کسی بھی ملک کے حساس اداروں کو اس کی حفاظت، بقا اور برتری کے لیے آنکھوں کا درجہ دیا جاتا ہے۔ ویسے اگر اس تصور کو بہتر انداز میں بیان کریں تو یہ ادارے آنکھوں کے علاوہ کان کا کام بھی کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک تصور اور نظریہ ہے کہ جو کچھ دو انسانی آنکھیں، مطلب عام لوگ حتیٰ کہ بڑے آفیسر اور سیاسی عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگ بھی نہیں دیکھ پاتے‘ وہ سب کچھ بھی یہ ادارے دیکھ لیتے ہیں۔ آنکھوں کے حوالے سے قائم اس تصور کی ایک تاریخی بنیاد ہے جس کو تیسری آنکھ کہا جاتا ہے۔ یہ تصور سب سے پہلے بدھ ازم کے پیشوا مہاتما بدھ نے دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب گوتم بدھ کو نروان حاصل ہو گیا تو انہوں نے کہا تھا: My third eye is opened۔اس سے مراد یہ تھا کہ میں نے وہ کچھ دیکھ اور جان لیا ہے جو دو ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ اڑھائی ہزار سال سے بھی زیادہ پرانا قصہ ہے۔
تیسری اور خفیہ آنکھ
گوتم بدھ کی بات تو روحانیت و تصوف سے متعلق ہے مگر جدید دور میں تیسری آنکھ کی اصطلاح خفیہ ایجنسیوں کے لیے استعمال کی جاتی رہی۔ خفیہ ادارے اپنے لیے کام کرنے والوں کے ذریعے معلومات اکٹھی کرتے تھے۔ وقت بدلنے کے ساتھ معلومات اکٹھی کرنے کے لیے آلات کا استعمال شروع ہو گیا۔ اس حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا انکشاف اور سکینڈل امریکی سرزمین ہی سے سامنے آیا تھا جب ستر کی دہائی میں امریکی صدر نکسن کے کہنے پر مخالف سیاسی پارٹی کے دفتر میں خفیہ آلات نصب کیے گئے تھے تا کہ مخالف سیاسی پارٹی کی حکمت عملی اور الیکشن جیتنے کی کوششوں کے بارے علم ہو سکے۔ یہ آلات جس بلڈنگ میں لگائے گئے تھے اس کا نام ''واٹر گیٹ‘‘ تھا، یہی واٹر گیٹ سکینڈل تھا جو بعد ازاں میڈیا پہ بہت زیادہ اچھالا گیا اور بالآخر صدر نکسن کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ واضح رہے کہ امریکی جمہوریت کے تقریباً اڑھائی سو سالوں میں یہ واحد امریکی صدر ہیں جن کو مستعفی ہونا پڑا۔ مزید یہ کہ اسی واقعے کے بعد ہی سے میڈیا کوریاست کا چوتھا ستون قرار دیا گیا تھا۔
انسانی ذرائع کے ذریعے معلومات اکٹھی کرنا تیسری آنکھ سمجھا جاتا تھا لیکن اب خفیہ آلات ہی ایجنسیوں کی آنکھیں اور کان بن گئے ہیں۔ چونکہ یہ خفیہ معلومات کا اگلا اور انوکھا ذریعہ بنے لہٰذا ان کو چوتھی آنکھ کا درجہ دیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی میں مزید جدت آئی اور بات مصنوعی ذہانت تک جا پہنچی تو پھر اس کو پانچویں آنکھ قرار دیا گیا۔ اب مصنوعی ذہانت اور خصوصی آلات کے ذریعے آپ جب چاہیں، جس کی چاہیں اور جو چاہیں معلومات اکٹھی کر سکتے ہیں۔ اب بات آتی ہے دنیا کے جدید ممالک کے خفیہ معلومات کے اتحاد کی‘ جس کوFive Eyesکہا جاتا ہے۔ اس اتحاد کے نام کی وجہ بھلے پانچ ممالک کا ایک جگہ اکٹھے ہونا ہے لیکن معلومات اور جاننے کے تصور کے لحاظ سے بھی یہ ایجنسیاں پانچویں جنریشن سے تعلق رکھتی ہیں اس بنا پر بھی یہ اتحاد بجا طور پر پانچ آنکھوں والا اتحاد کہلا سکتا ہے۔ یہاں پر انگلش کا ایک محاورہ یاد آتا ہے: All eyes are on someone۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پر سب کی نظریں ٹکی ہوئی ہیں۔ یہ فقرہ آپ نے کرکٹ میچ کی کمنٹری میں بھی سنا ہوگا۔ جب بیٹنگ کرنے والی ٹیم کا کوئی آخری کھلاڑی بچا ہو‘ جو میچ جتوا سکتا ہو‘یا ایسا بائولر‘ جو آخری اوور کرا رہا ہو اور مخالف ٹیم کا ہدف بہت کم بچا ہو تو ایسے میں اس بائولر سے یہ امید وابستہ ہوتی ہے کہ وہ مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کو آئوٹ کر دے گا یا سکور نہیں ہونے دے گا۔ ان دونوں افراد کے لیے مذکورہ بالا محاورہ بولا جاتا ہے اور اس وقت واقعتاً سب کی نظریں اُن پر ہی ٹکی ہوتی ہیں۔لیکن یہاں یہ فقرہ بھارت سے متعلق بھی بولا جا سکتا ہے کہ ''All eyes are on India‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب تمام لوگوں بشمول بھارت کی عوام کی نظریں بھارت اور اس کے اداروں پر ٹکی ہوئی ہیں کہ وہ اس صورتحال میں کیا کرتے ہیں۔
RAW کی خام اور بند آنکھیں
جس طرح پچھلے کالم میں ذکر ہوا تھا کہ RAW لفظ کا مطلب کسی چیز کا خام یا ابھی ابتدائی حالت میں ہونا ہوتا ہے‘ اس تناظر میں اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کی یہ ایجنسی بھی ابھی تک خام اور ابتدائی لیول پر ہے اور اس کی آنکھیں اتنا بھی کام نہیں کرتیں کہ جان سکیں کہ جو کام اس کے لوگ کرنے جا رہے ہیں وہ اس کے ملک کی برتری نہیں بلکہ بربادی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس سارے معاملے میں بھارت نے جو سب سے بڑا نقصان اٹھایا ہے وہ خالصتان کے ایشو کا پوری دنیا میں اجاگر ہونا ہے۔ اب پوری دنیا خالصتان ایشو پر بات کر رہی ہے اور اتنی شہرت اس حوالے سے تحریک چلانے والوں کی کوششوں کو بھی نہیں ملی تھی۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ اب خالصتان کا معاملہ بھارت کے سکھوں سے زیادہ عالمی دنیا کے جدید یعنی مغربی ممالک میں بھی اٹھایا جانے لگا ہے اور اب اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ اس تحریک کا گڑھ یا مرکز یہی ترقی یافتہ ممالک بن چکے ہیں۔ جو بات سب سے زیادہ اہم ہے اور جو بھارت کی خام بلکہ خراب یا بند آنکھوں والی ایجنسی بالکل نہیں دیکھ سکی وہ یہ کہ اب خالصتان کی تحریک پورے جوبن پر ہے اور پوری دنیا میں اس کی صدائیں سنائی دے رہی ہیں۔
اگر بات نئی عالمی طاقت چین اور اس کے اداروں کی کریں تو پتا چلتا ہے کہ ان کی آنکھیں پوری طرح سے بھارت کے معاملات پر مرکوز ہیں اوروہ مکمل کھلی آنکھوں سے اسے دیکھ رہے ہیں۔اگر آنکھیں صحیح طرح سے کام کر رہی ہوں تو دماغ تک درست بات پہنچتی ہے اور فیصلہ تو دماغ ہی نے کرنا ہوتا ہے۔ بھارتی ایجنسیاں اتنی کج فہم تھیں کہ وہ اندازہ ہی نہ لگا سکیں کہ ان پر چین کے اداروں کی بھی خاص نظر ہے۔ اب چین کے ادارے ہوں یا حکومت‘ دونوں اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ یورپ کے ممالک بھی اب چین کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ یورپ کا چین سے فاصلہ ہزاروں میل کا ہے، لیکن ان کے ادارے چین کو دیکھ رہے ہیں۔ اور بھارت‘ جو چین کا پڑوسی ملک ہے‘ وہ اس کی طاقت، اثرورسوخ اور حکمت عملی کو نہیں دیکھ پا رہا۔ اگر وہ یہ سب کچھ دیکھ رہا ہوتا تو اپنی قریبی عالمی طاقت کو چھوڑ کر ہزاروں کلومیٹر دور‘ چین مخالف گروپ کے ساتھ کبھی کھڑا نہ ہوتا۔
اس ساری صورتحال کا یہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی کی قریب اور دور‘ دونوں نظریں خراب ہے۔ اول تو نظر کمزور ہے، زیادہ نظر نہیں آتا، اور جو کچھ نظر آتا ہے وہ بھی دھندلا دھندلا دکھائی دیتا ہے۔ اس خراب نظر کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ اس ایجنسی کو اپنے ملک کے اندر پوری شدت سے جاری خانہ جنگی والی صورتحال نظر نہیں آرہی۔ یہاں پر کینیڈا کے وزیر اعظم کے بیان کے علاوہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورۂ امریکہ کے موقع پر سابق امریکی صدر براک اوباما کا دیے جانے والا انٹرویو بھی یاد آتا ہے۔
صدر اوباما نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ بھارت اپنے ملک میں اقلیتوں کے ساتھ جاری سلوک کی وجہ سے ٹکڑوں میں تقسیم ہوسکتا ہے۔ اسی تناظر میں کئی سال پہلے بھارت کے سابق آرمی چیف جنرل بپن راوت کی جانب سے دیا گیا بیان بھی یاد آ رہا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بھارت اڑھائی محاذوں پر نہیں لڑ سکتا۔ ان اڑھائی محاذوں میں سے چین اور پاکستان کے دو محاذوں کے علاوہ آدھا محاذ بھارت کے اندر جاری علیحدگی پسند تحریکوں کو قرار دیا گیا تھا، اس وقت بھارت میں چلنے والی آزادی کی بڑی تحریکوں کی تعداد کم از کم بیس ہے۔ بھارت کی ایجنسی اپنی خراب آنکھوں کی وجہ سے یہ تک نہیں دیکھ پا رہی کہ کشمیر اور منی پور وغیرہ تو دور‘ خالصتان کی تحریک ہی اب ایک پورا محاذ بن چکی ہے۔