عربوں اور اسرائیل کے درمیان لڑی جانے والی چوتھی جنگ (1973ء) نے نہ صرف عالم ِعرب بلکہ پوری اسلامی دنیا میں امریکہ مخالف جذبات میں شدت پیدا کر دی تھی کیونکہ صدر نکسن کی جانب سے اسرائیل کو بھاری معاشی اور جنگی ہتھیاروں کی سپلائی نے اسرائیلی فوج کو مصر اور شام کی فوجوں کے ہاتھوں یقینی شکست سے بچا لیا تھا۔ یہی وہ تلخ حقیقت تھی جس نے مصر کے صدر انور سادات کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا تھا کہ ''میں اسرائیل کو تو ہرا سکتا ہوں مگر امریکہ کو شکست نہیں دے سکتا‘‘۔ اسی حقیقت کی روشنی میں سادات نے نہ صرف امریکہ بلکہ اسرائیل سے بھی صلح کر لی‘ لیکن سعودی عرب کے شاہ فیصل‘ جنہوں نے اکتوبر 1973ء سے جنوری 1974ء تک امریکہ اور جنگ میں اسرائیل کی اعانت کرنے والے یورپی ممالک کو تیل کی سپلائی پر پابندی یعنی آئل ایمبارگو (Oil Embargo) کی قیادت کی تھی ‘ صدر سادات کی پالیسیوں سے اختلاف کیا اور امت اسلامیہ کے ایک وسیع تر محاذ سے فلسطینیوں کی حقوق کی حمایت اور مقبوضہ عرب علاقوں‘ جن میں بیت المقدس بھی شامل ہے‘ کو اسرائیلی قبضے سے چھڑانے کی جدوجہد جاری رکھی۔ اس جدوجہد کی جلد ہی ان کو قیمت چکانا پڑی اور وہ 1975ء میں شہید کر دیے گئے‘ لیکن شاہ فیصل کے دو بڑے اقدامات‘ آئل ایمبارگو اور OIC کا قیام ایک نئے مشرق وسطیٰ کو جنم دے چکے تھے۔ اس مشرق وسطیٰ میں عوام اور حکمران ایک پیج پر آکر نہ صرف اسرائیل کی جارحیت کا خاتمہ چاہتے تھے بلکہ خطے کو امریکی اثرورسوخ خصوصاً فوجی غلبے سے پاک کرنا چاہتے تھے۔
1970ء کی نصف اور 1980ء کی پوری دہائی کے دوران مشرق وسطیٰ کا مسئلہ ایک طرف عرب اسرائیل تنازع اور دوسری طرف مغربی ملکوں کی طرف سے عرب ملکوں کو تیل کے ہتھیار سے غیر مسلح کرنے کی کوششوں کے گرد گھومتا رہا۔ امریکہ نے اس جنگ کو توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کرنے‘ اوپیک کے علاوہ دیگر ملکوں اور خطوں میں تیل تلاش کرنے اور مشرق وسطیٰ سے ضرورت سے زیادہ تیل خرید کر سٹرٹیجک ریزروز(Strategic Reserves) کی شکل میں ذخیرہ کرکے جیتنے کی کوشش کی۔ دوسری طرف اوپیک (OPEC) کے رکن ممالک نے تیل کی پیداوار کم کرکے بین الاقوامی مارکیٹ میں اس کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کی پالیسی اپنائی۔ اس کشمکش میں سعودی عرب نے خام تیل کی پیداوار میں اضافہ کرکے امریکہ اور مغربی ممالک کی مدد کی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ تیل کی دولت سے مالامال عرب ممالک نے زیادہ سے زیادہ آمدنی حاصل کرنے کیلئے تیل کی پیداوار اس حد تک بڑھا دی کہ بین الاقوامی مارکیٹ اس سے لبریز ہو گئی اور ایسی صورتحال پیدا ہوئی جسے آئل گلٹ (Oil Glut) کہا جاتا تھا۔
درآمد شدہ تیل استعمال کرنے والے صنعتی ممالک‘ جن کی قیادت امریکہ کر رہا ہے‘ مختلف اقدامات کے ذریعے مشرق وسطیٰ کے تیل پر انحصار میں نمایاں کمی لا چکے ہیں لیکن امریکہ نے خطے میں اپنے دوست ممالک خصوصاً سعودی عرب‘ خلیج فارس کی عرب امارات اور مصر کے ساتھ اپنے تعلقات کم نہیں کئے بلکہ نئے دو طرفہ معاہدوں اور جدید ترین ہتھیاروں کی فروخت سے خطے کو 'اندرونی خلفشار اور بیرونی حملے‘ سے بچانے کیلئے فوجی اڈوں اور طیارہ بردار جہازوں‘ آبدوزوں اورجنگی جہازوں پر مشتمل بحری بیڑے مجتمع کرکے اپنی عسکری پوزیشن مضبوط کر لی ہے کیونکہ مشرق وسطیٰ اب بھی اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے عالمی توازنِ طاقت میں ایک کلیدی حیثیت کا حامل ہے اور امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ اتنے اہم سٹریٹجک اثاثے کا حامل خطہ کسی دوسری طاقت کے زیر کنٹرول چلا جائے۔
سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان موجودہ ناراضی کے تانے بانے مشرق وسطیٰ میں خطے سے باہر اور امریکہ کی حریف طاقتوں روس اور چین کی جانب سے قدم جمانے کی کوششوں سے ملتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور مغربی یورپ (نیٹو) کے مفادات کو روس سے خطرہ تھا لیکن اب چین ایک بڑے چیلنج کی حیثیت سے ابھر رہا ہے۔ امریکہ کو شکایت ہے کہ سعودی عرب اپنے تیل کی پیداوار میں کمی کرکے روس اور چین کے ساتھ محاذ آرائی میں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی ممالک کی پوزیشن کو نقصان پہنچا رہا ہے اور اس کے ساتھ ان دونوں ممالک خصوصاً چین کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنا کر اسے اس خطے میں قدم جمانے کا موقع فراہم کر رہا ہے۔ سعودی عرب اس وقت سوا کروڑ بیرل یومیہ تیل کے ساتھ دنیا میں خام تیل پیدا کرنے والے دوسرا بڑا ملک ہے۔ اس میں سے 73 لاکھ بیرل یومیہ سے زیادہ تیل برآمد کرتا ہے۔ خود امریکہ سعودی عرب سے تقریباً پانچ لاکھ بیرل یومیہ کے حساب سے خام تیل درآمد کرتا ہے لیکن جس شعبے کو امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے وہ دفاع اور ہتھیاروں کی فروخت ہے۔ سعودی عرب امریکہ سے سب سے زیادہ مالیت کے ہتھیار خریدنے والا ملک ہے۔ اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان 100 بلین ڈالر مالیت کے سودوں پر عمل ہو رہا ہے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب اپنے دور میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا تو دونوں ملکوں کے درمیان امریکہ سے 350 بلین ڈالر کے ہتھیاروں کی خریداری کا سودا طے ہوا تھا۔ اس کے باوجود امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کا ماحول ہے اور اس کی وجہ سعودی عرب کے خام تیل کی یومیہ پیداوار سے 20 لاکھ بیرل کی کمی کا فیصلہ بتائی جاتی ہے‘ کیونکہ اس سے مغربی یورپ اور امریکہ کی توانائی کی مارکیٹ متاثر ہو گی جہاں یوکرین میں جنگ کی وجہ سے تیل اور گیس کی پہلے ہی کمی ہے اور اس کمی کی وجہ سے قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں‘ لیکن اس تنازع کی محض یہی ایک وجہ نہیں ۔
صدر جو بائیڈن نے اپنی صدارتی مہم کے دوران سعودی عرب اور اس کے حکمران شاہی خاندان کو متعدد بار تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ سعودی عرب امریکہ کے پچھلے صدارتی انتخابات میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کا خواہش مند تھا۔ اب بھی امریکہ کے ایک سٹریٹجک تھنکر بروس ریڈل کے مطابق سعودی عرب تیل کی پیداوار کم اور اس کے نتیجے میں امریکہ میں توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کرکے 2024 ء کے صدارتی انتخابات میں سابق صدر ٹرمپ کی کامیابی کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے۔ بروس ریڈل کے مطاق سعودی عرب نے گزشتہ دو صدارتی انتخابات 2016ء اور 2020ء کے دوران بھی صدر ٹرمپ کی مدد کی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی مارکیٹ میں توانائی کی قیمتوں میں اتار چڑھائو نے امریکی سیاست کو متاثر کیا ہے لیکن امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات میں کشیدگی کی یہ واحد وجہ نہیں خصوصاً جب سعودی عرب کی طرف سے بار بار کہا جا رہا ہے کہ خام تیل کی یومیہ پیداوار میں کمی کا فیصلہ خالصتاً معاشی بنیادوں پر کیاگیا ہے۔
سعودی عرب میں یہ احساس تقویت پکڑتا جا رہا ہے کہ اس کے تیل کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں اس لئے اس کی پیداوار میں کمی لا کر انہیں آئندہ نسلوں کیلئے محفوظ کرنا ضروری ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن کے مطابق سعودی عرب کی ترقی کیلئے بہت سے منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔ ان منصوبوں کی تکمیل کیلئے سعودی عرب کو وسائل کی ضرورت ہے جنہیں حاصل کرنے کیلئے بین الاقوامی تیل مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے۔ یہ مسئلہ صرف سعودی عرب کو ہی درپیش نہیں بلکہ اوپیک کے باقی ارکان بھی اس مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں‘ اس لئے تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ کرنے میں سعودی عرب اکیلا نہیں‘ بلکہ یہ تیل برآمد کرنے والی تنظیم اوپیک کا متفقہ فیصلہ ہے اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں امریکہ ایک ناقابل اعتبار اتحادی ثابت ہو رہا ہے۔