چند دن ہوئے پاکستان تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کے ایک رکن کا یہ بیان سامنے آیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی اداروں اور سیاسی جماعتوں سے گفتگو کے لیے تیار ہیں۔ اس سے قبل ان کی طرف سے صرف مقتدر حلقوں کے ساتھ بات چیت کا عندیہ دیا جاتا رہا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب اپنی سیاسی حریف جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھ کر بات چیت کے لیے رضا مندی ظاہر کی گئی لیکن دوسری سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس پیشکش پر کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی جس کی ممکنہ وجہ چیئرمین تحریک انصاف کا ماضی میں ان جماعتوں کے خلاف اختیار کیا گیا جارحانہ رویہ ہو سکتا ہے جبکہ بعض سنجیدہ حلقوں کی طرف سے اس تجویز کی حمایت بھی کی گئی۔ پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما علی محمد خان نے بھی ایک ٹی وی پروگرام میں اس تجویز کی حمایت کی ہے اور پی ٹی آئی میں یقینا ایسے مزید رہنما بھی ہوں گے جو متحارب سیاسی گروپوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے اہم مسائل پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے حق میں ہوں گے لیکن دوسری طرف سے اس آئیڈیا کو آگے نہیں بڑھایا گیا۔ بعض حلقوں کے نزدیک اس کی وجہ نو مئی کے واقعات ہو سکتے ہیں۔ ان واقعات سے قبل پی ڈی ایم کی سابقہ حکومت اور پی ٹی آئی کے وفود کے درمیان مذاکرات کے تین راؤنڈز میں فریقین کے درمیان قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایک ساتھ انتخابات پر اتفاق ہو گیا تھا۔ صرف اسمبلیوں کی تحلیل اور اس کے بعد انتخابات کی تاریخ کے تعین کا مسئلہ باقی رہ گیا تھا۔ اس پر بھی اتفاقِ رائے کے واضح اور روشن امکانات موجود تھے کیونکہ مذاکرات میں حصہ لینے والے رہنماؤں نے اس پر کافی لچک دکھائی تھی لیکن پی ٹی آئی کی طرف سے قومی اسمبلی‘ سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کو 14مئی سے قبل تحلیل کرنے کا مطالبہ کر دیا گیا اور پی ٹی آئی چیئرمین نے اعلان کیا کہ صرف اسی صورت میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو ایک ساتھ کرانے کا معاہدہ قبول کیا جائے گا۔ پی ڈی ایم نے چیئرمین تحریک انصاف کے اس مطالبے کو مسترد کر دیا اور اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر وہ اپنی شرائط پر بضد رہے تو اس سال انتخابات کا انعقاد مشکل ہو جائے گا اور اس صورت میں سب سے زیادہ نقصان چیئرمین تحریک انصاف اور ان کی جماعت کا ہوگا۔ بعض طبقات کا خیال ہے کہ اگر پی ڈی ایم حکومت اور پی ٹی آئی کے یہ مذاکرات جاری رہتے تو فریقین کے درمیان یقینی طور پر اسمبلیوں کی تحلیل اور انتخابات کے انعقاد کی ایک تاریخ پر اتفاق کا بڑا مضبوط امکان تھا اور پارلیمانی انتخابات موجودہ سال کے ختم ہونے سے قبل منعقد ہو جاتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فریقین نے مذاکرات کے دوران اپنے اپنے موقف میں لچک دکھانا شروع کردی تھی۔
پی ٹی آئی کی طرف سے مذاکرات میں حصہ لینے والے سینیٹر علی ظفر نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ اس بارے بہت پُرامید ہیں اور انہیں یقین ہے کہ مذاکرات کے اگلے راؤنڈز میں حکومت اور پی ٹی آئی اسمبلیوں کی تحلیل کی متفقہ تاریخ پر متفق ہو جائیں گے۔ سابقہ حکومت کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے بھی اسی طرح کی حوصلہ افزا بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت قومی اسمبلی کو آئینی مدت پوری ہونے سے قبل تحلیل کرنے پر راضی ہے‘ چند دن پہلے یا چند دن بعد سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے اس طرف بھی اشارہ کر دیا تھا کہ سندھ اور بلوچستان کو بھی قبل از وقت اسمبلیوں کی تحلیل پر راضی کر لیا جائے گا۔ مگر پھر مبینہ طور پر چیئرمین پی ٹی آئی کی ہدایت پر مذاکرات کا یہ سلسلہ ختم کر دیا گیا کیونکہ وہ 14مئی سے قبل اسمبلیوں کی تحلیل پر مُصر تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ حکومت پر دبائو ڈال کر اپنا مطالبہ منظور کروا لیں گے لیکن حکومت دباؤ میں نہ آئی اور اس دوران 9مئی کے واقعات رونما ہو گئے جنہوں نے ملکی سیاست کی حرکیات کو بدل کر رکھ دیا۔
ان واقعات سے پہلے کی سیاست میں انیشی ایٹو پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین کے ہاتھ میں تھا جو سیاست کی شطرنج پر مختلف چالوں‘ مثلاً قومی اسمبلی سے مستعفی ہونا‘ پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں کو تحلیل کرنا اور جلسے جلوس اور لانگ مارچ کا انعقاد کر کے سیاست کی پوری بساط پر اثر انداز ہو رہے تھے۔ ان کی ایسی چالوں کے بعد سابق حکومت پر فوری انتخابات یا کم از کم مذاکرات کیلئے عوامی دبائو میں اضافہ ہو جاتا تھا لیکن نومئی کے بعد سے صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ اس کے بعد سے سیاسی قوتیں انیشی ایٹو کی طاقت کھو چکی ہیں اور اب بے یقینی کے عالم میں تماشا دیکھ رہی ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں نا! کہ کشتی بغیر پتوار کے چلی جا رہی ہے‘ اسی طرح ملک شتر بے مہار کی طرح چلا جا رہا ہے۔ کوئی سمت متعین نہیں‘ ملک کے ارد گرد علاقوں اور خطوں میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں‘ مگر ہمارے حکمرانوں کی طرف سے کوئی ردِعمل نہیں۔ بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات کے مطابق اپنے آپ کو بدلنے یا اپنی سمت درست کرنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ اس کی غالب وجہ یہ ہے کہ شاید ریاستی ڈھانچے میں کوئی سکت باقی نہیں رہی۔ بگڑتی ہوئی معیشت کو درست کرنے میں ناکامی‘ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ‘ فرقہ وارانہ فسادات میں تیزی اور لا اینڈ آرڈر کا بریک ڈائون اس انحطاط کی نشانیاں ہیں۔ ان واضح اشارات کے باوجود پرانی روش چھوڑنے پر آمادگی نہیں بلکہ آزمائے ہوئے نسخوں کو دوبارہ آزمانے کے لیے سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں۔
سیاست میں اختلاف اور مقابلہ نہ صرف معمول کی بات ہے بلکہ ایک صحت مند معاشرے کی نشانی ہے بشرطیکہ اس کا انجام'' کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کے اصول کی بنیاد پر ہو مگر پاکستان کی موجودہ صورتحال میں متحارب سیاسی گروہ ایک دوسرے کے ساتھ کمپرومائز نہیں بلکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اپنی بالا دستی قائم کرنے پر تلے نظر آتے ہیں، بلکہ سترہویں صدی کے انگریز سیاسی مفکر تھامس ہابس (Thomas Hobbes) کی ایک نظم معاشرے کے وجود میں آنے سے پہلے حالت فطرت(State of nature) کی طرح ایک دوسرے سے برسر پیکار (War of everyone against everyone) نظر آتے ہیں۔ اس قسم کی صورت حال کا جاری رہنا ملکی بقا کیلئے خطرے سے خالی نہیں ہے‘ مگر بدقسمتی سے اس خطرے کو ٹالنے کیلئے کسی طرف سے کوئی کوشش ہوتی نظر نہیں آتی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کی صورتحال سے باہر نکلنے کا راستہ صرف سیاسی قوتوں کے درمیان مذاکرات اور مفاہمت کے ذریعے ہی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ مگر معاشرے میں سیاسی بنیادوں پر تقسیم اس قدر گہری ہو چکی ہے کہ سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر اعتماد کرنے پر تیار نہیں۔ پہلے پی ٹی آئی کی طرف سے سیاسی مخالفین کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات پر ہلکی سی آمادگی نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے کا آغاز کردیا تھا لیکن اب چیئرمین پی ٹی آئی کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کے باوجود دوسری طرف سے کوئی حوصلہ افزا جواب نہیں۔ یہ کوئی حقیقت پسندانہ اپروچ نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے بعض مطالبات‘جو ان سیاسی جماعتوں کے لیے قابلِ قبول نہیں‘ بھی ان مذاکرات کی راہ میں حائل نظر آتے ہیں۔ ان دونوں انتہا پسندانہ پوزیشنز کے درمیان کی کوئی اپروچ اختیار کرکے ہی ملک کی کشتی کو بھنور سے نکالا جا سکتا ہے۔