بھارت ہی مرکز کیوں؟

راقم کو ایک صاحبِ علم شخصیت‘ جو پنجاب کی لائبریریوں سے متعلق ایک اہم عہدے پر فائز ہے‘ کی جانب سے پوچھا گیا کہ آپ بھارت کے متعلق بہت زیادہ لکھتے ہیں‘ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کے لیے انہوں نے India-Centric کے الفاظ استعمال کیے‘ ان کے علاوہ بھی بہت سے لوگ یہی باتیں کسی اور انداز میں پوچھتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ لکھنے اور بولنے والوں کے نزدیک سب سے پہلی ترجیح ان کا اپنا ملک یا اپنا علاقہ ہوتا ہے لیکن اگر خطے کے حالات کچھ معاملات میں خراب اور کچھ میں اچھے ہوں‘ تو باری باری یا ایک ساتھ دونوں پہلوئوں پر لکھا جا سکتا ہے لیکن اگر منفی امور ہر طرح سے چھائے ہوں اور وقت کے ساتھ مزید پیچیدہ ہوتے جا رہے ہوں تو پھر کیا لکھا جائے؟ آئیے خطے کے معاملات کی بات کرتے ہیں‘ بالخصوص آج کل کے حالات کے تناظر میں‘ تاکہ فیصلہ کیا جا سکے کہ اس خطے اور اس کے سب سے بڑے ملک کے متعلق حقائق پیش کرنا اور مسلسل ان پر بات کرنا کیوں ضروری ہے‘ کیوں چاہتے ناچاہتے ہوئے بھی بھارت کو اپنی تحریروں اور تجزیوں کا مرکز بنانا پڑتا ہے۔
بھارت کتنا بڑا مرکز
جنوبی ایشیا دنیا کا ایک ایسا خطہ ہے جہاں دو ارب سے زائد لوگ بستے ہیں جو دنیا کی کل آبادی کے ایک چوتھائی سے بھی زائد ہیں۔ اس علاقے میں آبادی میں سالانہ اضافہ سوا دوکروڑ ہے جو دنیا کے کل اضافے کے لگ بھگ ایک تہائی ہے۔ اس علاقے کے تقریباً تمام ممالک میں سرحدی تنازعات پائے جاتے ہیں‘ مطلب سرحدیں غیر واضح ہیں۔ اس علاقے کا سب سے بڑا ملک اپنے تمام پڑوسیوں‘ بشمول ایک عالمی طاقت‘ سے سرحدی تنازعات رکھتا ہے۔ آبادی کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑے اس ملک کے اندر علیحدگی پسند تحریکیں نہ صرف دہائیوں سے جاری ہیں بلکہ اب ان میں شدت آتی جا رہی ہے۔ اس ملک میں غربت، لاقانونیت، علاقائی، نسلی، لسانی اور مذہبی شدت پسندی کا ناچ جاری ہے۔ عالمی ماہرین کے مطابق یہ ملک نسل کشی کے نو مراحل میں سے آٹھویں مرحلے پر پہنچ چکا ہے۔ یہ بڑا ملک اپنے اندرونی مسائل کے پہاڑ کو نظرانداز کر کے‘ عالمی سطح پر پراکسی جنگوں اور اتحادوں کا حصہ بنا رہتا ہے۔ اس خطے کے ہر چوتھے شخص کو بجلی میسر نہیں ہے۔ لوگ روکھی سوکھی کھا کر گزارہ تو کر لیں لیکن اگر سانس لینے کے لیے ہوا ہی میسر نہ ہو تو اس خطے کے مستقبل سے متعلق اور کیا بات کی جا سکتی ہے؟
گزشتہ ہفتے ایک بارش ہوئی تو لوگوں نے باقاعدہ خوشی کا اظہار کیا۔ جمعہ کے دن لوگ سو کر اٹھے تو فضا اور ہوا صاف ہو چکی تھی۔ بارش کے بعد دھوپ نکلی تو لوگوں نے آنکھوں کے مشاہدے کی بنیاد پر دھوپ کے صاف اور شفاف ہونے کے فرق کو واضح طور پر محسوس کیا لیکن آج کی خبروں کے مطابق‘ آلودگی واپس آ چکی ہے جس کے نتیجے میں لاہوراور دہلی سمیت اس علاقے کے متعدد شہر آلودگی کے اعتبار سے دنیا بھر میں دوبارہ سرفہرست آ چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ذکر ہوا تھا ایک ایسی خبر کا جو حیرت انگیز طور پر بھارت سے آئی تھی جس کے مطابق کرناٹک شہر میں قائم ایک ادارے کی مدد سے دہلی شہر میں مصنوعی بارش سے متعلق معاملات کا جائزہ لیا جا رہا تھا۔ اس کے بعد پتا نہیں کیا ہواکیونکہ مزید کسی قسم کی پیش رفت کی خبر نہیں آ ئی۔ ہو سکتا ہے کہ بارش کے بعد سرکار نے یہ سمجھ لیا ہو کہ اب مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ لیکن ہم گزارش کر چکے کہ ایک بارش سے سموگ کے نیچے بیٹھ جانے کا عمل آج سے پانچ سال پہلے تک قابلِ عمل تھا۔ جب سموگ نامی آفت نئی نئی ہماری زندگیوں میں داخل ہوئی تو اس وقت ایک بارش کے بعد یہ چھٹ جاتی تھی۔ مطلب فضا میں موجود آلودگی زمین پر بیٹھ جاتی تھی اور موسم صاف ہو جاتا تھا۔ لیکن اب گزشتہ کم از کم تین سال سے یہ سلسلہ رک چکا ہے۔ ایک بارش کے بعد کچھ دنوں کے لیے تو مطلع صاف رہتا ہے مگر یہ زہریلی دھند دوبارہ بننا شروع ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ پورے موسمِ سرما میں جاری رہتا ہے۔
مستقبل کا افریقہ یا نیا استعارہ؟
دنیا میں خشک سالی، غربت، جہالت اور پسماندگی کے حوالے سے ایک ہی براعظم کا نام لیا جاتا ہے، یعنی افریقہ کا۔ اس براعظم کو اسی حوالے سے ''سیاہ براعظم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ نام اس بر اعظم کے مجموعی حالات کی وجہ سے دیا جاتا ہے حالانکہ شمالی افریقہ کا علاقہ اور جنوبی افریقہ اس خطے کے دیگر ممالک سے بہت بہتر ہیں۔ اب افریقہ کے حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے جنوبی ایشیا پر نظر ڈالیں اور حالات کا جائزہ لیں تو حیران و پریشان ہونا پڑتا ہے کہ یہ خطہ مستقبل کا افریقہ ہی نہیں بننے والا بلکہ اس سے بھی بدتر حالات کا شکار ہو چکا ہے۔ اس بڑے اور خطرناک امرکا جائزہ لینے کے لیے کچھ ایسے حقائق کو دیکھتے ہیں جن کو ٹھکرانا یا رَد کرنا ممکن نہیں اور نہ ہی اس میں دو رائے والا معاملہ ہو سکتا ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ زہریلی سموگ ہی کی مثال لے لیں جو صرف جنوبی ایشیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ اس آلودگی سے نہ صرف انسان بلکہ چرند‘ پرند اور فصلیں بھی متا ثر ہو رہی ہیں۔ جب دھوپ پوری طرح نہ نکل سکے تو فصلوں کے پکنے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ جب ہوا آلودہ ہوتی ہے تو جانوروں کو بھی سانس لینے میں دقت پیش آتی ہے اور ان کی صحت پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔ اس سے جانور بھی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن ہم نے انہی جانوروں کا دودھ اور گوشت استعمال کرنا ہوتا ہے۔ دودھ سے یاد آیا کہ اب عالمی ادارے بھی یہ رپورٹ دے رہے ہیں کہ پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر کروڑں لٹر ایسا دودھ فروخت ہو رہا ہے جو مکمل طور پر مصنوعی اجزا سے تیار کیا جاتا ہے، مصنوعی اجزا کے علاوہ اس میں مضرِ صحت اجزا بھی شامل ہوتے ہیں۔
اگلا سوال پانی کا ہے جس کو زندگی کانام دیا جاتا ہے۔ پانی کی کمیابی ہی براعظم افریقہ کا سب سے بڑا مسئلہ گردانا جاتا ہے۔ تاریخ میں پہلی دفعہ ایک عالمی طاقت یعنی چین افریقہ میں اپنا ترقیاتی اثر و رسوخ بڑھا رہی ہے۔ اگر متحدہ عرب امارات کے طریقوں پر عمل کیا جائے تو آپ صحرائوں کو بھی آباد کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں گندم ایک ایسی فصل ہے جو صحرائوں میں بھی اُگائی جا سکتی ہے۔ واضح رہے کہ گندم کی فصل کا یہ کمال ہے کہ یہ سب سے زیادہ اقسام کی مٹی اور موسموں میں کاشت ہو سکتی ہے، مستقبل میں افریقہ کے صحرائی علاقوں میں بھی اس کی کاشت ہو سکے گی۔دیکھنا یہ ہے کہ مصنوعی بارش سے چین افریقہ کے کتنے ملکوں میں تبدیلی لا پاتا ہے ۔ لیکن اگر جنوبی ایشیا کا رخ کریں تو یہاں سالانہ بنیادوں پر لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی کاشتکاری کے بجائے رہائشی علاقوں میں تبدیل ہو رہی ہے۔ آج کل سموگ کے دن ہیں تو اس حوالے سے کچھ زیادہ تنقید ہو رہی ہے مگر سوال پھر وہی ہے کہ جس علاقے میں سالانہ سوا دو کروڑ آبادی بڑھے گی‘ وہاں پر نئی رہائشی کالونیاں تو بنانا ہی پڑیں گی۔ جب رہائشی کالونیاں بنیں گی تو سرسبز علاقہ تو بہر حال کم ہو گا ۔ جب درخت اور سبزہ کم ہوگا تو آکسیجن کم ہوگی اور جو کاربن ڈائی آکسائیڈ درخت کھا تے ہیں‘ وہ فضا میں ہی معلق رہ جائے گی‘ نتیجتاً فضائی آلودگی بڑھتی جائے گی۔ اگر براعظم افریقہ کی آبادی کی بات کریں تو اس کی کُل آبادی ایک ارب تیس کروڑ کے لگ بھگ ہے جبکہ صرف بھارت کی کُل آبادی براعظم افریقہ کی کل آبادی سے پندرہ کروڑ زیادہ ہے اور اس میں سالانہ ایک کروڑ ستر لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ مطلب ایک پورے بر اعظم کی آبادی سے زیادہ آبادی صرف بھارت میں ہے جبکہ پورے جنوبی ایشیا میں سوائے بنگلہ دیش کے‘ کسی بھی ملک نے آبادی پر قابو پانے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کی۔ کُل آبادی میں سالانہ اضافے کے اعتبار سے بھارت پہلے جبکہ پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔ ان سب پر مستزاد بھارت کا جنگی جنون‘ تمام پڑوسی ممالک سے کشیدگی اور چین سے مخاصمت۔ جبکہ آج کے دور میں بھی اکھنڈ بھارت جیسی خواہشات و حرکات مسلسل خبردار کر رہی ہیں کہ مستقبل میں تاریکی و تباہی کا استعارہ افریقہ نہیں جنوبی ایشیا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں