"DRA" (space) message & send to 7575

انتخابات اور انتخابی اتحاد

آٹھ فروری 2024ء اگلے عام انتخابات کی تاریخ ہے۔ اس کا اعلان صدرِ مملکت اور چیف الیکشن کمشنر کی باہمی مشاورت کے بعد مشترکہ طور پر کیا گیا ہے‘سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی کہا ہے کہ اب کوئی شکوک و شبہات پیدا نہ کرے‘ آٹھ فروری کو ہر صورت انتخابات ہوں گے۔ ملک کی بیشتر سیاسی پارٹیوں نے بھی جس طرح اس تاریخ پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور اسے خوش آئند قرار دیا ہے اس سے یہ امید قوی تر ہو جاتی ہے کہ انتخابات اگلے سال آٹھ فروری ہی کو ہو ں گے۔ہر چند کہ سیاست میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی‘ ہم فی الحال یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس بار انتخابی معرکے میں حصہ لینے والے کردار یعنی سیاسی پارٹیوں کی صف بندی کیا ہو سکتی ہے؟
وہ دن گئے جب سیاسی پارٹیوں کی تقسیم یا صف بندی نظریے کی بنیاد پر ہوا کرتی تھی۔ اب سیاسی پارٹیوں کو نظریے کی بنیاد پر تقسیم کرنے والی لکیر بہت مدھم پڑ چکی ہے اور اس کی جگہ نمبرز گیم نے لے لی ہے‘ جسے جیتنے کے لیے ہر پارٹی ہر قسم کے ہتھکنڈے‘ جوڑ توڑ اور سمجھوتے کرتی ہے‘ جن کا نظریاتی وابستگی سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر ماضی کی طرح بڑے بڑے انتخابی اتحادوں کا کوئی امکان نہیں البتہ علاقائی اور مقامی سطح پر حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے امکانات موجود ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 76 سال گزر نے کے باوجود ہمارے حلقۂ ہائے انتخاب (Electorate) ابھی تک ذات برادری اور مقامی مسائل کے اثرات سے آزاد نہیں ہو سکے۔ قومی اسمبلی کے مقابلے میں صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے لیے مقامی طور پر جوڑ توڑ اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت زیادہ پڑتی ہے کیونکہ جن مسائل کی روشنی میں یہ انتظامات کیے جاتے ہیںان کے لیے صوبائی حکومتیں زیادہ اہم ہوتی ہیں۔ پاکستان کی تین بڑی سیاسی پارٹیوں میں سے دو یعنی پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے تو واضح کر دیا تھا کہ وہ کسی پارٹی یا پارٹیوں کے ساتھ انتخابی اتحاد میں دلچسپی نہیں رکھتیں‘ البتہ مقامی سطح پر جہاں ضرورت پڑی کسی بھی پارٹی کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کے لیے تیار ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اعلان کیا ہے کہ وہ پنجاب کے علاوہ تمام صوبوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے تیار ہے۔ ایم کیو ایم کے ایک اعلیٰ سطحی وفد کی گزشتہ روزجاتی امرا میں مسلم لیگ(ن) کی قیادت سے ملاقات اور مشترکہ انتخابی حکمت عملی پر اتفاق کرتے ہوئے مل کر الیکشن لڑنے کا اعلان مسلم لیگ (ن) کی اسی انتخابی حکمت عملی کو واضح کرتی ہے ۔
مسلم لیگ (ن)پنجاب میں تمام قومی و صوبائی نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کر چکی ہے حالانکہ پی ڈی ایم فعال تھی تو مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما رانا ثنااللہ اور احسن اقبال نے ایک سے زیادہ دفعہ اپنے بیانات میں عندیہ دیا تھا کہ پی ڈی ایم کو انتخابی اتحاد میں تبدیل کیا جا سکتا ہے‘ لیکن نو مئی کے واقعات کے بعد جب سے پی ٹی آئی کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے اور اس کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم مختلف مقدمات میں گرفتار ہیں‘ (ن) لیگ نے اپنا موقف تبدیل کر لیا ہے۔ اب وہ پنجاب میں کسی پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کرے گی۔(ن) لیگ کے اس مؤقف سے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت ناراض نظر آتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے اپنی سابق اتحادی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے خلاف بیان بازی اور الزامات کی بنیادی وجہ یہی ہے‘ کیونکہ گزشتہ برس اپریل میں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر (ن) لیگ کو آن بورڈ لینے اور پی ڈی ایم حکومت کو جاری رکھنے تک تمام کوششوں کا مقصد (ن) لیگ کے ساتھ انتخابی اتحاد کے ذریعے پنجاب میں پی پی پی کے لیے جگہ بنانا تھا ‘مگر (ن) لیگ کے قائد میاں نواز شریف کی وطن واپسی سے پہلے پارٹی کے اس اعلان کہ وہ پنجاب میں کسی پارٹی سے انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کرے گی‘ نے پیپلز پارٹی کی قیادت کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ انہوں نے پاکستان میں میاں شہباز شریف اور دبئی میں میاں نواز شریف سے ہنگامی ملاقاتیں کرکے (ن) لیگ کو اپنے سابقہ مؤقف پر لانے کی ناکام کوشش بھی کی۔
تاہم پنجاب کے بجائے سندھ انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے زیادہ موزوںثابت ہو ا۔ اس کی بڑی وجہ نہ صرف سندھ کے دیہی بلکہ شہری علاقوں میں بھی پیپلز پارٹی کا مضبوط چیلنج ہے‘ جس کا مقابلہ کرنے کے لیے ایم کیو ایم نے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) سے انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی کوششوں کا آغاز کیا ‘ مگر گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس ایم کیو ایم سے زیادہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد کا امکان دکھائی دیتا ہے‘ جبکہ ایم کیو ایم بھی گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے ملاقات کے بعد مل کر انتخابات پر اتفاق رائے قائم کر چکی ہے۔سندھ خصوصاً کراچی میں جماعت اسلامی ایک نئے عنصر کے طور پر ابھری ہے لیکن اس کی یہ کامیابی ابھی بلدیاتی سطح تک محدود ہے۔ قومی سطح پر انتخابات کے محرکات مختلف ہوتے ہیں تاہم جماعت اسلامی کاایم کیو ایم یا جی ڈی اے سے زیادہ پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا امکان ہے۔
بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی (ن) لیگ کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا ہے‘ البتہ اس پارٹی کے بانی اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال کی ساتھیوں سمیت بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ ملاقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی بلوچستان میں آزاد مگر بااثر امیدواروں پر اپنی توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کو کسی دوسری پارٹی کے ساتھ اتحاد قائم کرنے یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت نہیں ‘لیکن سندھ سے باہر دوسرے صوبوں خصوصاً پنجاب میں کسی Winning پارٹی کے ساتھ اتحاد کر کے قومی اسمبلی میں اپنے نمبرز میں اضافہ کرنے کے لیے بے تاب ہے۔وہ (ن) لیگ سے مایوس ہو کرپی ٹی آئی کے ساتھ انتخابی اتحاد کا عندیہ دے چکی ہے‘ لیکن ابھی اس سمت کوئی ٹھوس یا نمایاں پیشرفت نہیں ہوئی۔
مبصرین کے نزدیک عمران خان آصف علی زرداری کے ساتھ اتحاد پر آمادہ نظر نہیں آتے لیکن سیاست میں سب ممکن ہوتا ہے۔ اگر عمران خان اس شخص کو‘ جسے وہ کبھی پنجاب کا سب سے بڑاڈاکو قرار دے چکے ہیں‘ اپنی پارٹی کا صدر قبول کر سکتے ہیں تو ان کے لیے (ن) لیگ کے خلاف اتحادی کے طور پر آصف علی زرداری قابلِ قبول کیوں نہیں ہوں گے؟ چنانچہ انتخابات کے اعلان کے بعد ہم ملک میں سیاسی پارٹیوں کی صف بندی پر مشتمل ایک بالکل نئے اور دلچسپ منظر کو ابھرتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت میں شامل دو جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب اور سندھ میں ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑی ہوں گی۔ جہاں تک مذہبی سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے‘ افغانستان کی جنگ کے خاتمے اور طالبان کے ساتھ پاکستان کے بگڑتے ہوئے تعلقات کے بعد جو انجن ان کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا کرنے کے لیے پاور سپلائی کرتا تھا‘ اس کا ایندھن ختم ہو چکا ہے۔ اب ہر مذہبی سیاسی پارٹی اپنی انفرادی حیثیت میں انتخابی معرکے میں شریک ہو گی یا وہ 1990ء کی سیاست کے مطابق کسی بڑی پارٹی کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کی کوشش کرے گی۔ تحریک لبیک پاکستان کا (ن) لیگ اور جماعت اسلامی کا پی ٹی آئی کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کا زیادہ امکان ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں