہی ہے۔ وگرنہ محض تین کروڑ آبادی والا ملک نیپال بھارت کے ایک بڑے ضلع کے ہی برابر ہو گا۔
بڑھتے ہوئے محاذ
بھارت کے ساتھ جن ممالک کی سرحد لگتی ہے‘ ان میں سے جس ملک کا ذکر زیادہ نہیں ہوتا وہ میانمار ہے۔ اس ملک کا پرانا نام برما ہے اور آج بھی ہمارے یہاں یہ اسی نام سے زیادہ جانا جاتا ہے۔ اس خطے کی بدقسمتی کا یہ عالم ہے کہ یہاں کسی ملک کے تعلقات بھارت سے خوشگوار نہیں ہیں۔ بھارت کی ریاست منی پور میں تین ماہ سے جاری فسادات میں عیسائیوں کا نقصان بہت زیادہ ہوا ہے۔ منی پور ریاست کی سرحد میانمار سے ملتی ہے۔ اب منی پور کے لوگ ہجرت کرکے میانمار جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مطلب کہ لوگ بھارت کا شہری ہونے کے باوجود میانمار جانے میں زیادہ تحفظ محسوس کر رہے ہیں۔ منی پور کی ریاست انہی سات شمال مشرقی بھارتی ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ ان سات ریاستوں میں سے ایک اروناچل پردیش ہے جس کی سرحد براہ راست چین سے ملتی ہے۔ چین نے اس ریاست کے لگ بھگ پندرہ علاقوں کو چینی زبان میں نئے نام دے دیے ہیں۔ یہ بدستور اس ریاست پر چین کا بڑھتا ہوا کنٹرول ہے۔ چین کا سرکاری نقشہ دیکھیں تو وہ اس ریاست کو اپنا حصہ ہی دکھاتا ہے۔ اگلی اہم بات یہ ہے کہ یہ ساتھ ریاستیں بنگلہ دیش اور چین کے مابین واقع ہیں اور بھارت کے مین لینڈ سے اس علاقے کا رابطہ ''Chicken Neck‘‘ کی طرح برائے نام اور ایک چھوٹے سے کوریڈور کے ذریعے ہوتا ہے۔
ان سات ریاستوں کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی ریاست سکم ہے۔ اس ریاست کے ساتھ بھوٹان، نیپال اور چین کی سرحد لگتی ہے۔ بھارت نے 1975ء میں اس ریاست پر قبضہ مکمل کیا تھا، جبکہ اس سے پہلے یہ سات ہزار مربع کلومیٹر کی ریاست بھارت سے ایک معاہدے کے تحت چلتی تھی۔ اسی ریاست میں گورکھا بھی آباد ہیں جو اپنی بہادری کی وجہ سے مشہور ہیں۔ بھارت کے اندرونی محاذوں میں یہ ریاست بھی شامل ہو چکی ہے کیونکہ یہاں کے لوگ بھی اب علیحدگی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ تقسیم ہند کے وقت یہ ایک آزاد ریاست تھی۔ اس ریاست میں ''جان مکت مورچہ‘‘ کے نام سے آزادی کی تحریک چل رہی ہے جس کا مطلب ہے کہ جان یعنی زندگی کو نجات دینے والی تحریک۔ اہم بات یہ ہے کہ اس علاقے کے علیحدہ ہو جانے سے نیپال، سکم اور بھوٹان کے ممالک کی ایک لمبی بیلٹ بن جائے گی جو چین اور بھارت کے درمیان فاصلہ پیدا کرے گی۔ آپ اس کو بفر زون بھی کہہ سکتے ہیں۔ بھوٹان اس سلسلے میں پہلے ہی چین سے ایک سمجھوتا کر چکا ہے اور شمال کے علاقے اپنے قبضے میں لے کر بھارت کے ساتھ والے علاقے چین کو دے چکا ہے۔ بھوٹان نے جو علاقہ چین کو دیا ہے وہ بلند و بالا پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ اس حصے پر چین کے کنٹرول کے بعد اس کو بھارتی فوج کے مقابل برتری حاصل ہو چکی ہے۔ چین اور امریکہ کی سرد جنگ کا واضح موڑ آنے کی دیر ہے‘ پھر بھارت کے گھن چکر کا ختم ہونا نوشتۂ دیوار ہے۔