دنیا میں جن چیزوں پر کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا‘ اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی تو دور کی بات‘ اُس کی بقا کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اگر وہاں کرپشن کا دور دورہ ہو۔ بدقسمتی سے وطن عزیز کو کرپشن کی دیوی نے اپنی آغوش میں لے رکھا ہے۔ کسی بھی ملک میں اگر آمریت‘ بادشاہت‘ جمہوریت یا پھر کوئی بھی طرزِ حکومت ہو‘ اگر وہاں کرپشن پر قابو پا لیا جائے تو وہ ملک نہ صرف معاشی استحکام کی منازل طے کر سکتا ہے بلکہ ایک ترقی یافتہ ملک بھی بن سکتا ہے۔ اگر جمہوری طرزِ حکومت کی بات کی جائے تو جن ممالک نے اس طرزِ حکومت کو اس کی روح کے مطابق اپنے ہاں نافذ کیا انہوں نے آسانی سے ترقی کی منازل طے کیں اور جہاں جمہوریت کی آڑ میں خاندانی آمریت کو فروغ دیا گیا وہ ہر میدان میں پیچھے رہ گئے۔ بدقسمتی سے وطنِ عزیز میں بھی جمہوریت محض ایک ڈھکوسلہ ہے اور یہاں خاندانی آمریت کا راج ہے۔ آپ نے بہت سے لوگوں سے یہ بات دلائل کیساتھ اور تواتر سے سنی ہو گی کہ اگر ہمارے ملک میں جمہوریت کی گاڑی بار بار پٹڑی سے نہ اترتی تو آج ہمارا شمار بھی ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا۔ اس دلیل کو لے کربھارت کی طرف چلتے ہیں جہاں ایک دن کے لیے بھی جمہوریت پٹڑی سے نہیں اتری‘ ماسوائے اندراگاندھی کی تقریباً دو سالہ ایمرجنسی کے دوران لیکن اُس ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی آج بھی غربت کی لکیر سے نیچے رہتی ہے۔ دوسری مثال کے لیے چین کی طرف چلتے ہیں‘ جہاں یک جماعتی نظام پایا جاتا ہے جسے مغرب والے جمہوریت نہیں مانتے لیکن یہ ملک آج دنیا کی دوسری بڑی طاقت ہے۔ دنیا کی اتنی بڑی طاقت بننے کے لیے کرپشن کے خاتمے کے بعد تعلیم و تحقیق کو ترجیح بنانا ضروری ہے اور کرپٹ ممالک میں تعلیم و تحقیق کا شعبہ بھی کرپشن کی نظر ہو جاتا ہے۔ چین سے پہلے روس جمہوری طرزِ حکومت کے بغیر دنیا کی تیز ترین رفتار سے معاشی طاقت بننے کی بڑی مثال ہے جو 1917ء میں ایک اشتراکی انقلاب کے نتیجے میں آزاد ہوا اور پھر دنیا کی ایک بڑی طاقت بنا۔ اس ملک نے دوسری عالمی جنگ میں جرمنی جیسی طاقت کو شکست دی اور اس کے بعد امریکہ کا دنیا کی دوسری بڑی طاقت کے طور مقابلہ کرتا رہا۔ یاد رہے کہ چین کی ترقی کی راہ میں کرپشن ایک بڑی رکاوٹ تھی لیکن چین کے لوگ اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے اس قدر سنجیدہ تھے کہ وہاں کرپٹ لوگوں کے لیے سزائے موت تک کو قبول کر لیا گیا۔
بھارت بمقابلہ چین
ہم چونکہ دو ممالک کا موازنہ کرنے جا رہے ہیں تو پہلے بھارت کی بات کرتے ہیں جس کے پاس آزادی کے وقت ایک بڑا انفراسٹرکچر موجود تھا۔ اس میں ریل کا نظام‘ سڑکوں کا جال‘ تعلیمی ادارے اور دیگر بہت ساری چیزیں‘ جو گورے نے اپنے لیے بنائی تھیں‘ لیکن بہر حال وہ بھارت کے حصے میں آچکی تھیں۔ دوسری طرف چین کے اندر غربت اپنی انتہا پر تھی‘ لوگ دو وقت کی روٹی کو ترستے تھے۔ تعلیم کا کوئی نام و نشان بھی نہ تھا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ چین چونکہ ایک اشتراکی انقلاب کے تحت آزاد ہوا تھا اس لیے اسے عالمی طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا تھا۔ امریکہ نے 1970ء کی دہائی میں جا کر چین کو اس وقت تسلیم کیا تھا جب چین کے ساتھ پہلی دفعہ اس کے تعلقات قائم ہوئے تھے۔ چین کے بانی لیڈر ماؤزے تنگ چونکہ ایک سخت گیر قسم کے اشتراکیت پسند تھے‘ اس لیے بھی چین کو معاشی طور پر آگے بڑھنے میں دقت پیش آئی۔ چین کے لیے سب سے بڑا بوجھ اس کی آبادی تھی جو مسلسل بڑھ رہی تھی۔ پھر اس ملک نے انسانی تاریخ کے سخت گیر فیصلے لیے۔ آبادی پر قابو پانے کے لیے 1979ء میں چین نے انسانی تاریخ کا ایک انتہائی پیچیدہ فیصلہ لیا جس کے تحت چین میں ایک جوڑے کو صرف ایک بچہ پیدا کرنے کا پابند بنایا گیا۔ اس کے بعد چین اشتراکیت کے قوانین کو نرم کرکے بیرونی سرمایہ کاری کا گڑھ بن گیا۔ اپنی قوم کو اس طرح تعلیم و ہنر سے آراستہ کیا کہ عالمی سرمایہ کاری سستی لیبر کی وجہ سے ایک سیلاب کی طرح چین کی طرف آئی۔ اسی طرح چین نے کرپشن کی لعنت کے خلاف سخت گیر فیصلے کرکے معیشت کو مضبوط بنیادیں فراہم کیں۔ دوسری جانب بھارت نے آزادی کے بعد سب سے زیادہ زور خاندانی آمریت کے زیر تسلط رہ کر جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے پر لگایا۔ اس ملک نے اپنے مسائل کے تدارک کے بجائے ہمسایہ ممالک میں مداخلت کو اولین ترجیح بنایا جو ایک طرح سے علاقائی سطح کی دہشت گردی تھی۔ بھارت نے بظاہر تو جمہوری طرزِ حکومت کو ہی اپنائے رکھا لیکن اپنے ہاں گورے کے قائم کردہ سول بیوروکریسی نظام کو بھی نہ چھوڑا۔ بھارتی حکومت نے اسی نظام کے تحت اپنی بنیادیں مضبوط کیں۔ اس نظام کے تحت بھارتی حکمرانوں نے گورے کی طرز پر شاہانہ قسم کے اختیارات کو ذاتی مفادات‘ جاہ و جلال اور کرپشن کے لیے استعمال کیا۔ یوں بھارت میں بیوروکریسی کا کرپٹ سیاست دانوں کے ساتھ ایک گٹھ جوڑ ہو گیا۔ اب بیوروکریسی الیکشن میں کامیابی کے لیے سیاست دانوں کی مجبوری بن گئی۔ آج بھی بھارت میں پاکستان ہی کی طرح لوگ مقابلے کا امتحان پاس کرکے افسر بننا پسند کرتے ہیں جس کو بظاہر سول سروس کہا جاتا ہے لیکن بھارت کے یہ سول سرونٹ اب گورے کے دورِ حکمرانی کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں کیونکہ گورے کے دور کی بیوروکریسی اپنے ملک اور تاجِ برطانیہ سے وفادار رہتے ہوئے کام کرتی تھی‘ لیکن بھارت کی موجودہ بیوروکریسی بھارت کے خودساختہ سیکولر ملک کے تشخص کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف حکومتی آلہ کار کا کردار ادا کر رہی ہے جو کہ بہرحال بھارت کے لیے نقصان دہ ہے۔ وہ بھارت کی آبادی کو ہندو اور غیرہندو میں تقسیم کرنے میں حکومت کی سب سے بڑی معاون بن چکی ہے۔ بھارت کی متعدد ریاستوں میں اس وقت غیرہندو آبادی کا جینا محال ہو چکا ہے‘ وہاں فسادات ہو رہے ہیں‘ غیر ہندوؤں کی املاک جلائی جا رہی ہیں‘ ان کی جانیں لی جا رہی ہیں لیکن بھارتی حکومت اور بیوروکریسی سب اچھا ہے کا راگ آلاپ رہی ہے جس کا مقصد صرف آنے والے الیکشن میں مودی کو دوبارہ الیکشن جتوانا ہے۔ یہ سب قومی سطح کی کرپشن ہے‘ جس میں بھارتی عوام کا نقصان ہی نقصان ہے۔
حقیقت یا ڈرامے
اس ضمن میں اگر آپ کو کچھ واضح شواہد کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے تو زیادہ دور نہ جائیں‘ صرف بھارت کی فلموں کو ہی دیکھ لیں جن میں کرپشن کا کلچر اسی طرح کھلے عام دکھایا جاتا ہے جس طرح یہ بھارت میں کھلے عام رائج ہے۔ واضح رہے کہ کرپشن کو بھارتی فلموں کا کوئی ذیلی موضوع ہی نہیں بنایا جاتا بلکہ پوری کی پوری فلمیں اسی موضوع کے گرد گھومتی ہیں۔ جنوبی ایشیا کے خطے میں اب یہ عالم ہے کہ اب یہاں جھوٹ بولنے کو سیاسی بیان سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ کرپشن ایک سیاسی عمل بن چکی ہے۔ اب تو حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اگر کروڑوں کی کرپشن کا کوئی کیس سامنے آئے تو لوگ اسے کوئی وقعت ہی نہیں دیتے کیونکہ اب سیاستدان اربوں کے گھپلے کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی کرپشن اس قدر ہے کہ چند سال پہلے تک کرپشن کی عالمی رینکنگ میں اس کا شمار کرپٹ ترین ممالک میں ہوتا رہا ہے۔ اس ضمن میں ایک مزیدار بات یہ ہے کہ کرپشن کی اس رینکنگ میں نائیجیریا کو پہلا نمبر دلوانے کے لیے بھی کرپشن کی گئی تھی۔ بدقسمتی سے ویسے تو ملکِ عزیز میں ہر شعبے میں کرپشن نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں لیکن فی الحال بجلی کے شعبے کی بات کرتے ہیں۔ لوگ اس وقت بجلی کے بلوں کا رونا رو رہے ہیں اور بجلی کی قیمت میں روز افزوں اضافے پر حکومت کو کوس رہے ہیں لیکن اس مہنگی بجلی کی وجہ صرف حکومت کی ناقص منصوبہ بندی ہی نہیں ہے بلکہ اس کی ایک بڑی وجہ بجلی چوری بھی ہے۔ حالیہ دنوں یہ انکشاف ہو چکا ہے کہ ملک میں سالانہ 589ارب کی بجلی چوری ہو تی ہے اور یہ سارا بوجھ حکومت بجلی صارفین پر ڈال دیتی ہے لیکن جوں جوں حکومت بجلی کے نرخ بڑھاتی جاتی ہے بجلی چوری میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ اب لوگ نے گرمی کے باقی دنوں کو انگلیوں پر گننا شروع کر دیا ہے کہ کب گرمی کا موسم ختم ہوگا اور کب وہ اپنے ایئر کنڈیشنڈ بند کریں گے تاکہ ان کا بجلی کا بل کم ہو سکے۔(جاری)