بارش کس طرح سے سموگ جیسی جان لیوا آلودگی کو ختم کرنے کی حد تک کم کر سکتی ہے‘ اس کا عملی مظاہرہ ہم جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب ہونے والی بارش سے دیکھ چکے ہیں۔ یہ بارش پاکستان کے پڑوسی ملک میں بھی ہوئی جس سے دہلی شہر کی سموگ بھی دھل گئی۔ اب جو خبر دہلی کے حوالے سے آئی تھی کہ دہلی حکومت وہاں مصنوعی بارش برسانے کا سوچ رہی ہے‘ پتہ نہیں حالیہ بارش سے سموگ دھلنے کے بعد اگر وہاں دوبارہ سموگ بنتی ہے تو مصنوعی بارش کروائی جاتی ہے یا نہیں لیکن دہلی حکومت کو ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ اگر یہ دس سے پندرہ روز کے بعد وہاں مصنوعی بارش کروا لیتی ہے تو سموگ کی وجہ سے اسے نہ تو ٹریفک پر پابندی لگانا پڑے گی اور نہ ہی تعلیمی ادارے بند کرنا پڑیں گے۔ اسی طرح پاکستانی پنجاب میں سموگ کی وجہ سے چھٹیاں کروانے کا اقدام اس لیے بے وقت ثابت ہوا کہ دوسری چھٹی والے دن ہی بارش ہو گئی اور ساری سموگ دھل گئی۔ اگر بات کریں ہوا کی کوالٹی کی‘ جس میں شہری سانس لیتے ہیں‘ تو واضح رہے کہ اس بارش کے بعد بھی ہوا مکمل صحت مند یا محفوظ نہیں ہو سکی ہے۔ آپ ہوا کی کوالٹی بتانے والی عالمی ویب سائٹس پر جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ لاہور میں ہوا کا معیار بارش کے بعد بھی خطرناک والی شرح سے کم ہو کر بمشکل غیرمعیاری والی شرح پر ہی آ پایا ہے لیکن ہم پھر بھی خوش ہیں کہ چلیں اُس آفت نما حالت سے تو باہر نکلے۔ اگر ہوا کی بات کریں تو یہ تقریباً پورا سال‘ سوائے مون سون کے مہینوں کے جب مسلسل بارشیں ہوتی ہیں‘ غیر معیاری ہی رہتی ہے۔ اسی لیے تو جنوبی ایشیا کے تمام بڑے شہروں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہاں ایک دن سانس لینے کا مطلب روزانہ بیس سگریٹ پینے کے برابر ہے۔ سموگ کے دنوں میں تو یہ معیار چالیس سگریٹ روزانہ کے برابر ہو جاتا ہے۔
کیا‘ کیوں‘ کیسے اور کہاں
اب اگر ایک خبر کے لوازمات کیا‘ کیوں‘ کیسے اور کہاں کی طرف چلیں تو سموگ کے دنوں میں یہ تمام لوازمات پورے ہو جاتے ہیں۔ کیا کا جواب یہ بنتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں سموگ نام کی آفت اکتوبر کے مہینے میں آتی ہے جو ایک زہریلی دھندہے۔ کیوں کا جواب ڈھونڈنے کیلئے بات تھوڑی لمبی ہو جائے گی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ایک غریب خطہ ہے جہاں لوگوں کے لباس اور خوراک کی طرح ان کے زیر استعمال موٹر سائیکل‘ رکشے اور گاڑیاں بھی پرانی‘ ناکارہ اور غیرمعیاری ہوتی ہیں۔ ان میں سے بہت ساری دھواں چھوڑتی ہیں بالخصوص ٹرک‘ بسیں اور ٹریکٹر جو ڈیزل پر چلتے ہیں۔ اب جن سڑکوں اور راستوں پر یہ ٹریفک چلتی ہے‘ وہاں مٹی اور آلودہ مواد ضرو موجود ہوتا ہے۔ جب ٹریفک رواں ہوتی ہے تو یہ مٹی اڑ کر اوپر اٹھتی ہے اور فضا میں معلق ہو جاتی ہے۔ اس سارے عمل سے آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان گاڑیوں سے نکلنے والے دھویں سے کاربن کے ذرات بھی اُڑ کر فضا میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔ جنوبی ایشیائی خطے کے ممالک میں گاڑیاں غلط جگہ پارک کرنے پر تو جرمانہ ہوتا ہے‘ اُلٹے ہاتھ گاڑی چلانے پر بھی جرمانہ ہوتا ہے‘ زیادہ وزن لادنے پر بھی جرمانہ ہوتا ہے‘ زیادہ افراد کے سوار ہونے پر بھی جرمانہ ہو سکتا ہے لیکن دھواں دینے والی گاڑیوں کو سڑکوں پر لانے پر کوئی بڑا جرمانہ نہیں ہوتا بلکہ زیادہ تر تو جرمانہ ہوتا ہی نہیں۔ آپ شہرِ لاہور ہی کی مثال لے لیں۔ یہاں موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ہیلمٹ نہ پہننے پر تو قانون سخت ہے‘ جرمانہ بھی بڑھا دیا گیا ہے مگر دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر بھاری جرمانے کی شاید ہی کبھی کوئی خبر آئی ہو۔ ہاں برائے نام مہمات چلائی جاتی رہی ہیں۔
اس کے بعد باری آتی ہے کیسے کی تو اس کا جواب ہے شجر کاری۔شجر کاری یعنی درخت لگانا سانس لینے کے لیے درکار ہوا کو صاف رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ یہاں پھر غربت آڑے آتی ہے کیونکہ زیادہ تر رہائشی علاقوں میں گھروں کا سائز پانچ مرلے یا اس سے بھی کم ہوتا ہے۔ اس سائز کے گھروں میں درخت لگانے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس کے بعد گلیوں کا سائز بھی کم چوڑا ہوتا ہے جس کی وجہ سے گلیوں میں بھی درخت نہیں لگائے جا سکتے۔ اس کے بعد گنجائش بچتی ہے ان علاقوں کے پارکوں کی ‘ اول تو بیشتر رہائشی علاقوں کے پارکوں کا سائز بہت چھوٹا ہوتا ہے اور پھر ان پارکوں میں سائز کے مطابق بھی جتنے درخت لگائے جا سکتے ہیں وہ بھی نہیں لگائے جاتے۔ بات کریں ایسی سوسائٹیز کی جہاں گھروں کا سائز بڑا ہوتا ہے‘ وہاں بھی جتنے درخت لگانے کی ضرورت اور گنجائش ہوتی ہے‘ نہیں لگائے جاتے۔ یہ گھر چونکہ امیر لوگوں کے ہوتے ہیں تو وہ کوشش کرتے ہیں کہ غیر ملکی‘ زیبائشی پودے‘ جو مہنگے ہوتے ہیں‘ وہی لگائے جائیں لیکن یہ درخت یا پودے زیادہ سایہ نہیں دیتے‘ بھلے دیکھنے میں خوبصورت لگتے ہیں۔ ان پودوں یا درختوں کا سائز زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ آکسیجن بھی کم ہی پیدا کرتے ہیں۔ ان گھروں میں بڑے آرام کے ساتھ پانچ سے سات درخت لگائے جا سکتے ہیں۔ یہ درخت اس گھر کی حد تک نہ صرف آکسیجن کی مقدار کو پورا کرتے ہیں بلکہ اس گھر کو گرمیوں کے موسم میں گرمی سے بھی بچاتے ہیں۔ ملک میں شجر کاری مہم چلانے کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے قانون سازی کی بھی ضرورت ہے۔
بارشیں ناگزیر ہو چکی ہیں
واپس سموگ کی بات کرتے ہیں جس کو اب پانچواں اور جان لیوا موسم قرار دیا جاتا ہے۔ خوش قسمتی سے محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق رواں سال بارشیں معمول کے مطابق ہوں گی۔ یاد رہے پچھلے دو سال سردیوں کے موسم میں بارشیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اس حوالے سے وہ دن بہت اہم ہیں جب بادل بن جاتے ہیں لیکن بارش نہیں ہوتی۔ آپ یاد کریں تو رواں ماہ کے شروع میں بھی بادل آئے تھے لیکن بِن برسے ہی چلے گئے تھے۔ یہ وہ صورتحال ہوتی ہے جب ایک چھوٹے جہاز کے ذریعے ان بادلوں کے اوپر جا کر صرف اور صرف نمک چھڑکنا ہوتا ہے۔ یہ نمک بادلوں کو بارش میں منتقل ہونے میں مدد ہی نہیں دیتا بلکہ مجبور کر دیتا ہے۔ یہ کوئی پیچیدہ اور مہنگا کام نہیں۔ اگرچہ بیوروکریسی یہی کہہ کر ٹال دیتی ہے کہ مصنوعی طریقے سے بارش برسانا بہت مہنگا کام ہے۔ اس سلسلے میں جو سب سے اہم امر ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے‘ وہ یہ ہے کہ جتنے پیسے جہاذ اڑانے کے لیے پٹرول پر لگیں گے اور پھر جتنے پیسے نمک پر خرچ ہوں گے‘ اتنی ہی قیمت کا پانی‘ کم از کم‘ زمین پر برس جائے گا۔ اس حساب سے یہ بارش تقریباً مفت میں پڑتی ہے لیکن جو پانی زمین پر برستا ہے وہ زمین میں جذب ہو کر زیر زمین پانی کی سطح کو برقرار رکھنے کے کام آتا ہے۔ اسی طرح اس بارش کی وجہ سے کسانوں کو مہنگی بجلی اور ڈیزل کے ساتھ ٹیوب ویل چلا کر زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے پانی حاصل کرنے کا خرچہ بھی بچ جاتا ہے۔
مصنوعی بارشوں کی اہمیت دوگنا ہے۔ مطلب ایک طرف تو اس سے آلودگی کا خاتمہ ہوتا ہے اور دوسری طرف یہ پانی کی کمی پر قابو پانے کا واحد انسانی طریقہ بھی ہے۔ جنوبی ایشیا کو پانی کی کمی کے حوالے سے مستقبل کا افریقہ بھی کہا جاتا ہے۔ باقی باتیں ایک طرف صرف آبادی یعنی فی کس پانی کی کھپت کا حساب لگائیں تو خطے میں سالانہ سوا دو کروڑ لوگوں کا اضافہ ہوتا ہے جو کہ بہت خطرناک ہے۔ اب بات کرتے ہیں اس خطے میں سالانہ ایسے دنوں کی جب مصنوعی بارش آسانی سے برسائی جا سکتی ہے یعنی ایسے دنوں جب بادل تو بنتے ہیں لیکن بارش نہیں ہوتی۔ سال میں ایسے کم از کم ساٹھ دن بنتے ہیں یعنی اس حساب سے اس خطے میں بارشوں کا دورانیہ دو ماہ تک بڑھایا جا سکتا ہے جس میں آسمان سے وافر پانی مصنوعی بارش برسا کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم مون سون کے دنوں میں بننے والے وہ بادل ہیں جو صحرائی علاقوں پر بنتے ہیں لیکن وہاں بارش نہیں برساتے۔ اگر ان دنوں میں ان بادلوں کو برسنے پر مجبور کر دیا جائے تو اس خطے کے صحرا بھی پانی حاصل کر سکتے ہیں۔
اب آپ کو دنیا کے ایک صحرائی ملک متحدہ عرب امارات میں لیے چلتے ہیں جو سال میں ایک سو دن سے زیادہ کے عرصے کے لیے مصنوعی بارشیں برسا کر اپنی ضروریات پوری کرتا ہے۔ اس ملک نے تو اب گندم بھی پیدا کرنا شروع کر دی ہے۔ یاد رہے اس خطے میں بادل پاکستان جیسے ملک سے بھی کم آتے ہیں لیکن یہ ملک نمک چھڑکنے کے ساتھ ساتھ ڈرون کی مدد سے بجلی کے جھٹکے لگا کر بھی بادلوں کو بارش میں بدلنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ان مصنوعی بارشوں سے حاصل کردہ پانی اس پانی سے سستا پڑتا ہے جو سمندر کے پانی کو صاف کرکے حاصل کیا جاتا ہے۔ مصنوعی بارش برسانے کے لیے اب نئی ٹیکنالوجی بھی وجود میں آ چکی ہے مگر سوال اس طرف بڑھنے کا ہے۔ یاد رہے کہ پانی کی کمی کو پورا کرنے کا اور کوئی طریقہ فی الحال موجود نہیں۔ سردیوں کا دورانیہ جو کم ہو رہا ہے اور درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے‘ پر قابو پانے کے لیے بھی یہی بارشیں مدد کر سکتی ہیں۔ باقی چھوڑیں‘ ڈینگی مچھر بھی اب اس وقت تک نہیں مرتا جب تک پوری طرح سردی نہیں آتی۔ ڈینگی سے ہونے والے جانی نقصان کا ہی حساب لگائیں تو مصنوعی بارشوں کی حیثیت کسی دیوی سے کم دکھائی نہیں دیتی۔ پتہ نہیں یہ سب ہمارے خطے میں کب اور کیسے شروع ہوگا اور ہوگا بھی کے نہیں۔