پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ اپریل میں اپنی حکومت کے خاتمے کی وجوہات پر تازہ ترین مؤقف میں کہا ہے کہ اس کے پیچھے امریکہ کا نہیں بلکہ اس وقت کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا ہاتھ تھا‘ جنہوں نے یہ اقدام امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کیا۔ سابق وزیر اعظم نے یہ دعویٰ بقول ان کے ''کچھ نئی معلومات‘‘ سامنے آنے پر کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ چیئرمین تحریک انصاف نے صدر مملکت سے سابق آرمی چیف کے بیانات پر تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ عمران خان کی جانب سے صدر کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ معلومات سے واضح ہے کہ جنرل باجوہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔اگرچہ خان صاحب نے وائس آف امریکہ کے ساتھ اس انٹرویو میں ان معلومات پر سے پردہ نہیں اٹھایا جن کی بنیاد پر انہوں نے یہ انکشاف کیا‘ تاہم ان کے اس دعوے کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ماضی میں اس نوع کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ عوام کو اعتماد میں لئے بغیر'' قومی مفاد‘‘ میں یا امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے نہ صرف خارجہ پالیسی بلکہ اندرونی سیاسی محاذ پر بھی ایسے فیصلے کئے گئے جن کے ضرر رساں نتائج قوم آج تک بھگت رہی ہے‘ مثلاً 1950ء کی دہائی میں سابق سوویت یونین کی دعوت کو نظر انداز کر کے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا امریکہ کے دورے پر روانہ ہونے کا مقصد اُس وقت کی عالمی سیاست میں ابھرتی ہوئی دھڑے بندی میں امریکہ کی توجہ حاصل کرنا تھا‘ مگر پاکستان اس میں ناکام رہا کیونکہ امریکہ اس وقت تک یورپ کو سابقہ سوویت یونین سے لاحق خطرات سے نمٹنے میں الجھا ہوا تھا‘ لیکن مشرقِ وسطیٰ میں عرب قوم پرستی کی ابھرتی ہوئی لہر اور چین میں کمیونسٹ انقلاب کی کامیابی سے جب سرد جنگ کا مرکز یورپ سے ایشیا منتقل ہوا اور پاکستان کو امریکہ کی سرپرستی میں قائم کردہ کمیونسٹ مخالف دفاعی معاہدوں ''سیٹو‘‘ (1954 ء) اور معاہدۂ بغداد (1955ء) میں جگہ مل گئی تو امریکہ کی اقتصادی اور فوجی امداد سے فیض یاب ہونے والی سول اور ملٹری بیوروکریسی کی طرف سے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے متعدد اقدامات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔اس سلسلے میں سب سے پہلے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی لگائی گئی حالانکہ پاکستان نے ایک کثیرالجماعتی (Multiparty) جمہوریت کی حیثیت سے آزادی کا سفر شروع کیا تھا۔ اس میں پاکستان کمیونسٹ پارٹی بھی شامل تھی۔ مارچ 1956ء میں پاکستان کا پہلا آئین نافذ ہوا مگر اس کے تحت عام انتخابات کو بلا جواز مؤخر کیا جاتا رہا اور بالآخر اکتوبر 1958 ء میں اسے منسوخ کر کے مارشل لاء لگا دیا گیا۔ چیف مارشل لا ء ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان نے اس اقدام کا مقصد اگرچہ ملک کو معاشی طور پر دیوالیہ ہونے اور سیاسی عدم استحکام سے بچانا قرار دیا تھا مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کو بعض حقائق کی بنیاد پر یقین تھا کہ 1950ء کی دہائی میں صاف اور شفاف انتخابات کی صورت میں پاکستان میں ایسی سیاسی قوتیں برسر اقتدار آ جائیں گی جنہوں نے اعلانیہ طور پر پاک امریکہ فوجی اتحاد اور دفاعی معاہدوں میں پاکستان کی شمولیت کی مخالفت پر مبنی مؤقف اختیار کر رکھا تھا۔ مشرقی پاکستان اسمبلی نے تو اس مؤقف کے حق میں ایک قرارداد بھی منظور کی تھی۔ پاکستان کی سول اور ملٹری بیوروکریسی کو خدشہ تھا کہ بائیں بازو کی حامی ان جماعتوں کی انتخابات میں کامیابی سے ملک کو امریکہ سے اقتصادی اور فوجی امداد معطل ہو جائے گی۔ اس سے بچنے کیلئے پاکستان میں محض رجیم چینج ہی نہیں کی گئی بلکہ جمہوریت کا گلا بھی گھونٹ دیا گیا۔
پاکستان کے ایک سابق قائدِ حزبِ اختلاف (جو ایوب خان کے بھائی تھے) سردار بہادر خان کا دعویٰ تھا کہ پاکستان میں ہر حکومتی تبدیلی کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ رہا ہے۔ اس آواز میں آواز ملاتے ہوئے پاکستان کے ایک سابق مردِ آہن‘ خان عبدالقیوم خان (جو ملک کے پہلے صدر اور ایوب خان کے ساتھ ساتھ اسکندر مرزا کے بھی کٹر مخالف تھے) نے امریکہ کی خوشنودی کی خاطر پاکستان کے برسرِ اقتدار طبقے کی بھاگ دوڑ کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا تھا کہ جب امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی برسر اقتدار ہوتی ہے تو پاکستان میں سیاسی پارٹیاں یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ بنا لیتی ہیں اور جب ری پبلکن پارٹی کی انتظامیہ آتی ہے تو یہاں (پاکستان میں) بھی ری پبلکن پارٹی قائم ہو جاتی ہے۔ صدر ضیا الحق تو امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے واشنگٹن جا کر امریکیوں کو (چھاتی پر ہاتھ رکھ کر) بڑے فخر سے یقین دلایا کرتے تھے کہ وہ دائیں بازو کے نظریات کے حامی (Rightist) ہیں کیونکہ اس وقت کے امریکی صدر رونلڈ ریگن نے بائیں بازو کے نظریات کے علمبردار اور اعتدال پسند عناصر کے خلاف اعلانِ جنگ کر رکھا تھا۔
یہ ا ب ڈھکی چھپی بات نہیں کہ سوویت یونین کی قابض افواج کے خلاف افغان مزاحمتی جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے سے جنرل ضیا دراصل اپنی غیر آئینی حکومت کی بقا کیلئے امریکہ کی حمایت چاہتے تھے‘ لیکن سابق صدر مرحوم پرویز مشرف کے دور میں جن اچھوتے ہتھکنڈوں سے امریکیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی‘ انہیں ذہن میں لایا جائے تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ جب کبھی کسی اہم امریکی اہلکار کے دورۂ پاکستان کا اعلان ہوتا تھا‘ اسلام آباد سے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر پاکستان کے شمالی قبائلی علاقوں میں بڑے ملٹری آپریشن کو لانچ کرنے کی خبریں شہ سرخیوں کے ساتھ براڈ کاسٹ ہونا شروع ہو جاتی تھیں۔ اس سے پاکستان پہنچنے سے پہلے ہی امریکی اہلکار مطمئن ہو جاتے تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں عوامی سطح پر بوجوہ امریکہ مخالف خیالات کا غلبہ ہے‘ لیکن حکومتوں کے درمیان معاملات پر حقیقت پسندی کی چھاپ گہری ہوتی ہے۔ ایوب خان کے خلاف جس عوامی تحریک کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو نے کی تھی اس میں سب سے اونچی آواز میں لگایا جانے والا نعرہ ''امریکی سامراج مردہ باد‘‘ تھا۔ اور اس کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں دفاعی معاہدوں سے پاکستان کی علیحدگی کے مطالبے کو نمایاں حیثیت حاصل تھی‘ لیکن جب انہوں نے اقتدار سنبھالا تو نہ صرف ''سینٹو‘‘ میں پاکستان کی شمولیت برقرار رکھی بلکہ پاکستان کو امریکی ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی ختم کرانے کے لئے غیر معمولی دوڑ دھوپ بھی کی۔
1953 ء سے اب تک پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ دفاعی اور معاشی لحاظ سے دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے ساتھ قریبی تعلقات اور تعاون کی اہمیت کا اعتراف انفرادی سطح پر نہیں ادارہ جاتی مفادات کی بنیاد پر کیا جاتا رہا ہے اور اس تناظر میں جو اہم فیصلے کئے جاتے رہے ہیں وہ ایک فرد کے نہیں بلکہ اداروں کے اجتماعی فیصلے تھے۔ جلسوں اور جلوسوں میں امریکہ کے خلاف بیان دے کر شرکا کی واہ واہ حاصل کرنے اور بین الاقوامی تعلقات کی واضح حقیقتوں کا سامنا کرنے میں بہت فرق ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ دس ماہ اقتدار سے باہر رہ کر پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم پر بھی یہ حقیقت واضح ہو گئی ہے۔ تبھی تو انہوں نے امریکہ کو اب اپنی حکومت کے خلاف ''سازش‘‘ سے بری الذمہ قرار دے کر اسے کلین چٹ دے دی ہے۔