اپوزیشن کی سیاسی پارٹیوں کا اتحاد ''پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘‘ (PDM) اسلام آباد میں 20 ستمبر کو آل پارٹیز کانفرنس کے موقع پر قائم کیا گیا تھا۔ اپنے قیام کے بعد ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں اس اتحاد نے ملک کے دو اہم شہروں (گوجرانوالہ اور کراچی) میں کامیاب جلسے منعقد کر کے ثابت کر دیا کہ وہ ملک کی ایک ایسی سیاسی قوت ہے‘ جسے اب حکومت آسانی سے نظر انداز نہیں کر سکتی۔ کراچی کے بعد پی ڈی ایم کا دیگر بڑے شہروں مثلاً کوئٹہ‘ پشاور‘ ملتان اور لاہور میں بھی جلسے منعقد کرنے کا پروگرام ہے۔ توقع ہے کہ گوجرانوالہ اور کراچی کی طرح پی ڈی ایم کے آئندہ جلسوں میں بھی لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہو گی کیونکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی‘ بیروزگاری‘ عدم تحفظ اور جرائم کی شرح میں اضافے سے عام آدمی پریشان اور ان مسائل کے حل کی راہ دیکھ رہا ہے۔ اب تک کسی جلسے میں مقررین نے ان مسائل کا کوئی متبادل حل پیش نہیں کیا؛ تاہم وہ لوگوں میں بڑی حد تک یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ ان مسائل کی وجہ حکومت کی نااہلی‘ غفلت اور بد انتظامی ہے۔
دوسری جانب حکومت کے پاس پی ڈی ایم کے بڑھتے ہوئے جارحانہ حملوں کا جواب دینے کے لئے کرپشن اور احتساب کے سوا کوئی بیانیہ نہیں ہے۔ یہ واضح ہے کہ اگر حکومت کی کارکردگی بہتر ہوتی تو اپوزیشن کا احتجاج اتنا مؤثر ثابت نہیں ہو سکتا تھا۔ ابھی تک اپوزیشن کی تحریک احتجاجی جلسوں تک محدود ہے‘ جن میں شرکت کرنے والوں کی تعداد میں بوجوہ اضافہ ہو رہا ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ احتجاج ایک ایسی منظم‘ مستحکم اور موثر ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کر سکتا ہے‘ جو اس کے اعلان کردہ ہدف یعنی پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کو اقتدار سے محروم کرنے میں کامیاب ہو سکے؟ پاکستان کی حالیہ تاریخ سے عیاں ہے کہ جلسوں‘ جلوسوں اور دھرنوں سے حکومتیں ختم نہیں ہوتیں۔ پی ڈی ایم کے کامیاب جلسوں کے باوجود حکومت کے متزلزل یا مفلوج ہونے کے کوئی آثار نہیں‘ بلکہ حکومت کی رائے میں اپوزیشن کا یہ اتحاد غیر فطری‘ متضاد اور عارضی ہے اور بہت جلد یہ اکٹھ تتر بتر ہو جائے گا۔ عوام کی نظروں میں پی ڈی ایم کی وقعت کم کرنے کے لئے اسے چوروں‘ ڈاکوئوں اور کرپٹ عناصر کا نام دیا جا رہا ہے‘ مگر گوجرانوالہ اور کراچی میں لوگوں کی بھرپور شرکت اور جوش و خروش نے حکومت کے اس بیانیے کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ اس کے باوجود پی ڈی ایم کے جلسوں کے سلسلے پر ابھی تک ایک بڑا سوالیہ نشان موجود ہے کہ کیا اس میں ایک پائیدار اور ملک گیر تحریک میں ڈھلنے کی صلاحیت موجود ہے؟ بیشتر مبصرین کی رائے میں دو کامیاب جلسوں کے باوجود پی ڈی ایم کے احتجاج میں کسی منظم تحریک کے آثار نظر نہیں آتے۔ اپوزیشن کے اس اتحاد میں شامل سیاسی پارٹیوں‘ خصوصاً مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی تمام تر توجہ جلسوں میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو لانے پر مرکوز ہے۔ ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت جلسوں کے انعقاد کیلئے مقامات کو ملک کے تمام صوبوں سے چنا گیا ہے۔ اس طرح پی ڈی ایم کے جس 27 نکات پر مشتمل ایجنڈے کا اعلان کیا گیا ہے‘ وہ پاکستان کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے اور ہر حصے میں رہنے والے لوگوں کے مسائل اور مشکلات کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس طرح ایجنڈے کی حد تک تو واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم نے اپنے احتجاج کو ملک گیر شکل دینے کی کوشش کی ہے۔ اتحاد میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے علاوہ اہم مذہبی سیاسی جماعتوں اور علاقائی پارٹیوں کی شمولیت اس تاثر کو مزید تقویت دیتی ہے۔ گوجرانوالہ اور کراچی کے جلسوں میں ان مختلف نقطہ ہائے نظر کی حامل پارٹیوں کے مقررین نے اپنے اپنے علاقوں کو درپیش مسائل کا جس طرح آزادانہ اور کھلم کھلا اظہار کیا‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم کی قیادت اس اتحاد کو ایک قومی اتفاق رائے کا پلیٹ فارم بنانا چاہتی ہے‘ لیکن حکومت کی طرف سے کریک ڈائون کی صورت میں کیا پی ڈی ایم نے ایک لمبے عرصے کیلئے بھرپور طریقے سے جاری رہنے والی تحریک کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے؟
پی ڈی ایم کی قیادت نے موجود حکومت کے خاتمے تک احتجاجی تحریک جاری رکھنے کا فیصلہ کر رکھا ہے اور انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ اگر جلسے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے تو دسمبر میں لاہور میں موجودہ سلسلے کے آخری جلسے کے بعد اسلام آباد کی طرف مارچ کیا جائے گا۔ اس کے مقابلے میں حکومت کی حکمتِ عملی کیا ہو گی؟ اس ضمن میں حکومتی نمائندوں کی طرف سے دئیے گئے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت جلسے جلوسوں‘ لانگ مارچ یا دھرنے کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے گی۔ حکومت کو یقین ہے کہ پی ڈی ایم اپنی ایجی ٹیشن کو زیادہ دیر تک جاری نہیں رکھ سکے گی کیونکہ متضاد نظریات کی حامل سیاسی پارٹیوں کا یہ اتحاد تضادات کا شکار ہو کر تتر بتر ہو جائے گا‘ اور اگر اس نے جلسوں‘ جلوسوں اور دھرنوں کی شکل میں اپنی ایجی ٹیشن جاری رکھی تو اس کا حشر بھی پہلے والی تحریکوں جیسا ہو گا۔ پی ڈی ایم کے تحت احتجاجی تحریک آئندہ کیا شکل اختیار کرتی ہے‘ اس کا انحصار بہت حد تک حکومت کے ردِ عمل اور اقدامات پر ہو گا اور حکومت کا کیا ردِ عمل ہو گا‘ اور وہ اس احتجاج کو بے اثر بنانے میں کیا اقدامات کرتی ہے‘ اس کا فیصلہ کوئٹہ کے جلسے سے پہلے ہو جائے گا کیونکہ دو جلسوں کے بعد ہی حکومت جیسی ہیجانی کیفیت میں مبتلا نظر آتی ہے‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسے ڈیفیوز کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔
کراچی میں علی الصبح ہوٹل کا دروازہ توڑ کر مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری اس بات کا ثبوت ہے کہ وفاقی حکومت اس احتجاج کو کچلنے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ ریلوے کے وفاقی وزیر شیخ رشید پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اپوزیشن کو کھلی چھٹی نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کوئٹہ کے جلسے کے بعد حکومت اپنا ردِ عمل دے گی‘ لیکن آثار بتاتے ہیں کہ کوئٹہ کے جلسے سے پہلے ہی حکومت کے جوابی اقدامات کا آغاز ہو جائے گا تاکہ گوجرانوالہ اور کراچی کی طرح کوئٹہ کا جلسہ بھی پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک میں سنگِ میل ثابت نہ ہو۔ کوئٹہ میں پی ڈی ایم کا جلسہ اس لئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اس کی میزبانی پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن کی پارٹی جمعیت علمائے اسلام‘ محمود خان اچکزئی کی جماعت پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کے ہاتھ میں ہو گی۔ بلوچستان کی نازک سیاسی اور سکیورٹی صورتحال کے پیشِ نظر ہو سکتا ہے کہ حکومت اس جلسے کی اجازت دینے میں لیت و لعل سے کام لے‘ لیکن اگر حکومت کو جلسے کے انعقاد کی اجازت دینا پڑ جائے تب بھی حکومت پولیس کے ذریعے پی ڈی ایم کے سرگرم کارکنوں اور مقامی رہنمائوں کو مختلف الزامات کے تحت یا امن و امان کے خطرے کا بہانہ بناکر حراست میں لے سکتی ہے۔ یوں وہ پی ڈی ایم کے آئندہ جلسوں کو ناکام بنانے کی کوشش کرے گی۔ کیا ایسے اقدامات سے حکومت پی ڈی ایم کو ناکام بنانے میں کامیاب ہو جائے گی؟ گوجرانوالہ اور کراچی کے جلسوں کی شکل میں عوامی ردعمل دیکھ کر اس سوال کا جواب بڑی آسانی سے نفی میں دیا جا سکتا ہے کیونکہ توقع کے برعکس پی ڈی ایم کی صفوں میں اتحاد برقرار ہے۔ حکومت کا اندازہ تھا کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی ایک ساتھ نہیں چل سکیں گی‘ مگر کراچی کے کامیاب جلسوں نے ان جماعتوں کو ایک دوسرے کے مزید قریب کر دیا ہے۔ پی ڈی ایم کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اس کے قائدین کہاں تک اور کب تک اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ حکومت کی بوکھلاہٹ سے صاف عیاں ہے کہ اسے نہ صرف اپنے بیانیے کی موت بلکہ پی ڈی ایم کی صورت میں ایک نئے سیاسی سیٹ اپ کی کامیابی بھی واضح نظر آ رہی ہے۔