کرکٹ ورلڈ کپ اور بھارت

چین سے ملحقہ سرحد کے قریب بھارت کے شہر 'دھرم شالا‘ کے پہاڑوں میں گھرے گرائونڈ میں بھی کرکٹ ورلڈکپ کے مقابلے جاری ہیں۔ یہ وہی شہر ہے جہاں بھارت نے چین کے خود ساختہ جلاوطن روحانی لیڈر ''دلائی لامہ‘‘ کو پناہ دے رکھی ہے۔ دلائی لامہ نے یہیں پر اپنی ''جلا وطن حکومت‘‘ بھی بنا رکھی ہے۔ انگلینڈ اور افغانستان کے مابین میچ سے پہلے افغانستان کے کھلاڑیوں کے جو احساسات نشر کیے گئے ان میں سب سے اہم بات یہ کہی گئی کہ ''ایک دن آئے گا جب ہم اپنے ملک میں‘ اپنے لوگوں کے سامنے بھی کھیلیں گے‘‘۔ افغان کھلاڑیوں نے اپنے کیریئر کے بیشتر میچ بھارت میں کھیلنے کا بھی ذکر کیا۔ یاد رہے کہ افغانستان نے اپنی پہلی عالمی سیریز بھارت ہی میں کھیلی تھی۔ حالیہ کرکٹ ورلڈکپ نے حسبِ توقع بھارت کو ایک مصنوعی اور انجانی خوشی میں مبتلا کر رکھا ہے بلکہ یوں کہیں کہ پورے جنوبی ایشیا میں آج کل کرکٹ ہی سب ہی بڑی خبر ہے۔ جہاں اس وقت بھارت میں کرکٹ کا ورلڈکپ جاری ہے‘ وہیں ایک میچ بلکہ ایک 'کپ‘ بھارت کے ہاتھوں سے تیزی سے نکل رہا ہے۔ یہ میچ بھارت اور چین کے سرحدی علاقوں میں جاری ہے اور اب اگلے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ چین نے ورلڈ کپ کے عین افتتاح کے موقع پر بھارت کی ریاست اروناچل پردیش کے قریب Nyingchi شہر میں ایک علاقائی میٹنگ کی جس میں افغانستان، پاکستان، نیپال اور منگولیا کے حکام نے بھی شرکت کی۔ یہ بجا طور پر ایک سیاسی کپ ہے جس میں علاقائی ملک کے طور پر بھارت کو بھی شامل ہونا چاہیے تھا لیکن چین نے اسے مدعو ہی نہیں کیا۔ یہ میٹنگ ایک علاقائی فورم Trans-Himalaya Forumکے تحت ہوئی اور اس کی تیسری میٹنگ تھی۔
کرکٹ ہی سب سے بڑی خبر ہے
ویسے کرکٹ ورلڈ کپ کے دنوں میں چین میں ایشین گیمز کے مقابلے بھی ہوئے لیکن جو بات بھارت میں جاری ورلڈکپ کی ہے‘ وہ ایشین گیمز کی نہیں۔ اس ورلڈکپ کے پہلے میچ میں ایک ریکارڈ یہ بنا کہ انگلینڈ کی ٹیم نے پہلے بیٹنگ کی تو ایک انوکھا ریکارڈ یہ بنایا کہ اس کے تمام کے تمام یعنی دس کھلاڑیوں نے دہرا ہندسہ سکور کیا، یعنی انہوں نے دس یا دس سے زیادہ سکور بنائے؛ تاہم انگلینڈ یہ میچ برے طریقے سے‘ نو وکٹوں سے ہار گیا۔ اس ورلڈکپ کی خبریں لمحوں کے حساب سے آتی ہیں جو صرف کھیل کے میدان تک ہی محدود نہیں ہوتیں بلکہ میدان سے باہر کھلاڑیوں کی سرگرمیاں، پسندیدہ کھانے، مختلف لوگوں سے ملاقات وغیرہ‘ سب کچھ میڈیا میں بھرپور طریقے سے رپورٹ ہو رہا ہے۔ سب سے زیادہ اہم خبر مختلف سابق کھلاڑیوں کی جانب سے کی جانے والی پیش گوئیاں ہیں جو اس ورلڈکپ کی جیت کے بارے میں کی جا رہی ہیں۔ اسی طرح ایک پوسٹ ممکنہ چار ٹیموں کے حوالے سے ہے جو سیمی فائنل تک رسائی کے زیادہ چانسز رکھتی ہیں۔ بڑے بڑے عالمی میڈیا ادارے بھی اس دوڑ میں شریک ہیں۔ کچھ سوشل میڈیا ''ارسطو‘‘ اس قسم کی پوسٹس کے ذریعے اپنی ریٹنگ بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ میڈیا گروپس لوگوں کی پسندیدگی کی دوڑ کو جیتنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔
بظاہر تو کرکٹ کا ورلڈ کپ ہو رہا ہے مگر اس کے پس منظر میں ایک بہت بڑا کاروبار اشتہارات کا بھی جاری ہے۔ اگر آپ میچ کسی عالمی مغربی چینل پر دیکھیں تو ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہر اوور کے اختتام پر اشتہارات نہیں دیکھنا پڑتے۔ لیکن اگر آپ میچ کسی بھی جنوبی ایشیائی چینل پر دیکھتے ہیں تو ان ممالک کی معاشی مجبوریاں آپ کو ہر اوور کے بعد ایک یا متعدد اشتہارات کی صورت میں نظر آتی ہیں۔ یہاں ایک اشتہار کا حوالہ ضروری ہے جو بھارت کے ایک چینل پر بالی وُڈ کنگ شاہ رخ خان کی آواز میں دیکھنے کو ملا۔ اس اشتہار میں ایک آواز ابھرتی ہے کہ ''بھارت چھوٹی ٹیموں کے خلاف بڑے سکور کرے گا‘‘۔ اس اشتہار کے الفاظ بھارت کی سیاست اور اس کی حکومتوں کی روزِ اول سے جاری پالیسیوں کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ بھارت شروع سے لے کر آج تک‘ چھوٹے پڑوسی ممالک کے ساتھ یہی سلوک کرتا آیا ہے اور ان کے سامنے خود کو ایک بڑے ملک کے طور پر پیش کرتا ہے۔ لیکن اب ان چھوٹے ممالک میں سے دو ملکوں‘ نیپال اور بھوٹان نے اپنی خارجہ پالیسی کا رخ چین کی جانب موڑ کر بھارت سے جان چھڑا لی ہے۔ نیپال کی بات کی جائے تو اس نے تو باضابطہ طور پر بھارت کو اُسی کی زبان میں جواب دینا شروع کر رکھا ہے۔ چین کی جانب سے حالیہ 'ٹرانس ہمالیہ میٹنگ‘ میں نیپال کی شرکت اس کا واضح اظہار ہے۔
بات واپس کرکٹ ورلڈکپ کی‘ اس ورلڈ کپ کو زیادہ دلچسپ اور تجسس انگیز بنانے کیلئے انتظامات کچھ ایسے کیے گئے کہ لوگوں کی زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کی جائے لیکن اب تک ہوئے میچز میں لوگوں کی بہت ہی کم تعداد نے گرائونڈ میں بیٹھ کر میچ دیکھا ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ اس کی وجہ معاشی بدحالی ہے یا پھر بہت ہی زیادہ کرکٹ‘ جو بھارت میں سارا سال جاری رہتی ہے، اس نے لوگوں کی دلچسپی کرکٹ میں کم کر دی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کرکٹ میں بھارتی میوزک کا تڑکا بہت کم ہے۔ بھارت میں ہو رہے ورلڈکپ کی بات ہو اور 2011ء کے ورلڈکپ کا ذکر نہ ہو‘ یہ کیسے ممکن ہے؟ بھارت میں ہونے والے اس سابقہ ورلڈکپ کو بھارت نے مبینہ طور پر فکس کرکے اپنے پاس ہی رکھ لیا تھا۔ یاد رہے کہ 2011ء کے ورلڈ کپ کے بارے میں اس وقت یقین کی حد تک ان خدشات کا اظہار کیا گیا تھا کہ یہ ورلڈ کپ بھارت نے فکس کر رکھا ہے۔ اس حوالے سے چند سال قبل سری لنکا کے وزیر سپورٹس مہندا نندا الوتھ گاماگے نے یہ بیان بھی دیا تھا کہ یہ ورلڈ کپ سری لنکا نے بھارت کو ''فروخت‘‘ کیا تھا اور سری لنکا کے دو بڑے کھلاڑیوں سے اس کی تحقیقات بھی کی گئی تھیں لیکن بعد میں یہ سارا معاملہ دب گیا، یا دبا دیا گیا۔
سیاسی ورلڈکپ میں بھارت کے خلاف چین کے پوائنٹس
کرکٹ کی دنیا سے باہر آئیں تو پتا چلتا ہے کہ عالمی حکمرانی کا ورلڈ کپ بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اس میں چین کو وقتی طور پر معاشی ترقی کی رفتار میں کمی کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے لیکن مقامی طور پر کسی بڑے بحران کا آثار دور دور تک نظر نہیں آتے۔ اس کے مقابل امریکہ نے تاحال ہر ممکن کوشش کی ہے کہ وہ چین کو روکے۔ پاکستان میں چند اہم غیر ملکیوں کی سرگرمیوں سے ایک بڑا اشارہ بھی ملتا ہے لیکن ایک محاذ پر امریکہ شدید مشکلات کا شکار ہو گیا ہے اور وہ ہے یوکرین کا جنگی محاذ‘ جس کی عسکری و مالی مدد میں اب مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ امریکی صدر نے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اس امداد کے رک جانے سے یہ جنگ یعنی یوکرین کی مدافعت بھی رک جائے گی۔ اسی صورتحال کے پیش نظر اب تائیوان نے بھی خدشے کا اظہار کیا ہے کہ امریکی مدد میں کسی بھی قسم کی کمی کی صورت میں چین بہت ہی قلیل وقت میں تائیوان پر قبضہ کر لے گا۔ تائیوان کے اس حقیقت پسندانہ بیان کے تناظر میں بھارت کی ادائوں پر غور کریں تو وہ ''ہنوز دلی دور است‘‘ والی صورتحال کا شکار نظر آئے گا۔ بھارت کی پالیسیوں اور حکمت عملی کو دیکھیں‘ وہ ایشیا کا واحد بڑا ملک ہے جو کھلم کھلا اسرائیل کی حمایت کر رہاہے‘ یہ جانتے ہوئے بھی ایشیا کی دو عالمی طاقتیں اس وقت امریکہ کی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف کھل کر کھڑی ہیں اور اس سے نبرد آزما بھی ہیں۔ کرکٹ ورلڈکپ پر ایک خوبصورت تبصرہ کچھ یوں کیا گیا کہ بنگلہ دیش اور آئرلینڈ جیسی ٹیمیں بڑی ٹیموں سے میچ ہار کر صرف مخالف ٹیموں کو پوائنٹس دینے کیلئے کھیل رہی ہیں۔ عین اسی طرح بھارت دنیا میں جاری عالمی برتری کی جنگ میں تاحال صرف چین کو پوائنٹس دینے کیلئے مغربی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔ اس صورتحال کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے علاوہ جنوبی ایشیا بھی ایک میدانِ جنگ برپا ہے جس میں امریکی مداخلت کم ہونے کے ساتھ‘ پاکستان معاشی چنگل سے نکلتا اور بھارت اس کشمکش میں ہارتا نظر آ رہاہے۔ یہ کرکٹ کا ورلڈکپ نہیں جسے بھارت فکس کر سکے بلکہ یہ عالمی سیاست کا مقابلہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں