جو زخم رِستے نہیں

ہر زخم سے خون نہیں رِستا (Every wound does not bleed)‘ یہ فقرہ اکثر اُس ذہنی اذیت‘ ڈر‘ خوف اور اندیشے کے متعلق کہا جاتا ہے جو انسان کو اندر ہی اندر کھائے جاتا ہے۔ جس کا سامنا ہمیں دوسروں کے رویوں کی وجہ سے کرنا پڑتا ہے۔ آپ اس کو ذہنی یا نفسیاتی ظلم بھی کہہ سکتے ہیں۔ دنیا کے موجودہ حالات کو دیکھیں تو پہلی بات جو واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کو اس وقت اُن زخموں کا زیادہ سامنا ہے جن سے خون رِس رہا ہے۔ ان خون رِستے زخموں میں سے جو زخم انسانیت کے ساتھ ساتھ مغرب کی اُن طاقتوں‘ جو خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن مانتی ہیں‘ کے چہرے پر بہت بڑا داغ ہے‘ وہ فلسطین میں اسرائیلی بربریت کا شکار ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھونے والے ساڑھے سترہ ہزار سے زائد لوگ ہیں‘ جن میں سے زیادہ تر بچے تھے۔ لیکن عالمی رائے عامہ بالخصوص مغربی ممالک کے عوام کو خراجِ تحسین پیش کرنا پڑتا ہے جنہوں نے فلسطینیوں سے سہی معنی میں اظہارِ یکجہتی کیلئے ملین مارچز کا اہتمام تواتر کے ساتھ کیا۔ ان مظاہروں میں لگائے گئے نعرے بلا شک و شبہ بے مثال تھے۔ ان مظاہروں نے ایک مہربان ہمدرد کی طرح ان خون رِستے زخموں کو بہت حد تک مندمل ضرور کیا ہے۔
عالمی طاقتیں کیا کر رہی ہیں؟
دیکھا جائے تو دنیا ابھی تک کووڈ کی وبا کے بعد پوری طرح سے سنبھل نہیں پائی ہے۔ پوری دنیا کے لوگوں کے معاشی حالات مجموعی طور پر خراب ہی چلے آرہے ہیں۔ یورپ‘ جس کو ترقی اور معاشی خوشحالی کا استعارہ مانا جاتا ہے‘ کے رہائشی بھی تاحال کووڈ سے پہلے جیسی زندگی حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ اس وقت یورپ میں سخت سردی ہے مگر وہاں موجود انرجی کرائسز کی وجہ سے ان دنوں یہ محاورہ ''Eat Or Heat‘‘ بہت بولا جا رہا ہے۔ اس تین حرفی محاورے سے ہی ساری صورتحال واضح ہو جاتی ہے کہ یورپ میں لوگوں کو صرف اتنی ہی توانائی میسر ہے کہ یا تو وہ اس سے کھانا بنا سکتے ہیں تاکہ اپنا پیٹ بھر سکیں یا پھر اس سے اپنے گھروں کو گرم رکھ سکتے ہیں تاکہ سردی کی شدت سے محفوظ رہ سکیں۔ توانائی کے میسر ہونے سے مراد اس کی مقدار کم ہونا نہیں بلکہ اس سے مراد بجلی یا گیس کا مہنگا ہونا ہے۔ ان دنوں بیشتر یورپی ممالک کے عوام میں ذہنی ہیجان میں واضح اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ وہاں پر خاندانی نظام کا مضبوط نہ ہونا بھی ہے۔ اس سلسلے میں چین کے ایک سکالر کی ایک تحقیق بہت مشہور ہو رہی ہے جو امریکہ پر کی جانے والی اپنی تحقیق کی بنیاد پر کہہ رہا ہے کہ مضبوط خاندانی نظام نہ ہونے کی وجہ سے امریکی معاشرہ انتشار کا شکار ہو چکا ہے۔ اس سکالر نے اپنی تحقیق کو ''امریکہ بمقابلہ امریکہ‘‘ کا نام دیا ہے۔ اس محقق نے خاندان کے بغیر پرورش پانے والے نوجوانوں کو Stray Youth کا نام دیا ہے۔ یہ بہت سخت الفاظ ہیں۔ عام طور پر آوارہ کتوں کو Stray Dogs کہا جاتا ہے۔ اب چونکہ مغرب میں سرمایہ دارانہ نظام کو ایک مذہب کا درجہ حاصل ہے تو اس حوالے سے کوئی کیا کر سکتا ہے۔
اب آپ امریکہ کو ہی لے لیں جو آج بھی دنیا کی سب سے بڑی معاشی و عسکری طاقت ہے لیکن یہ ملک اپنے وسائل اپنی قوم پر لگانے کے بجائے اپنی عالمی حکمرانی برقرار رکھنے کیلئے‘ اپنے واحد ممکنہ حریف چین کی ترقی اور پھیلاؤ کو روکنے کیلئے بروئے کار لا رہا ہے۔ امریکہ سرمایہ دارانہ نظام میں ایسے ڈوب چکا ہے جیسے ایک جواری جوئے میں ڈوبتا ہے۔ امریکہ کا کل قومی قرضہ بڑھتے بڑھتے 34 ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور یہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ کے چار بڑے بینک ڈیفالٹ بھی کر چکے ہیں۔ امریکہ کی کل سالانہ آمدن تقریباً 25ٹریلین ڈالر ہے‘ مطلب امریکہ اگر ایک سال کی کل آمدن بھی لگائے تو اپنا قرضہ نہیں اتار سکتا۔ اس کے باوجودامریکہ اپنا دفاعی بجٹ مسلسل بڑھا رہا ہے۔ یہ بجٹ کہنے کو تو دفاعی ہے لیکن اصل میں یہ ایک جنگی بجٹ ہے۔ اس وقت امریکہ کا جنگی بجٹ 800ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے۔ ابھی آپ کو امریکہ کے جنگی بجٹ کا مکمل اندازہ نہیں ہوا ہو گا‘ اس کیلئے اگر ہم دنیا کے اُن دس بڑے ممالک کی فہرست دیکھیں جو سب سے زیادہ دفاعی بجٹ رکھتے ہیں تو آپ ششدر رہ جائیں گے کہ امریکہ کا دفاعی بجٹ اس فہرست میں شامل باقی نو ممالک کے مجموعی دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ اس فہرست میں شامل باقی نو ممالک میں چین‘ سعودی عرب‘ بھارت‘ فرانس‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ جاپان‘ روس اور جنوبی کوریا ہیں۔ ان نو ممالک میں صرف چین کا دفاعی بجٹ 235 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ اب اس کے بعد دنیا کا کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جس کا دفاعی بجٹ 100ارب ڈالر سے زیادہ ہو۔ دنیا میں تیسرا بڑا دفاعی بجٹ سعودی عرب کا ہے جو کہ 65 ارب ڈالر سالانہ ہے جبکہ چوتھے نمبر پر بھارت ہے جس کا دفاعی بجٹ 61ارب ڈالر سالانہ ہے جو کہ اس کی غربت اور خراب معاشی حالات کے حساب سے بہت زیادہ ہے۔
اتنے طاقت ور ہوکر اتنے کمزور کیوں؟
یہ الفاظ ایک سابق امریکی خاتون فوجی افسر کے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ امریکی صدر فلسطین میں بمباری نہ رکوا سکا جو اس کی ایک بہت بڑی ناکامی ہے۔ یہ خاتون امریکی صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہے کہ جنابِ صدر! آپ اس وقت دنیا میں سب سے طاقتور فوج رکھتے ہیں لیکن پھر بھی جنگ نہیں رکوا سکے۔ تو میرا سوال یہ ہے کہ آپ اتنے طاقتور ہو کر بھی اتنے کمزور کیوں ہو؟ اس وقت امریکہ دنیا کا سب سے طاقتور ملک ہے۔ امریکہ میں اسلحے کی اتنی بہتات ہے کہ وہاں سالانہ چالیس ہزار کے قریب افراد فائرنگ کا نشانہ بن کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ امریکہ میں ماس شوٹنگ کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی سالانہ تعداد 20ہزار جبکہ اپنے اسلحہ سے خود کشی کرنے والوں کی تعداد بھی 20 ہزار کے قریب ہے۔ ہم نے کالم کے شروع میں زخموں کی بات کی ہے جو دو طرح کے ہوتے ہیں‘ ایک جن سے خون رِستا ہے جبکہ دوسرے وہ جن سے خون تو نہیں رِستا لیکن یہ بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ امریکہ میں جو سالانہ 20ہزار کے قریب لوگ خود کشی کرتے ہیں‘ وہ جس ذہنی اضطراب اور ہیجان میں سے گزر رہے ہوتے ہیں‘ وہ نظر نہیں آتا۔ دیکھا جائے تو امریکہ کو اندرونی طور پر بھی ایک ایسی فوج‘ جو ماہرینِ نفسیات پر مشتمل ہونی چاہیے‘ کی اشد ضرورت ہے‘ جو امریکی شہریوں کے اُن زخموںکا علاج کر سکے جن سے خون تو نہیں رِستا لیکن وہ زخم انہیں چین بھی نہیں لینے دیتے۔ یہاں اُس امریکی نسل کا ذکر دوبارہ کرنا پڑے گا جو مضبوط خاندانی نظام کے بغیر انفرادی طور پر جوان ہوتی ہے۔ یہ نسل آزادی کی تو وہ حد انجوائے کرتی ہے جس کا مشرقی ممالک میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ نفسیاتی طور پر بہت زیادہ غربت کا شکار ہے۔ نفسیاتی غربت سے مراد وہ تنہائی ہے جس میں کسی شخص کے پاس اپنے مسائل‘ واقعات یا سادہ الفاظ میں اپنی روداد سنانے کیلئے کوئی نہیں ہوتا۔ یہ سب عوامل ایک کرب بن کر انسان کو ایک معاشی مشین بنا دیتے ہیں۔ اس کیلئے ماہرین ''سانس لینے والی مشین‘‘ کی خوبصورت اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔
جہاں تک اُس سوال کا تعلق ہے جو ایک سابق امریکی خاتون فوجی افسر نے اپنے صدر سے کیا ہے کہ تم اتنے طاقت ور ہو کر اتنے کمزور کیوں ہو؟ تو اگر یہی سوال ایک ایسے امریکی شہری سے پوچھا جائے جس کے پاس اچھا گھر‘ گاڑی اور اچھی نوکری تو موجود ہے لیکن وہ تنہائی یا کسی بھی وجہ سے ذہنی اضطراب میں مبتلا ہے تو وہ امریکی صدر کے برعکس اس سوال کا جواب یقینا دے سکتا ہے کہ وہ اتنا کمزور کیوں ہے۔ وہ معاشی طور پر خوشحال یا طاقتور ہونے کے باوجود اتنا کمزور اس لیے ہے کہ وہ ذہنی اضطراب میں مبتلا ہونے کی وجہ سے شدید کرب سے گزرتا ہے اور پھر ایک ایسی حد آتی ہے کہ وہ بندہ موت کو زندگی پر ترجیح دینے لگتا ہے۔ دنیا میں ہر سال بڑھتے خود کشی کے واقعات کے پیش نظر یہ سوال بجا طور پر پوچھا جانا چاہیے کہ زندگی میں آسائشوں اور آسانیوں کی فراوانی کے باوجود دنیا تباہی کے راستے پر کیوں چل رہی ہے؟ اس کا جواب تو امریکہ سے ہی مل جاتا ہے جہاں ہر سال جنگی بجٹ تو بڑھ رہا ہے‘ لیکن اس کے باوجود سالانہ چالیس ہزار امریکی شہری اسلحے کی وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں۔ جبکہ امریکہ اپنا سارا دفاعی بجٹ عراق‘ افغانستان‘ لیبیا‘ شام اور اب فلسطین جیسے ممالک میں صرف کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ چین مخالفت میں ویتنام کی حمایت کیلئے بھی ہر وقت ہر طرح سے سرگرم ہے۔ جنوبی کوریا میں اپنی موجودگی کو دہائیوں سے برقرار رکھے ہوئے ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں پانچویں نسل کی جنگ کی طرز پر ہر طرح کی تباہی مچا چکا ہے لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ وہ اپنے عوام کی دیکھ بھال کیوں نہیں کر پا رہا؟ امریکہ میں اب تک لاکھوں لوگ ماس شوٹنگ کے واقعات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ان واقعات کے پیش نظر یہ بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کے اندر ایک غیراعلانیہ جنگ جاری ہے۔ یہ جنگ وہ لوگ لڑ رہے ہیں جن کو ایسے زخم آئے ہوئے ہیں جو نظر نہیں آتے۔ اس بات کا نچوڑ یہ ہے کہ کوئی شخص چاہے بارڈر پر لڑتے ہوئے مارا جائے یا پھر اندرونِ ملک کسی حادثے میں‘ انسانی زندگی تو ضائع ہوتی ہی ہے۔ ایک فرد کا نقصان پوری قوم کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ ہر فرد اپنے ملک کیلئے ایک کارآمد اکائی ہوتا ہے۔ اس لیے عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ کو سوچنا ہوگا کہ کہیں وہ بیرونی جنگوں کی وجہ سے اندرونی جنگ تو نہیں ہار رہا۔ امریکہ کو اندرونی جنگ جیتنے کیلئے اپنے اُن زخموں کا پتہ لگانا ہوگا جو رِستے تو نہیں ہیں لیکن اندر ہی اندر اسے کھائے جا رہے ہیں۔ یاد رکھیں کہ ذہنی امراض مستقبل قریب میں ایک وبا بن سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں