صدیوں پرانا قصہ اب بھی جاری ہے

جنوبی ایشیا میں دنیا کی کُل آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ آباد ہے۔ غیرجمہوری حکومتوں‘ خاندانی آمریتوں اور دیگر طرز کی حکومتوں نے اس علاقے کو آج دنیا کا سب سے غیرمحفوظ علاقہ بنا دیا ہوا ہے۔ اس خطے میں جنگی جنون میں مبتلا اَکھنڈ بھارت کی حامی بھارتی حکومت آج بھی اپنے اندرونی خانہ جنگی طرز کے مسائل چھوڑ کر تمام پڑوسی ممالک کو اپنے اندر ضم کرنے کے بھیانک خواب کا پیچھا کر رہی ہے۔ اس پورے خطے پر فضائی آلودگی کے بادل جان لیوا سموگ کی شکل میں چھائے ہوئے ہیں۔ ایک فرانسیسی ماہرِ طب نے سترہویں صدی میں اُس وقت اس خطے کی ایک داستان لکھی جب یورپ تیزی سے صنعتی انقلاب کی طرف بڑھ رہا تھا۔ یہ بھی یاد رہے کہ اُس وقت تک یہ خطہ یعنی جنوبی ایشیا دنیا کی کُل معیشت میں پچیس فیصد حصہ ڈالتا تھا۔ اس لیے اس علاقے کے باشندوں کو صرف 76سالہ تاریخ کو رونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم پچھلے تقریباً 350 برسوں سے ایسی ہی زبوں حالی کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ تاریخ کی یہ داستان بھارت میں آج بھی پڑھائی جاتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں شاید سی ایس ایس جیسے امتحان میں حصہ لینے والے امیدوار بھی یہ داستان نہیں پڑھتے۔ حالانکہ بعد میں یہی بابو لوگ برطانوی دورِ حکومت سے رائج نظام کے تحت اس ملک کو اپنی مرضی اور مفاد کیلئے چلاتے ہیں۔
ایک فرانسیسی کی زبان سے تاریخِ ہندوستان
آپ فرانسیسی ماہرِ طب فرانسس برنیئر کا سفر نامۂ ہند پڑھیں اور اس کا آج کے حالات سے موازنہ کریں تو آپ کو تب سے لے کر اب تک برصغیر کے عروج و زوال کی ساری کہانی سمجھ آ جائے گی۔فرانسس برنیئر 1658ء میں ہندوستان آیا اور 1670ء تک بارہ سال ہندوستان میں رہا۔یہ شاہجہاں کے دور کے آخری دن تھے۔ برنیئر طبی ماہر تھا چنانچہ یہ مختلف امرا سے ہوتا ہواشاہی خاندان تک پہنچ گیا۔ اسے مغل دربار‘ شاہی خاندان‘ حرم سرا اور مغل شہزادوں اور شہزادیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔برنیئر نے شاہجہاں کو اپنی نظروں کے سامنے بے اختیار ہوتے اور اپنے صاحبزادے اورنگزیب عالمگیر کے ہاتھوں قید ہوتے دیکھا۔ اس نے اورنگ زیب عالمگیر کی اپنے تینوں بھائیوں دارالشکوہ‘ سلطان شجاع اور مراد بخش سے جنگیں بھی دیکھیں اور بادشاہ کے ہاتھوں بھائیوں اور ان کے خاندانوں کو قتل ہوتے بھی دیکھا۔اس نے دارالشکوہ کوگرفتار ہو کر آگرہ آتے اور بھائی کے سامنے پیش ہوتے بھی دیکھا۔ فرانسس برنیئر کو اورنگ زیب عالمگیر کے ساتھ لاہور‘ بھمبر اور کشمیر کی سیاحت کا موقع بھی ملا۔ فرانسس برنیئر نے واپس جا کر ہندوستان کے بارے میں سفر نامہ تحریر کیا۔ یہ سفر نامہ 1671ء میں پیرس میں شائع ہوا۔ بعد ازاں انگریزی زبان میں ترجمہ ہوا اور برطانیہ میں چھپا اور اس کے بعد آؤٹ آف پرنٹ ہو گیا۔ مجھے چند روز قبل فرانسس برنیئر کا یہ سفر نامہ پڑھنے کا موقع ملا۔ میں یہ کتاب پڑھ کر ورطۂ حیرت میں چلا گیا کیونکہ فرانسس برنیئر نے 1660ء میں جو ہندوستان (موجودہ پاکستان) دیکھا تھا‘ وہ آج تک اسی سپرٹ اور اسی کلچر کے ساتھ قائم ہے۔ ہم نے 350 برسوں میں کچھ نہیں سیکھا۔
فرانسس برنیئر نے اپنے سفر نامے میں ہندوستان کے بارے میں جگہ جگہ حیرت کا اظہار کیا۔ اس نے لکھا کہ ہندوستان میں درمیانہ طبقہ سرے سے موجود نہیں۔ ملک میں امرا ہیں یا پھر انتہائی غریب لوگ۔ امرا محلوں میں رہتے ہیں‘ ان کے گھروں میں باغ بھی ہیں‘ فوارے بھی‘ سواریاں بھی اور درجنوں نوکر چاکر بھی جبکہ غریب جھونپڑیوں میں رہتے ہیں اور ان کے پاس ایک وقت کا کھانا تک نہیں ہوتا۔ وہ لکھتا ہے کہ ہندوستان میں خوشامد کا دور دورہ ہے۔ بادشاہ سلامت‘ وزرا‘ گورنرز اور سرکاری اہلکار سائلوں سے گھنٹوں خوشامد کراتے ہیں۔ دربار میں روزانہ سلام کا سلسلہ چلتا ہے اور گھنٹوں جاری رہتا ہے۔ لوگوں کو خوشامد کی اس قدر عادت پڑ چکی ہے کہ یہ میرے پاس علاج کیلئے آتے ہیں تو مجھے دورِ حاضر کا سقراط‘ بقراط‘ ارسطو اور بو علی سینا قرار دیتے ہیں اور اس کے بعد نبض کیلئے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہیں۔ بادشاہ سلامت دربار میں جب بھی منہ کھولتے ہیں تو درباری کرامت کرامت کا وِرد شروع کر دیتے ہیں۔ لوگ جیبوں میں عرضیاں لے کر گھومتے ہیں اور انہیں جہاں کوئی صاحبِ حیثیت شخص دکھائی دیتا ہے یہ اپنی عرضی اس کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور وہ جب تک اس عرضی پر حکم جاری نہیں کرتا‘ سائل وہاں سے ٹلنے کا نام نہیں لیتا۔ بازار بے ترتیب اور گندے ہیں۔ آپ کو ایک دکان سے پشمینہ‘ کمخواب‘ ریشم اور زری کا کپڑا ملے گا اور ساتھ والی دکان پر تیل‘ گھی‘ آٹا اور شکر بِک رہی ہو گی۔ آپ کو کتابوں اور جوتوں کی دکانیں بھی ساتھ ساتھ ملیں گی۔ ہر دکان کا اپنا نرخ ہوتا ہے اور بھاؤ تاؤ کے دوران اکثر اوقات گاہک اور دکاندار ایک دوسرے سے اُلجھ پڑتے ہیں۔ شہروں میں حلوائیوں کی دکانوں کی بہتات ہے مگر آپ کو دکانوں پر گندگی‘ مکھیاں‘ مچھر‘ بلیاں اور کتے دکھائی دیتے ہیں۔ آپ کو ہندوستان بھر میں اچھا گوشت نہیں ملتا۔ قصائی بیمار اور قریب المرگ جانور ذبح کر دیتے ہیں۔ ہوٹلوں کا کھانا انتہائی ناقص اور مضرِ صحت ہوتا ہے لہٰذا لوگ ریستورانوں کے بجائے گھر پر کھانا کھانا پسند کرتے ہیں۔ پھل بہت مہنگے ہیں۔ ہندوستان میں خربوزہ بہت پیدا ہوتا ہے لیکن دس خربوزوں میں سے ایک میٹھا نکلتا ہے۔ سردہ بہت مہنگا ہے۔ میں پونے چار روپے کا سردہ خریدتا ہوں۔ ملک میں شراب پر پابندی ہے لیکن چھپ کر سب پیتے ہیں۔ شراب شیراز سے سمگل ہو کر آتی ہے اور شہروں میں عام ملتی ہے‘ تاہم حکومت نے عیسائیوں کو شراب پینے کی اجازت دے رکھی ہے مگر یہ اکثر اوقات اپنی شراب مسلمانوں کو بیچ دیتے ہیں۔ ملک بھر میں جوتشیوں کی بھرمار ہے۔ یہ دریاں بچھا کر راستوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور لوگ ان کے گرد گھیرا ڈال لیتے ہیں۔ ملک میں پینے کا صاف پانی نہیں ملتا چنانچہ امرا اونٹوں پر پانی لاد کر سفر کیلئے نکلتے ہیں۔ ہندوستان کی مٹی ذرخیز ہے لیکن زراعت کے طریقے قدیم اور فرسودہ ہیں؛ چنانچہ کسان پوری پیداوار حاصل نہیں کر پاتے۔ ہندوستان کی زیادہ تر زمینیں بنجر پڑی ہیں۔ لوگ نہروں اور نالیوں کی مرمت نہیں کرتے۔ چھوٹے کسان یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے جاگیرداروں کو فائدہ ہو گا اور جاگیردار سوچتے ہیں کہ بھل صفائی پر پیسے ہمارے لگیں گے مگر فائدہ چھوٹے کسان اٹھائیں گے‘ یوں پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ لاہور کے مضافات میں ہر سال سیلاب آتا ہے اور سینکڑوں لوگوں کی ہزاروں املاک بہا لے جاتا ہے لیکن لوگ سیلابوں کی روک تھام کا کوئی بندوبست نہیں کرتے؛ چنانچہ اگلے سال دوبارہ تباہی دیکھتے ہیں۔
فرانسس برنیئر نے ہندوستان کے لوگوں کے بارے میں لکھا کہ یہ کاری گر ہیں لیکن کاری گری کو صنعت کا درجہ نہیں دے پاتے لہٰذا فن کار ہونے کے باوجود بھوکے مرتے ہیں۔ یہ فن کاری کو کارخانے کی شکل دے لیں تو خوشحال ہو جائیں اور دوسرے لوگوں کی مالی ضروریات بھی پوری ہو جائیں۔ ہندوستان کے لوگ سرمایے کو کاروبار میں نہیں لگاتے‘ یہ رقم چھپا کر رکھتے ہیں۔ عوام زیورات کے خبط میں مبتلا ہیں۔ لوگ بھوکے مر جائیں گے لیکن اپنی عورتوں کو زیورات ضرور پہنائیں گے۔ یہاں کا تعلیمی نظام انتہائی ناقص ہے۔ یہ بچوں کو صرف زبان سکھاتا ہے‘ ان کی اہلیت میں اضافہ نہیں کرتا۔ خود اورنگزیب نے میرے سامنے اعتراف کیا کہ ''میں نے اپنے بچپن کا زیادہ تر وقت عربی زبان سیکھنے میں ضائع کر دیا‘‘۔ یہ لوگ فاقوں کو بیماریوں کا علاج سمجھتے ہیں؛ چنانچہ بخار میں فاقے شروع کر دیتے ہیں۔ یہاں رشوت عام ہے‘ آپ کو دستاویزات پر سرکاری مہر لگوانے کیلئے حکام کو رشوت دینا پڑتی ہے۔ صوبے داروں کے پاس وسیع اختیارات ہیں۔ یہ بیک وقت صوبے دار بھی ہوتے ہیں‘ خزانچی بھی‘ وکیل بھی‘ جج بھی اور جیلر بھی۔ سرکاری اہلکار دونوں ہاتھوں سے دولت لٹاتے ہیں۔ بادشاہ اپنے لیے کروڑوں روپے کا (1660ء میں) تخت بنواتا ہے۔ سرکاری عہدیدار پروٹوکول کے ساتھ گھروں سے نکلتے ہیں۔ یہ ہاتھیوں پر سوار ہو کر باہر آتے ہیں۔ ان کے آگے سپاہی چلتے ہیں‘ ان سے آگے ماشکی راستے میں چھڑکاؤ کرتے ہیں‘ ملازموں کا پورا دستہ مور جھل اٹھا کر رئیسِ اعظم کو ہوا دیتا ہے اور ایک دو ملازم اُگل دان اٹھا کر صاحب کے ساتھ چلتے ہیں۔ یہ لوگ گھر بہت فضول بناتے ہیں۔ ان کے گھر گرمیوں میں گرمی اور حبس سے دوزخ بن جاتے ہیں اور سردیوں میں سردی سے برف کے غار۔ بادشاہ اور امرا سیر کیلئے نکلتے ہیں تو ہزاروں مزدور ان کا سامان اٹھاتے ہیں۔ ہندوستان کی اشرافیہ طوائفوں کی بہت دلدادہ ہے اور اپنی دولت کا بڑا حصہ ان پر نچھاور کر دیتی ہے۔ وزرا صبح اور شام دو مرتبہ بادشاہ کے سامنے حاضر ہوتے ہیں۔ بادشاہ کے حضور حاضری نہ دینے والے وزرا عہدے سے فارغ کر دیے جاتے ہیں۔ ہندوستان میں گرد‘ غبار‘ گندگی‘ بو اور بے ترتیبی انتہا کو چھو رہی ہے اور جرائم عام ہیں۔ مجرم اول تو پکڑے نہیں جاتے اور اگر پکڑ لیے جائیں تو یہ سفارش یا رشوت کے ذریعے چھوٹ جاتے ہیں۔
یہ فرانسس برنیئر کے سفرنامے کے چند حقائق تھے‘ آپ انہیں دیکھیے اور آج کے پاکستان پر ہی نہیں بھارت اور خطے کے دیگر ممالک پر بھی نظر دوڑائیے اور حساب خود ہی لگائیے کہ تقریباً 350برس گزرنے کے بعد یہاں کے حکمرانوں کے رویوں اور اس خطے میں کیا تبدیلی آئی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں