وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کے تقریباً 15ماہ کے دوران پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بہتری اور اعتماد کی بحالی کی وہ فضا پیدا ہوئی ہے جس کا سابقہ حکومت کے دور میں بہت کم امکان تھا۔ اس کا ثبوت آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں امریکہ کا مثبت کردار ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اپنے ایک بیان میں اس پر شکریے کا اظہار کر چکے ہیں اور اب وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے امریکی ہم منصب انٹونی بلنکن سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے اسی طرح شکریے کا اظہار کیا ہے۔سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور کے آخری برس کے دوران میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں جس قدر سرد مہری پیدا ہو چکی تھی‘ اس کا اندازہ امریکی میگزین ''ٹائم‘‘ میں عمران خان پر چھپنے والے ایک مضمون سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس مضمون میں پاکستان میں تعینات امریکہ کے سابق سفیر کیمرون منٹرنے کہا تھا کہ امریکہ میں یہ عام رائے پائی جاتی ہے کہ پاکستان نے افغانستان کے مسئلے میں امریکہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ یہ مضمون اگست 2021ء میں افغانستان پر طالبان کے قبضے اور امریکی افواج کے انخلا کے بعد چھپا تھا۔
افغانستان سے امریکی افواج کا یہ انخلا اگرچہ 2020ء میں طے پا جانے والے دوحہ معاہدے کے تحت عمل میں آیا تھا لیکن طالبان نے جتنی سرعت کے ساتھ کابل پر قبضہ کیا اور امریکیوں کے انخلا کے دوران جو بھگدڑ اور بدانتظامی دیکھنے میں آئی‘ نہ صرف پوری دنیا بلکہ خود امریکہ میں اسے طالبان کی فتح اور امریکہ کی شکست سے تعبیر کیا گیا ۔ ایسے میں پاکستان کے ایک ٹاپ انٹیلی جنس افسر کا کابل کا دورہ اور اس دورے کے دوران میں طالبان کے ساتھ چائے پینے کی تصویر کا وائرل ہونا اور اُس وقت کے وزیر اعظم کی طرف سے ایک پبلک بیان میں طالبان کے کابل پر قبضے کو افغانستان کی آزادی قرار دینا امریکہ کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف تھا۔ پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کے مطابق‘اس ہزیمت کو روکنے کیلئے امریکہ نے گزشتہ دو دہائیوں میں پاکستان کو 22 بلین ڈالر کی امداد فراہم کی تھی۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کے قیام کے تقریباً ایک ماہ بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان سرکاری سطح پر پہلی دفعہ رابطہ ہوا ۔ اس وقت امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو ٹیلی فون پر نیو یارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں فوڈ سکیورٹی پر ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی ۔ اس کانفرنس کی صدارت مسٹر بلنکن کرنے جا رہے تھے اور اس موقع پر امریکی اور پاکستانی وزرائے خارجہ کے درمیان جو ملاقات ہوئی وہ ایک گھنٹہ جاری رہی۔ اس ملاقات کے اختتام پر سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جو بیان جاری کیا گیا اس کے مطابق اس بات چیت میں پاک امریکہ تعلقات کے تمام پہلوئوں پر بحث کی گئی جن میں دو طرفہ تعلقات کے علاوہ عالمی اور علاقائی مسائل بھی شامل تھے۔ دو طرفہ تعلقات میں تجارت‘ سرمایہ کاری‘ موسمیاتی تبدیلی‘ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینا شامل تھا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان شعبوں میں تعاون کو ڈائیلاگ اور پالیسی فیصلوں کے ذریعے فروغ دینے کیلئے اعلیٰ سطح پر مذاکرات کئے جائیں گے۔ اس ملاقات میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں مثبت پیش رفت دیکھنے میں آئی جس کا ثبوت اس کے کچھ عرصہ بعد FATF کی گرے لسٹ سے پاکستان کا اخراج اور گزشتہ برس سیلاب کے دوران امریکہ کی طرف سے پاکستان کو امداد شامل ہے۔ جنوری 2023 ء کی جنیوا کانفرنس میں عالمی برادری کو پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر قابو پانے میں آمادہ کرنے پر امریکہ کا کردار اور حال ہی میں آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں امریکی معاونت اس کے علاوہ ہے۔
پاکستان میں امریکی سفیر مسٹر بلوم نے 29ستمبر 2022ء کو پاک امریکہ تعلقات کے 75 سال مکمل ہونے پر اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے پاکستان کو معاشی شعبے میں استحکام دلانے میں مدد کی ہے۔ اس سے نہ صرف پاکستان کو اپنی آزادی اور خود مختاری کے استحکام میں مدد ملی بلکہ پاکستان اور امریکہ کے قریبی تعلقات نے عالمی سیاست پر بھی اثرات مرتب کئے۔ گزشتہ پندرہ ماہ میں پاکستانی وزیر خارجہ اور امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ دو دفعہ بالمشافہ ملاقات اور چاردفعہ ٹیلی فون پر بات چیت کر چکے ہیں۔ ان ملاقاتوں اور ٹیلی فون پر بات چیت کے نتیجے میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو مزید وسیع اور گہرا کرنے کا عمل مثبت انداز میں آگے بڑھا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کو آگے بڑھانے کیلئے ڈائیلاگ کے چھ دور ہو چکے ہیں اور اعلیٰ سطح پر حکومتی اہلکاروں کے تبادلوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ان ملاقاتوں اور بات چیت کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ پاکستان امریکہ تعلقات چند علاقائی اور عالمی مسائل پر اختلافات سے پاک ہیں‘ لیکن دونوں طرف ان تعلقات کو نہ صرف جاری رکھنے بلکہ مضبوط بنانے کی خواہش موجود ہے۔ اس کی وجہ جیسا کہ امریکی سفیر نے اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ دونوں ملکوں کے تعلقات نہ صرف باہمی مفاد بلکہ علاقائی اور عالمی امن کے استحکام کیلئے بھی ضروری ہیں۔
پاکستان کے نقطہ نظر سے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ پاکستانی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ پاکستان کے سمندر پار مختلف ملکوں میں کام کرنے والے پاکستانیوں میں سے ساڑھے پانچ لاکھ امریکہ میں آباد ہیں‘ جو نہ صرف امریکہ بلکہ پاکستان میں بھی معاشی اور سماجی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ فُل برائٹ پروگرام کے تحت امریکہ مختلف ممالک سے جن طلبا کو مالی امداد فراہم کر کے امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے‘ ان میں سب سے زیادہ تعداد پاکستانی طلبا کی ہوتی ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان سٹریٹجک پارٹنرشپ کے تحت متعدد شعبوں میں تعاون کا سلسلہ جاری ہے جن میں تعلیم‘ صحت‘ موسمیاتی تبدیلی‘ وومن ایمپاورمنٹ‘ زراعت اورآبی وسائل کی مینجمنٹ کے علاوہ توانائی بھی شامل ہے۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ دونوں ممالک نہ صرف آپس میں بعض مسائل پر اختلافات کا اعتراف کرتے ہیں بلکہ ان کے ہوتے ہوئے باہمی اعتماد کو بحال کرنے اور باہمی تعلقات خصوصاً تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں کو فروغ دینے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ ایک نہایت مثبت طرزِ عمل ہے۔ جیسا کہ امریکی سفیر نے اسلام آباد کی تقریب میں کہا تھا کہ ہمارے تعلقات میں علاقے کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات پر پابندی نہیں‘ اور نہ یہ پابندی ہونی چاہئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات کے ہوتے ہوئے بھی پاکستان علاقے کے دیگر ممالک مثلاً روس‘ چین اور ایران کے ساتھ دوستانہ اور باہمی تعاون پر مبنی تعلقات قائم کر سکتا ہے اور یہی آزادی امریکہ کو بھی حاصل ہے۔