پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی موجودہ صورتحال میں دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کے بارے میں سوچنا بھی محال ہے پھر بھی اس کے حق میں کہیں نہ کہیں سے آواز سنائی دیتی ہے۔ گزشتہ دنوں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی واشنگٹن میں امریکی ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ کے اعلیٰ حکام سے بات چیت ہوئی۔ اس بات چیت کا فوکس اگرچہ باہمی دلچسپی کے امور بشمول علاقائی تحفظ کے مسائل تھے تاہم میڈیا کے ساتھ گفتگو میں پاک بھارت تعلقات میں موجود ڈیڈ لاک اور اسے ختم کرنے کی ضرورت کا بھی ذکر آیا۔ اس سلسلے میں امریکی ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ کے ترجمان نیڈ پرائس کے ریمارکس خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ امریکہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتا ہے اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں ایک حالیہ بحث کے دوران پاکستانی اور بھارتی وزرائے خارجہ کے درمیان تلخ جملوں کے تبادلے سے قطع نظر امریکہ دونوں ملکوں کے درمیان روابط کی بحالی اور تعلقات کو معمول پر لانے کا حامی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ اس سلسلے میں دونوں ملکوں کی مدد کرنے کو تیار ہے۔ پاک بھارت تعلقات اور مسئلہ کشمیر پر بھی امریکہ کا یہ پرانا اور روایتی مؤقف ہے اور امریکی حکام اسے دہراتے رہتے ہیں‘ لیکن اس موقع پر سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے پاک بھارت تعلقات میں نارملائزیشن اور اس میں امریکی مدد کا عندیہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے‘ پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی طرف سے دہشت گردی کی کارروائیوں کا آغاز اور پاک افغان سرحد پر کشیدگی نے ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے جو صرف پاکستان کیلئے نہیں علاقائی اور عالمی امن میں دلچسپی رکھنے والے تمام ممالک کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ اسی دوران پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے پاکستان کے دیرینہ مؤقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات اس وقت تک پوری طرح معمول پر نہیں آ سکتے جب تک کہ دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات خصوصاً مسئلہ کشمیر‘ حل نہیں ہو جاتا۔ اس بیان میں خاص طور پر نوٹ کرنے والی بات یہ ہے کہ لفظ ''پوری طرح‘‘ استعمال کیا گیا۔ اس سے یہ مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پوری طرح نارملائزیشن کو تنازعات کے حل کا انتظار کرنا پڑے گا مگر تنازعات کی موجودگی میں جزوی نارملائزیشن ممکن ہے۔ گزشتہ تقریباً دو سال کے عرصے میں اس جزوی نارملائزیشن کی کوششیں کی گئی ہیں مگر کامیاب نہیں ہوئیں لیکن لائن آف کنٹرول پر دونوں طرف سے فائر بندی کے معاہدے کی سختی سے پابندی سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کشیدگی میں اضافہ نہیںچاہتے‘ بلکہ اس میں کمی کیلئے موقع کی تلاش میں ہیں۔ اس کی تصدیق حال ہی میں پاکستان کی طرف سے دو اقدامات کے اعلانات سے ہوتی ہے‘ پہلا اعلان پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی مین جمنٹ کمیٹی کے چیئرمین کا یہ بیان ہے کہ پاکستان کرکٹ کی دنیا میں اپنے آپ کو الگ تھلگ نہیں رکھنا چاہتااور بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ کے چیئرمین کے بیانات سے پیدا ہونے والی تلخی کو دور کرنے کی کوشش کرے گا۔ سپورٹس کے شعبے میں اس امید افزا بیان کے بعد کلچر کے میدان میں یہ اطلاع بھی خوش آئند تھی کہ پاکستان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والی فلم ''دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘‘ کو بھارت کے چند شہروں میں 30 دسمبر سے ریلیز کیا جائے گا‘تاہم مہاراشٹر کے راج ٹھاکرے کی ہندو انتہا پسند تنظیم ''نو نرمان سینا‘‘ کی طرف سے دھمکی کے بعد اس کی نمائش کو غیر معینہ مدت کیلئے روک دیا گیا ہے۔ راج ٹھاکرے ''شیو سینا‘‘ کے بانی اور انتہا پسند ہندو رہنما بال ٹھاکرے کے بھتیجے ہیں‘ مگر 2005ء میں اپنے انکل سے اختلافات کی بنا پر علیحدہ ہو کر اس نے الگ سیاسی پارٹی بنا لی تھی‘ مگر انتہا پسندی اور پاکستان دشمنی میں اپنے انکل سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ مذکورہ فلم کی نمائش میں رکاوٹ آرٹ اور کلچر کے شعبے میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کی خواہش رکھنے والوں کیلئے مایوس کن خبر ہے‘تاہم سپورٹس اور ثقافت کے شعبوں میں تعاون کے ذریعے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتری کوششوں کو مستقل فل سٹاپ نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ ماضی میں اس مقصد کے حصول کی ابتدا سپورٹس اور ثقافت کے شعبوں میں تعلقات کی بحالی سے ہی ہوئی تھی۔
2003ء میں سری نگر میں بھارت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی مشہور تقریر جس میں بھارت کی طرف سے پہلی دفعہ کشمیر کو متنازع مسئلہ تسلیم کیا گیا تھا اور دونوں ملکوں میں اس پر جم کر بحث کی تجویز پیش کی گئی تھی‘ کے جواب میں پاکستان کے اُس وقت کے وزیر اعظم ظفراللہ جمالی نے پاک بھارت مذاکرات کیلئے سب سے پہلے سپورٹس اور ثقافت کے شعبوں میں تعلقات کو بحال کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ امن اور معمول کے مطابق تعلقات کی بحالی کی خاطر 2004ء میں پاک بھارت مذاکرات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اس کی بنیاد سپورٹس اور ثقافت کے شعبوں میں روابط کا آغاز ہی تھااور یہ بھی ریکارڈ کی بات ہے کہ پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں نے ایک دوسرے کے ہاں سب سے زیادہ میچ امن مذاکرات کے اس دور (2004-2008 ء) کے دوران کھیلے تھے‘ بلکہ اسے پاک بھارت کرکٹ ڈپلومیسی کا سنہری دور کہا جاتا ہے‘ لیکن 2008ء کے ممبئی حملوں سے جہاں پاک بھارت امن مذاکرات تعطل کا شکار ہوا وہیں کرکٹ ڈپلومیسی کو بھی بڑا دھچکا لگا۔
2011ء میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے پاک بھارت امن مذاکرات کے سلسلے کو دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کی اور اس کیلئے کرکٹ ہی کو استعمال کیا گیا۔ اس سے کم از کم ایک حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ کرکٹ اور پاک بھارت امن کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 2004ء کے بعد جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ سیریز بحال ہوئی اور بھارتی کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کا اعلان کیا گیا تو پاکستان روانہ ہونے سے پہلے بھارتی وزیر اعظم واجپائی نے اپنے کھلاڑیوں سے ملاقات کی اور انہیں کہا کہ پاکستان جا کر نہ صرف اچھی کرکٹ کھیلنا ہے بلکہ پاکستانی عوام کے دل بھی جیتنے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ نہ صرف پاکستانیوں نے اپنے ہمسایہ ملک سے آنے والی ٹیم کا خوب سواگت کیا بلکہ پاکستانی کرکٹ ٹیم نے جب بھارت کا دورہ کیا تو اس کا بھی خوشدلی سے استقبال کیا گیا‘ لیکن پٹھان کوٹ‘ اڑی اور پلوامہ جیسے واقعات نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو پھر سے کشیدہ کر دیا اور یہ سلسلہ اس لئے برقرار نہ رہ سکا۔2014ء کے بعد سے ہندوستان میں بی جے پی راج کے تحت اس کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا اور اس وقت اگرچہ لائن آف کنٹرول پر امن ہے مگر مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے اگست 2019ء کے یک طرفہ اقدامات اور اس کے نتیجے میں کشمیری عوام کے بنیادی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں نے ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات تو دور کی بات ہے‘ ہاتھ ملانے کو بھی تیار نہیں حالانکہ دونوں طرف سے اعتراف کیا جا رہا ہے کہ اس صورتحال کے زیادہ دیر تک جاری رہنے سے مفادات خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے علاوہ عالمی برادری کو بھی اس کشیدگی پر تشویش ہے کیونکہ دونوں ملک ایسے مسائل سے دوچار ہیں جن کا حل صرف باہمی تعاون سے نکل سکتا ہے۔ کیا اس تعاون کی راہ کرکٹ ڈپلومیسی سے ہموار ہو سکتی ہے؟ ماضی میں تو ایسا ہوا ہے‘ اس لئے توقع کی جا سکتی ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف سے پاک بھارت سیریز کے بارے میں مثبت رویے کا بھارت کی طرف سے بھی مثبت جواب آئے گااور دونوں ملکوں میں ڈیڈ لاک کے خاتمے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔