بھارت کے خلائی مشن چندریان کی چاند کے جنوبی قطب کے خطے میں لینڈنگ سے کم از کم ایک بات تو ثابت ہو گئی ہے‘ وہ یہ کہ چاند پر پہنچنے کی دوڑ اب ترقی یافتہ اور امیر ملکوں تک محدود نہیں رہی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ دوڑ بہت مہنگی تھی اور اس میں شامل ہونا اور پھر کامیابی حاصل کرنا ہر ملک کے بس کی بات نہیں تھی۔ اسی لیے آج تک اس میں مقابلہ امریکہ‘ روس (سابق سوویت یونین) اور چین کے درمیان رہا ہے‘ مگر بھارت نے چاند پر اب تک بھیجے جانے والے مشنز پر آنے والی لاگت کے مقابلے میں بہت کم لاگت میں خلائی مشن مکمل کر کے اہم کامیابی حاصل کی ہے۔
1969ء میں امریکہ نے اپنا خلائی جہاز اپالو 11‘ جس پر نیل آرمسٹرانگ سوار تھا‘ چاند پر بھیجا تو اس پر اُس وقت 355 ملین ڈالر کی لاگت آئی تھی اور 1972ء میں چاند کے لیے اپنے آخری خلائی مشن اپالو 17 پر امریکہ کو 450 ملین ڈالر خرچ کرنا پڑے تھے۔ اس کے مقابلے میں بھارت نے چندریان پر 74.6 ملین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ بھارت نے دیگر ممالک کے برعکس کم قوت کے راکٹ استعمال کیے اور چاند کی طرف چندریان کو لے جانے والے جہاز کو اپنے سفر کو جاری رکھنے سے قبل زمین کے مدار میں متعدد چکر لگانے پڑے تاکہ چاند تک پہنچنے کے لیے مطلوبہ قوت حاصل کی جا سکے۔
چاند پر خلائی جہاز بھیجنے کی بھارت کی یہ دوسری کوشش ہے۔ چار سال قبل بھارت نے اسی قسم کی کوشش کی تھی مگر لینڈنگ سے کچھ ہی دیر قبل لینڈر گر کر تباہ ہو گیا تھا۔بھارت کے چندریان تھری کی بحفاظت لینڈنگ ایک اہم کامیابی ہے جس پر پورے بھارت میں بجا طور پر جشن منایا گیا‘ لیکن کچھ حلقوں‘ جن میں بھارت کے ہمسایہ ممالک بھی شامل ہیں‘ میں یہ سوالات ضرور پیدا ہوں گے کہ حکمران پارٹی بی جے پی کے رہنما اور بھارت کے وزیر اعظم اپنے ملک کے سائنسدانوں اور انجینئروں کی لگن اور خدمت کے ثمر کو اپنی تنگ نظر اور انتہا پسندانہ سیاست کے لیے کس حد تک استعمال کرتے ہیں‘ کیونکہ نریندر مودی کی قیادت میں بھارت نے یہ اعزاز اس وقت حاصل کیا ہے جب اگلے پارلیمانی انتخابات میں چھ ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے‘ اور اگرچہ سیاسی پنڈت لگاتار تیسری دفعہ بی جے پی کی کامیابی کی پیشگوئی کر رہے ہیں‘لیکن مودی حکومت کو سنگین انتخابی چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ آسام میں جہاں گزشتہ ساڑھے چار سال سے بی جے پی کی ریاسی حکومت چلی آ رہی ہے حالیہ چند مہینوں میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں سینکڑوں افراد کے ہلاک ہونے کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ اس سے قبل جنوبی بھارت کی ایک اہم ریاست کرناٹکا کے ریاسی انتخابات میں بھی بی جے پی کو شکست ہوئی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کرناٹکا کی اس ریاست میں حکمران بی جے پی کو اپوزیشن پارٹی کانگرس کے ہاتھوں شکست ہوئی جسے گزشتہ (2019ء) کے پارلیمانی انتخابات میں نریندر مودی شکست فاش دے کر اس کے خاتمے کا اعلان کر چکے تھے‘ مگر اب اگلے انتخابات (2024ء) میں اسے سب سے بڑا چیلنج کانگرس کی طرف سے ہی آنے کا امکان ہے کیونکہ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے کانگرس کے رہنما اور لوک سبھا میں اپوزیشن کی سب سے اونچی آواز راہول گاندھی کی دو برس کی سزا اور پارلیمنٹ کی رکنیت سے معطلی کو ختم کرنے کے بعدکانگرس کے سیاسی قد کاٹھ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی سربراہی میں تشکیل پانے والے بی جے پی مخالف اپوزیشن اتحاد (آئی این ڈی آئی اے) کو وزیر اعظم نریندر مودی نظر انداز نہیں کر سکتے کیونکہ اس میں اب ایسی پارٹیاں مثلاً عام آدمی پارٹی‘بھی شامل ہو گئی ہیں جو ملک گیر سطح پر بی جے پی کے ہم پلہ نہیں مگر علاقائی سطح پر پاپولر اور مضبوط پارٹیاں ہیں۔
وزیر اعظم مودی اگر اگلے پارلیمانی انتخابات میں اپنی کامیابی کے امکانات کو بڑھانے کے لیے چندریان تھری کی کامیاب لینڈنگ کو استعمال کرنا چاہیں تو یہ ایک نئی یا تعجب خیز بات نہیں ہو گی۔ ماضی میں اس قسم کی سائنسی خلائی کامیابیوں کو قومیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ اس کی سب سے نمایاں مثال امریکہ اور سابق سوویت یونین کے درمیان پرانی سرد جنگ کے دور کی خلائی دوڑ ہے۔ اپریل 1961ء میں جب روس کے شہرہ آفاق خلاباز یوری گگرین اپنے خلائی جہاز میں تاریخ میں پہلی دفعہ زمین کے گرد خلا میں چکر لگا کر زمین پر کامیابی سے اتر گئے تو عالمی سطح پر سوویت یونین کی سیاسی ساکھ کو بہت بڑا بُوسٹ ملا۔ سوویت یونین کے رہنما خروشیف نے اپنے سائنسدانوں اور انجینئروں کی اس کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹا۔ روس کی اس عظیم خلائی کامیابی سے اسے امریکہ کے ہم پلہ سائنسی اور دفاعی قوت سمجھا جانے لگا بلکہ یہ تاثر پیدا ہوا کہ روس نے امریکہ کو خلائی دوڑ میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس تاثر کو زائل کرنے اور خلائی ریسرچ میں اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے امریکہ کے اُس وقت کے صدر جان ایف کینیڈی نے اعلان کیا تھا کہ چاند کی سطح پر قدم رکھنے والا سب سے پہلا انسان امریکی ہو گا۔ اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے امریکہ نے اپنے خلائی پروگرام خاص طور پر انسان بردار خلائی جہاز کو چاند کی سطح پر اتارنے کے پروجیکٹ پر تیزی سے کام شروع کر دیا اور آخر کار 20 جولائی 1969ء کو امریکہ کے خلائی جہاز اپالو 11 نے چاند کی سطح پر اترنے میں کامیابی حاصل کر لی۔ اس جہاز میں تین امریکی خلاباز سوار تھے جن میں نیل آرمسٹرانگ بھی شامل تھے جو چاند پر چہل قدمی کرنے والے پہلے انسان کے طور پر مشہور ہوئے۔ امریکہ کی اس کامیابی کا افسوسناک پہلو یہ تھا کہ صدر کینیڈی اپنے ملک کے سائنسدانوں اور انجینئروں کی اس کامیابی کو دیکھنے کے لیے دنیا میں موجود نہیں تھے کیونکہ وہ 1963ء میں ایک قاتل کی گولی کا نشانہ بن چکے تھے‘ مگر امریکی خلائی ریسرچ کی ترقی میں ان کی دلچسپی اور خدمات کے نتیجے میں آج ان کا ملک اس دوڑ میں سب سے آگے ہے۔
بی جے پی کو بھی جب سب سے پہلے (1998ء) میں حکومت ملی تو اس نے چار اہداف کے حصول پر مشتمل اپنے پارٹی منشور کا اعلان کیا تھا۔ ان میں رام مندر کی تعمیر‘ بھارت کو ایٹمی قوت بنانا‘ کشمیر میں آرٹیکل 370 کی تنسیخ اور بھارت کے تمام شہروں کے لیے یکساں سول کوڈ‘ شامل تھے۔ ان میں سے بھارت کو ایٹمی قوت بنانے کا ہدف مئی 1998ء میں حاصل کر لیا گیا تھا۔ اُس وقت آنجہانی اٹل بہاری واجپائی بھارت کے وزیر اعظم تھے۔ باقی تین مقاصدنریندر مودی کے حصے میں آئے جو مئی 2014ء سے بھارت کے وزیر اعظم ہیں۔ اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ رام مندر کے دیرینہ اور پیچیدہ مسئلے کو انتہا پسند ہندوئوں کی شرائط پر حل کرنے میں کامیابی اور بھارتی شہریوں کے لیے ایک جیسے سول قوانین کے اجرا نے بی جے پی خصوصاً وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ 2024ء کے پارلیمانی انتخابات میں وہ گزشتہ انتخابات کی طرح دو تہائی سے بھی زیادہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے چندریان تھری کی کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش نہ کریں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یہ صرف بھارت کے ان شہریوں کے لیے ہی مایوسی کا سبب نہیں ہو گا جو سیاسی مفاد کے لیے سائنسی کامیابی کے استعمال کے خلاف ہیں بلکہ دنیا بھر میں اسے تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا کیونکہ سائنس کے میدان میں کامیابی انسانیت کی اجتماعی میراث سمجھی جاتی ہے۔ اسے کسی فرد پارٹی یا قوم اور گروہ کے محدود مفادات کے فروغ کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔